موت بھی ایک فن ہے/احمر نعمان

Dying Is an art, like everything else. I do it exceptionally well.
دو تین روز قبل حسیب بھائی کی ڈپریشن پرپوسٹ دیکھی اور اگلے روز اتفاق سے سلویہ پلاتھ کی سطور کا ترجمہ؛
“موت کس قدر خُوب صُورت ہو گی ۔ نرم بُھوری مٹی میں سَما جانا , “اُوپر گھاس کا ھَوا میں لہرانا اور خاموشی کو خاموشی سے سُننا ۔ نہ بیت ہُوئے کل کا دھیان , نہ آنے والے کل کا گیان ۔ وقت کو بُھول جانا , زندگی کو معاف کر دینا , بس ھمیشہ کے لئے تَھم جانا ۔ ” – سلویہ پلاتھ

میرا اس پوسٹ پر کمینٹ تھا کہ یہی مانتے سلویہ نے بھری جوانی میں خود کشی کر لی تھی۔۔ کچھ اور جی لیتی تو مزید شاہکار پڑھنے کو ملتے،; صاحب پوسٹ نے درست جواب دیا کہ “شاید ادیب اور شاعر لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں , حیات کی تلخی اور رنج کی فراوانی کا اثر اِن پر گہرا ہوتا ہو گا ۔”
سلویہ بہت ہی متاثرکن شاعرہ تھیں، میرا ان سے تعارف ان کی یہ چونکا دینے والی سطر دیکھ کر ہوا تھا؛
Every woman adores a Fascist

30برس کی عمر میں انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا، اس سے قبل محض دس برس کی عمر میں ایک ناکام کوشش کی، 21 برس کی عمر میں دوسری ناکام کوشش کی اور 30  برس کی عمر میں تیسری کوشش، جو اَدب کی بدقسمتی تھی کہ کامیاب ہوئی؛خودکشی کے وقت ان کی صاحبزادی فریڈا جو بعد میں خود بھی شاعرہ ہوئیں، محض دو برس کی تھیں اوربیٹا تین برس۔ آخری کوشش سے چند ماہ قبل لکھی ان کی شہرہ آفاق نظم میں یہ اعتراف ملتے ہیں۔
And I am a smiling woman.
I am only thirty.
And like the cat, I have nine times to die.
This is Number Three.
What a trash To annihilate each decade.
اسی نظم lady Lazarus لیڈی لزارس کی معروف لائن تو اوپر درج ہے؛ “مرنا بھی ایک فن ہے جیسے دیگر فنون اور میں یہ بہترین کرتی ہوں۔
انکی ایک اور معروف نظم ڈیڈی جو مجھے پسند نہیں مگر اس نظم کی فضا، استعارات اور چونکا دینے والی (ہماری روایتی شاعری میں جسے چترا کہتے ہیں) خاصیت موجود ہے، کہیں والد کو قتل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔
Daddy, I have had to kill you.
مگر وہ تو مر چکے ہیں، تو کیا یہ مردہ والد کی یاد کا قتل ہے؟ کہیں وہ ماں کو یہودی اور والد کو نازی بتاتی ہیں، (جبکہ درحقیقت ایسا نہیں تھآ)، اپنی ناکام شادی اور کہیں شوہر کو والد سے ملا کر دونوں کو خون آشام بلائیں بتانا، اور واشگاف کہنا
drank my blood for a year, / Seven years, if you want to know

اگر آپ فرائیڈ ، کارل ژونگ شوق سے پڑھتے ہیں مگر سلویہ کی شاعری نہیں پڑھی تو سمجھیے آپ نے مس کر دیا ہے۔
فرائڈ کا ماننا تھا کہ زندگی کا مقصد موت ہے، سلویہ کے لیے زندگی شاعری ہے، ان دونوں کو ملائیں تو کیا بنا؟
یعنی شاعری موت ہے۔ The blood jet is poetry, / There is no stopping it.”

سلویہ کی شاعری سب کے لیے نہیں مگر اگر آپ کو پسند آئی تو پھر اردو شاعری آپ کے لیے بےمعنی ہے۔ ایک نظم میں وہ موت اور زندگی کو اپنے ہی اسلوب میں بتاتی ہیں جہاں وہ آغاز ہی پھولوں کا ایک ایمبولینس میں سوار ایک عورت کے دل، جس سے خون نکل رہا ہے انہیں   بیان کرتی ہیں۔

اردو شاعری میں ایسی فضا، ایسا ماحول، ایسی دہشت، تمثیلات، استعارے کہاں ہیں؟ نقاد ہمارے سارہ شگفتہ جیسی اوسط شاعرہ کو محض ان کے سابقہ شوہر احمدجاوید اور انکے شاید بےبنیاد اعتراف پر ملاتے ہیں ورنہ ایک گھڑَے ہوئے اعتراف اور سلویہ پلاتھ کی رونگٹے کھڑے کرتی شاعری میں مشترک کیا ہے؟ مجھے تو سارہ کی خودکشی کی وجہ بھی سلویہ لگتی ہیں، مگر یہ الگ بحث ہے، سارہ کی کسی نظم میں یہ فضا، یہ استعارے کہاں ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر بے جا طوالت پکڑتی جا رہی ، چلتے چلتے اس کی وجوہات پر آئیں تو جو بات اوپر  بیان کیں ، کہ حساسیت اور ڈپریشن شعراء  اور ادیب میں ہمیشہ رہا ہے مگر اب تو میرے خیال سے جدیدیت اور سرمایہ داری نظام کی وجہ سے ہر تیسرے گھر میں آپ کو ڈپریشن ملے گا، بلکہ سکول جاتے بچوں میں ڈپریشن ملتا ہے، موازنہ اب ہماری ایک ‘قدر’ ہے، اور آپ اگر ڈپریشن کا شکار نہیں ہیں، روایتی خواتین کی طرح اپنا موازنہ کر کے دیکھیے، آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply