اب کرونا سے ڈر لیں ۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

ہسپتال سے مسلسل 24 گھنٹے ڈیوٹی کر کے ابھی ہاسٹل پہنچا ہی تھا،  مسلسل جاگنے  کی وجہ سے آنکھیں سرخ تھیں، بِنا کچھ کھائے پیے،   سونے کے لیے لیٹ گیا، ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ میرے سینئر ، ڈاکٹر تحسین کا میسج آگیا،۔۔لکھا تھا کہ “شافع بڑے بھائی فوت ہو گئے ہیں” (انکے بڑے بھائی کرونا وائرس سے متاثرہ تھے اور وینٹی لیٹر پر تھے)  میں نے انکی مغفرت کے لیے دعا کی، اب نیند پھر مجھ سے روٹھ چکی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں گلا پھاڑ کر چیخوں، لیکن میری آواز میرے حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔

میں نے سوچا کہ فیسبک ہی سکرول کر لیتا، لیکن ایک انجانے خوف کی وجہ سے نہ  کر سکا۔ اس خوف کی بھی ایک وجہ ہے۔ میں نے فیسبک کا اکاؤنٹ دس  سال پہلے بنایا تھا،ان دس سالوں میں پہلی مرتبہ مجھے فیسبک اور دیگر سوشل میڈیا سے ڈر لگنے  لگ گیا ہے۔اب میں جب بھی فیسبک سکرول کرتا ہوں تو یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کو کرونا ہو گیا، فلاں ڈاکٹر کرونا سے جان کی بازی ہار گیا، kpk کی نرس کرونا کی وجہ سے انتقال کر گئی، میڈیکل سٹوڈنٹ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا، مجھے گزشتہ 24 گھنٹوں میں اس فیسبک نے تین ڈاکٹر، ایک نرس اور ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کی وفات کی خبر دی ہے اور یوں  میں فیسبک سے خوفزدہ ہوگیا ہوں ۔

وطن عزیز کے تمام ڈاکٹرز اور انکی تنظیموں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ عید کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی مت کریں، لیکن حکومت نے تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے، اوپر چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے “عوام نے صرف عید پر نئے کپڑے پہننے ہوتے ہیں”لاک ڈاؤن ختم کروا دیا، عوام جو بھوک سے مر رہی تھی، بازاروں پر ٹوٹ پڑی، اس غلطی کی سزا ڈاکٹرز بھگت رہے ہیں جو  اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے  جا رہے ہیں۔

باوجود اس کے، آپ ڈاکٹرز کا حوصلہ بندھاتے، الٹا انکے خلاف گھٹیا مہم شروع کر دی گئی، کہا گیا کہ ڈاکٹرز کرونا کے مریضوں کو چیک نہیں کرتے، کرونا کے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر خود مار دیتے ہیں، بعد میں انکے گردے بیچتے ہیں، سوشل میڈیا پر ڈاکٹرز کی تضحیک کی جا رہی ہے، ان عقل سے عاری لوگوں سے کوئی پوچھے، اگر ڈاکٹر کرونا کے مریض نہیں چیک کر رہے، تو انہیں کرونا کیسے ہو رہا ہے؟ اگر کرونا کے مریضوں کو مار کر یہ ڈالر لے رہے ہیں تو خود مر کر انہی  ڈالروں سے اپنی قبریں پکی کر رہے ہیں؟۔

ایک طرف ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے، جو کہ کرونا کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کر رہا ہے، اور دوسری طرف عوام ہے، جو کہ ابھی بھی اس کو ایک ڈرامہ اور یہودی سازش سمجھتی ہے۔ یہ عوام عجیب ہے، جب وبا شروع میں تھی، انہوں نے نام نہاد لاک ڈاؤن پر عمل کیا، ماسک پہنے، بازار بند کیے، اجتماعات بھی نہیں ہوتے تھے، بے وقت اذانیں بھی دیں، لیکن جیسے ہی وبا اپنی انتہا کو پہنچی، اس قوم نے ماسک پہننا چھوڑ دئیے،بازار کھل گئے،اجتماعات ہونے لگ گئے،شاپنگ رج کے کی گئی ، ٹرانسپورٹ کھل گئی، کرونا بذات خود اس قوم کی عقل و دانش پر ماتم کر رہا ہو گا۔ افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ ہماری قوم ابھی بھی Denial phase میں ہے، جو ابھی بھی یہی سمجھتی ہے کہ کرونا ہے ہی نہیں، ڈاکٹرز جھوٹ بول رہے ہیں۔

عید پر شاپنگ کرنے کے اثرات اب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں،  عوام کے جس  سمندر نے شاپنگ سینٹروں  کا رُخ کیا تھا، اب یہی عوامی سمندر،بخار،کھانسی اور سانس میں دشواری کی علامات لیے ہسپتالوں کی ایمرجنسی کا رخ کر رہی ہے، پنجاب کی حد تک، تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں فل ہیں، آئی سی یو  بھی مریضوں سے بھر  چُکے ہیں، وینٹی لیٹرز تھے، وہ مریضوں کو لگ چکے، اب وینٹی لیٹرز کے لیے مریضوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے، ہسپتالوں میں لواحقین وینٹی لیٹرز کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ اب بندہ انہیں کہے کہ اور کرو شاپنگ۔۔

پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ملک میں کرونا کے بیس ہزار سے زائد نئے کیس آئے ہیں، جو کہ اٹلی، سپین اور چین کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، 57 لوگ اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں، لیکن بازاروں میں اسی طرح رش ہے، اس وقت سے ڈریں جب یہاں بھی اٹلی کی طرح دن میں سینکڑوں اموت ہوں گی اور ڈاکٹرز چاہتے ہوئے بھی آپکی جان بچا نہیں پائیں گے۔

ڈاکٹرز حفاظتی سامان نہ  ہونے کے باوجود بھی کرونا کے مریضوں کو ڈیل کر رہے ہیں، اس عمل میں وہ خود کرونا کا شکار ہو رہے ہیں، میرے اپنے کئی سنیئر ڈاکٹر اس مرض کا شکار ہوکر قرنطینہ میں چلے گے ہیں۔ کچھ ایسے ڈاکٹرز بھی ہیں، جو اپنے خاندان کے اکلوتے کفیل ہیں، انہیں اپنے سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہوتی ہے، اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو انکے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ انکی پریشانی بالکل جائزہے۔میرے بڑے بھائی جیسے سنیئر،ڈاکٹر ارسلان کی کرونا وارڈ میں ڈیوٹی ہے، انہیں اپنے گھر والوں سے ملے ایک مہینے سے زائد ہو چکا ہے، اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

ہم آٹھ دوستوں کی ڈیوٹی الائیڈ ہسپتال میں ہے، وارڈ مختلف ہیں، جب بھی کسی کی ڈیوٹی ہو، ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے اس دوست کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھے، یہ ہماری نہیں ہر ڈاکٹر کی کہانی ہے۔

مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے، میں اس ڈر کی وجہ سے باہر نہیں جاتا،اجتماع میں نہیں جاتا، بازار گئے ہوئے عرصہ ہو گیا، لوگوں سے نہیں ملتا، ہر وقت ماسک پہنتا ہوں، ہاں اگر یہ سب اختیار کرنا بزدلی ہے، تو ہاں میں بزدل ہوں، ڈرپوک بھی ہوں، مجھے اس کرونا کی وجہ  سے مرنے سے ڈر لگتا ہے،میں جب بھی ڈیوٹی کرنے ہسپتال جاتا ہوں، میں دعائیں پڑھ کر جاتا ہوں۔ شاید ہر ڈاکٹر آجکل یہی کر رہا ہے۔

میں اب جب کرونا سے لڑتے کسی ڈاکٹر کی وفات کی خبر سنتا ہوں، میں روتا ہوں، اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں، میں خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوں، ابھی سنبھلتا ہی ہوں  کہ  ایک اور افسوناک خبر آ جاتی ہے، میں پھر ٹوٹ جاتا ہوں، تین ہفتوں سے یہی کیفیت ہے، کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ جو ڈاکٹرز چلے گئے،انہیں شہید کہنا کتنا آسان ہے، کیا شہید کہنے سے  انکے گھر والوں کے غم  دُھل    جائیں گے؟

اس بات کا جواب  یقیناً نفی میں ہے۔

میرا اربابِ  اختیار سے سوال ہے، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جو ڈاکٹرز مر رہے ہیں، اسکی FIR کس کے خلاف کٹوائی جائے؟۔ ان کے گھر والوں کے دکھ کا مداوا  کیسے کیا جائے؟کیا ڈاکٹرز، نرسز کی زندگیاں اتنی سستی اور بے وقعت ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ڈاکٹرز پر نہیں، انکے خاندان والوں پر ہی رحم کر لیں۔میری حکومت، چیف جسٹس سے اپیل ہے خدارا ڈاکٹرز کی حالت پر رحم کریں، فی الفور لاک ڈاؤن کا اعلان کریں، اجتماعات، پبلک ٹرانسپورٹ پر دوبارہ پابندی لگائی جائے، بازاروں کو بند کیا جائے۔ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اگر ہم نے ایمرجنسی اقدامات نہ  کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔

میری عوام سے بھی درخواست ہے کہ خدارا ہم پر نہیں تو خود پر ہی رحم کر لیں۔ یہ شاپنگز، سینما دیکھنا اور دیگر تفریحات کرونا کے ختم ہونے تک مؤخر کر دیں۔ ہم پر ترس نہیں آتا تو اپنے پیاروں پر ہی ترس کھا لیں۔ گھروں میں بیٹھیں، ماسک پہنیں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کر لیں۔ہاں! اگر آپکو اب بھی یہ سب کچھ ڈرامہ اور یہودی سازش لگتی ہے تو کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی یا کرونا وارڈ کا چکر لگا لیں۔وہ آپ جیسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو کہ کرونا کو ڈرامہ کہتے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کرونا سے ڈر لیں ورنہ ہماری داستان  تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

پسِ تحریر۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے سنئیر بھائی، ڈاکٹر تحسین کے بڑے بھائی کرونا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ انکا غم انکی آواز میں واضح تھا۔اللہ انکے مرحوم بھائی کی مغفرت کرے، امین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply