• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ٹرمپ آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی پوزیشن میں گھِر چکے ہیں؟(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔ غیور شاہ ترمذی

کیا ٹرمپ آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی پوزیشن میں گھِر چکے ہیں؟(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔ غیور شاہ ترمذی

ریاستوں کی طرف سے جب تمام الیکٹورل لسٹوں کی فراہمی کے بعد الیکٹورل کالج کی تشکیل مکمل ہو جاتی ہے تو پھر الیکٹورل کالج کے تمام ممبران 14 دسمبر کو اپنی اپنی ریاستوں میں اکٹھے ہو کر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ6 جنوری تک بھی حل نہیں ہوتا تو پھر کانگریس اس معاملہ کا عبوری فیصلہ کرے گی۔ اگلے امریکی صدر کا فیصلہ ایوان نمائندگان کرتا ہے جبکہ نائب صدارت کا فیصلہ سینیٹ کرتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو موجودہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 2 مختلف جماعتوں سے صدر اور نائب صدر سامنے آ سکتے ہیں یعنی صدر جو بائیڈن کیونکہ ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹس کو اکثریت حاصل ہے اور نائب صدر مائیک پینس کیونکہ سینٹ میں ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ لیکن یہ صورتحال اِس سطح پر تب ہی پہنچ سکتی ہے جب ہر چیز خراب ہو جائے اور امیدواروں میں مقابلہ بہت قریب کا ہو۔ لیکن اگر معاملات یہاں تک پہنمچ گئے تو ٹرمپ گڑھے سے بچ کر کھائی میں جا گریں گے کیونکہ کچھ بھی ہو جائے امریکی آئین کے مطابق 20 جنوری کو نئی صدارتی مدت کا آغاز ہونا ہے۔ اس روز دوپہر تک کسی شخص کو بطور صدر حلف لینا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر تسلسل کے منصوبے پر عمل ہوگا یعنی ایوان نمائندگان صدر کا اور سینیٹ نائب صدر کا عبوری انتخاب کرے گی۔ لیکن یہاں بھی کہانی میں ایک Twist ب ہے۔ اگر ایوان نمائندگان (جہاں ڈیمو کریٹس کی اکثریت ہے) صدر کا انتخاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور ایوان میں تعطل برقرار ہے لیکن سینیٹ اپنے یہاں نائب صدر کا انتخاب کر لیتی ہے تو پھر نائب صدر ہی صدر بن جائے گی یا جائے گا۔ آخری آپشن یہ ہے کہ اگر ایوان نمائندگان کی طرح سینیٹ میں بھی تعطل ہے تو پھر ایوان نمائندگان کی سپیکر (یعنی نینسی پلوسی) صدر بن جائیں گی۔ اس وقت سینٹ میں دونوں جماعتوں کے 48/48 ممبران موجود ہیں اور ابھی 4 ریاستوں میں سینٹرز کے نتائج کا اعلان ہونا باقی ہے۔
۔
قارئین محترم حیران نہ ہوں۔ امریکی آئین میں صدارتی انتخاب کے حوالہ سے جتنی آپشن بھی بیان کی گئی ہیں، امریکہ اُن میں سے کئی ایک سے گزر چکا ہے۔ جیسا کہ سنہ 1876ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سیموئیل ٹلڈن اور ری پبلکن پارٹی کے رتھرفورڈ ہیز کے درمیان مقابلہ تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو جیت کے لئے صرف ایک اور الیکٹورل ووٹ کی ضرورت تھی۔ اس لئے قانون سازوں نے اگلے امریکی صدر کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا اور اس کمیشن نے ایک سمجھوتے کے تحت صدر کا انتخاب کیا۔ اس سمجھوتے کے تحت جنوبی ریاستوں کے ڈیموکریٹ الیکٹورلز نے اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار سیموئیل ٹلڈن کو نظر انداز کرتے ہوئے مخالف جماعت ری پبلکن پارٹی کے امیدوار رتھرفورڈ ہیز کو ووٹ دئیے اور وہ صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے۔ یہ معاملہ صدر کے حلف برداری کی تقریب سے صرف 2 دن پہلے حل ہوا تھا۔ اس سے پہلے یہ بھی ہوا تھا کہ سنہ 1824ء میں ڈیمو کریٹک گروپ کے حمایت یافتہ اینڈریو جیکسن نے اپنے حریف ری پبلکن گروپ کے امیدوار جان کوئنسی ایڈم کو بظاہر تھوڑے سے مارجن سے ہرا دیا لیکن چونکہ کوئی امیدوار بھی مطلوبہ الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکا تو معاملہ کانگریس کے پاس پہنچ گیا۔ اُس وقت ڈیمو کریٹ اور ری پبلکنز 2 الگ جماعتیں نہیں تھیں بلکہ ایک مشترکہ جماعت ڈیمو کریٹک- ری پبلکنز (Democratic-Republican Party) کے طور پر کام کرتی تھی۔ اُس وقت ایک ہی پارٹی کے ایک صدارتی امیدوار کی بجائے زیادہ لوگ بھی صدارتی امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے سکتے تھے۔ جب اینڈریو جیکسن اور جان ایڈم کا معاملہ ڈیمو کریٹک- ری پبلکنز کے حمایت یافتہ سپیکر ہنری کلے کے پاس آیا تو چونکہ وہ اینڈریو جیکسن کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں ایک سودے بازی کے ذریعے جان کوئنسی ایڈم کو صدر منختب کروایا۔ اس معاہدے کو تاریخ میں ’کرپٹ بارگین‘ یعنی بدعنوان سودے بازی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ سپیکر ہنری ایڈم نے جان کوئنسی ایڈم کو صدر بنوانے کے لیے ایک ڈیل کی تھی اور اس ڈیل کے تحت وہ امریکہ کے وزیر خارجہ بنے۔ اینڈریو جیکسن نے اس کے بعد اپنے گروپ کو لے کر ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی اور سنہ 1828ء کے اگلے الیکشن میں وہ جان کوئنسی ایڈم کو شکست دے کر امریکہ کے 7ویں صدر منتخب ہو گئے۔
۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح کا واقعہ حالیہ دنوں میں سنہ 2000ء میں بھی پیش آیا جب جب جارج بش اور ایلگور کے درمیان فلوریڈا کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر جھگڑا پڑا۔ ووٹوں میں فرق اتنا کم تھا کہ دوبارہ گنتی کا عمل خود بخود شروع ہو گیا۔ ایلگور کی ٹیم نے 4 کاؤنٹیوں میں مینوئیل یعنی ہاتھ سے ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا جسے بش کی ٹیم نے چیلنج کیا۔ اُس دوبارہ گنتی میں الگور جیت سکتے تھے لیکن کچھ ہفتوں بعد امریکی سپریم کورٹ نے 5 کے مقابلہ میں 4 کی اکثریت سے جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے اُن ججوں نے صدر بش کے حق میں فیصلہ دیا تھا جنہیں ری پبلکن پارٹی کے جارج بش کے والد سینئیر جارج بش کے کے دور میں جج بنایا گیا تھا اور جن 4 ججوں نے ایلگور کے حق میں فیصلہ دیا تھا، انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کے بل کلنٹن کے دور میں سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جب جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا تو ایلگور نے اپیل کرنے کی بجائے اُسے تسلیم کر لیا اور جارج بش فلوریڈا کے 25 الیکٹورل ووٹ لے کر کل 271 الیکٹورلووٹوں کے ساتھ وائٹ ہاؤس پہنچ گئے جبکہ الگور کو 266 الیکٹورل ووٹ مل سکے۔ ان انتخابات میں جارج بُش نے مجموعی طور پر 5 کروڑ ساڑھے 4 لاکھ ووٹ (47،9٪)لئے تھے جبکہ الگور نے 5 کروڑ 10 لاکھ ووٹ (48،4٪) حاصل کئے تھے جوجارج بش سے ساڑھے 5 لاکھ ووٹ زیادہ تھے۔ الگور تب کے امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ نائب صدارت کا تجربہ بھی رکھتے تھے اور دنیا میں امن پھیلانے اور ماحولیات میں کام کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ الگور فاؤنڈیشن نے بعد میں ماحولیات میں دنیا بھر میں بہت کام کیا اور گرین ہاؤس گیسز ایمیشن، کاربن کریڈٹس اور کیوٹو پروٹوکول قائم کرنے اور متعارف کروانے کا سہرا بھی الگور کے سر جاتا ہے۔ دوسری طرف اس دھاندلی زدہ غلط فیصلہ کے نتیجہ میں دنیا کو 8 سال تک مسلسل جارج بش کی جارحیت کو بھگتنا پڑا جس میں مشکوک 9/11 سانحہ، عراق اور افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے نیز داعش نامی غلیظ عفریت کی تشکیل کے ابتدائی قیام جیسے گھناؤنے جرائم بھی شامل ہیں۔
۔
۔
موجودہ امریکی صدر ٹرمپ بھی اپنے پیش رو جارج بش کی طرح کے گھناؤنے اور دہشت گردانہ عزائم رکھتے ہیں۔ اُن کے پہلے دور میں خاص طور پر مسلمانوں کے حوالہ سے اُن کی پالیسیاں شدید متنازعہ اور شرانگیز رہی ہیں۔ دوسرے ممالک کی خوشحالی اور دولت سے حسد کرنے والے ٹرمپ نے فلسطینی و یمنی مسلمانوں پر ظم کے پہاڑ توڑ دئیے ہیں۔ ٹرمپ نے بین الاقوامی نیو کلئیر ایجینسی اور یورپی یونین کی لگاتار کوششوں سے انجام پاتے ہوئے ایرانی نیوکلئیر سمجھوتے سے یکسر امریکہ کو الگ کر کے اُسے بے وقعت کر دیا اور اپنے پالتو سعودی شاہی خاندان کے ایماء پر ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کے علاوہ ایرانی مسلح افواج میں القدس بریگیڈ کے سربراہ قاسم سلیمانی کو بھی مبینہ طور پر سعودی ولی عہد بن سلمان اور اماراتی ولی عہد بن زید سے 4 ارب ڈالر معاوضہ نجی طور پر وصول کر کے ڈرون حملہ میں اُس وقت قتل کروا دیا جب وہ عراقی وزیر اعظم کی دعوت پر ایک نجی ائیر لائن کی فلائیٹ میں بغداد ائیرپورٹ پہنچے تھے۔ ٹرمپ نے مسلمان ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین پر دباؤ ڈال کر اُن سے اسرائیل کو تسلیم بھی کروا لیا اور وہ یہ بھی اعلان کر چکے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ سعودی عرب سمیت دیگر مسلمان ممالک بشمول پاکستان سے بھی اسرائیل کو تسلیم کروا لیں گے۔ ٹرمپ نے یک طرفہ طورپر یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بھی تسلیم کر لیا اور فلسطینی مسلمانوں کے اس علاقہ پر حق کا خاتمہ کر دیا۔ ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور اقتدار میں آتے ہی 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخلہ پر پابندی بھی لگا دی تھی جسے امریکی عدالت سے ختم کروایا گیا۔ اس فیصلہ کے خلاف ٹرمپ پھر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور انہوں نے یہ شق منظور کروا لی کہ ان 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کی امریکہ امیگریشن پر پابندی عائد رہے گی۔ مسلمان ممالک کے علاوہ ٹرمپ کی طرف سے دوسرے ممالک بشمول چین، یوکرائن اور شمال کوریا کے ساتھ مسائل کھڑے کئے گئے۔ خصوصا’ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر ٹرمپ کی طرف سے چن پر اِس کا الزام بھی دھر دیا جسے بین الاقوامی ادارہ صحت نے بھی لغو اور غلط قرار دے دیا۔ ٹرمپ کی طرف سے دوسرے مملاک کے ساتھ تعلقات اور ڈپلومیسی کے حوالہ سے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور ٹویٹس کی ایک طویل فہرست ہے جسے امریکی اور بین الاقوامی سیاسی حلقوں میں سخت ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھاجاتا رہا ہے۔
۔
۔
اب ان امریکی صدارتی انتخابات میں سامنے آتی ہوئی شکست کے بعد بھی ٹرمپ نے غیر سنجیدہ اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دئیے ہیں جنہیں امریکی سیاسی حلقوں میں سخت ناپسندیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالہ سے لاکھوں ووٹوں کی گنتی باقی ہونے کے باوجود الیکشن والے دن یعنی 3 نومبر منگل کی رات ہی ٹرمپ نے وائیٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیان دے دیا کہ اُن کے نزدیک وہ الیکشن جیت چکے ہیں اور الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے ٹرمپ کی جیت کا اعلان کرنے میں دیر سے امریکی عوام کے ساتھ ’فراڈ‘ کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے ملک کے لیے باعثِ شرمندگی ہے‘ اور وہ انتخابی نتائج کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ ٹرمپ کی طرف سے لفظ ‘فراڈ’ کے استعمال سے صورتحال اس قدرخراب ہوئی کہ موجودہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کو میڈیا کے سامنے ٹرمپ کے بیان کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ ٹرمپ کی طرف سے الیکشن میں فتح کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پینس نے یہ بھی کہا کہ قانونی طور پر ہر ایک ووٹ کی گنتی کی جانی چاہئے اور سارے امریکہ میں ایسا ہونا یقینی بنایا جائے گا۔ امریکہ بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ ری پبلکن پارٹی کے بعض ارکان نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ریاست پنسلوینیا کے سابق رپبلکن سینیٹر رک سینٹورم نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے بیان سے وہ کافی پریشان ہیں اور ’دھاندلی یا فراڈ’ جیسے الفاظ کا استعمال غلط ہے اور قابل اعتراض ہے۔ دسرے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ بیان اشتعال انگیز ہے کیونکہ یہ بیان امریکیوں سے ان کے جمہوری حق کو چھین لینے کے مترادف ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں کبھی بھی کسی بھی صدر نے امریکیوں کو ایک قومی الیکشن میں اپنے حق کےاستعمال کی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹرمپ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’غیرقانوی خطرناک اور آمرنہ‘ بیان ہے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے اور نتائج کا احترام کرنے پر زور دیا۔
۔
۔
امریکی سیاسی حلقوں کی اکثریت نے اس بیان کو اشتعال انگیز، غلط اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد چاہے صدر ٹرمپ فاتح ہوں یا شکست کا سامنا کریں مگر اُن کے اس ناپسندیدہ بیان نے امریکی انتخابات پر شک اور شبہات کا سایہ ڈال دیا ہے اور امریکہ کے پورے جمہوری نظام پر سوال کھڑا کردیا ہے- جس خدشہ کو کبھی ایک ڈراؤنا خواب تصور کیا جاتا تھا اب وہ حقیقت کا روپ اختیار کر رہا ہے۔ بائیڈن دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ جیت کی راہ پر ہیں اور ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کا انتظار کریں گے مگر ٹرمپ الیکشن میں اپنی شکست واضح ہوتی دیکھ کر فراڈ اور ووٹ چوری کے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں- سنہ 2020ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں یہ وہ مرحلہ ہے جس کا متعدد امریکیوں نے ٹرمپ کی جنونیت اور غیر ذمہ دارانہ جلد باز طبعیت کی وجہ سے پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ٹرمپ نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں امریکہ کے مضبوط جمہوری نظام کے سب سے بڑے محافظ صدر وائٹ ہاؤس میں رہتے ہوئے ووٹوں کی گنتی پر سوالیہ نشان کھڑا کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اب تو یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر صدر ٹرمپ انتخاب میں شکست کھاتے ہیں تو وہ شاید شکست کا اعتراف بھی نہ کریں- اب تو یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ اگر ٹرمپ الیکشن ہارنے کے باوجود بھی وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کرتے ہیں تو کیا اُنہیں وہاں سے ہٹانے کے لئے فوج، خفیہ اداروں اور پولیس کو بلوانا پڑے گا؟-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply