اور حاجی صاحب مان گئے ۔۔۔ معاذ بن محمود

کعبۃ اللہ پر پہلی نگاہ پڑی تو چند اپنوں کی دعائیں خدا کے گھر کے لیے ساتھ بھیجی گئی تھیں۔ اللہ کا کرم ہے سبھی دعائیں قبول ہوئیںسوائے ایک کے جس کی قبولیت باقی ہے۔ جو دعائیں قبول ہوئیں ان میں سرفہرستیا اللہ حاجی مان جائےتھی۔ مجھے چھوڑیں،یقین اس گجر کو بھی نہیں جس کا حاجی مانا۔ آج بھی، جب ہفتے کے اندر شادی ہے، نصف لیل اٹھ کر خود کو چماٹ رسید کرکے پرکھتا ہے کہ کہیں سپنا تو نہیں دیکھ رہا۔

حاجیوں کی خواہشات عموماً عجیب ہوتی ہیں۔ کھل کر بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ شادی خانہ آبادی کی باقاعدہ تقاریب ابھی باقیہیں۔ مثلاً حاجی اپنی قیمتی ترین متاع بندے کو دان کرنے کو تیار ملے گا تاہم اس کے بدلے وہ عجیب عجیب اعتراضات اٹھائےگا۔ ایک حاجی صاحب سے واسطہ پڑا ایک دوست جنہیں خسر بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ حاجی صاحب تک پیغام پہنچایا تو جوابملا لڑکے کے بہن بھائی بہت ہیں۔ وضاحت بھیجی گئی حاجی صاحب ایک لڑکے کے لیے رشتہ چاہیے ناکہ تمام بہن بھائیوں کےلیے۔ حاجی صاحب سمجھنے سے انکاری۔ ایک اور دوست کے رشتے ہی کا معاملہ ہوا تو جواب آیا تنخواہ فقط ایک لاکھ ہے۔ اوپروالے کا کرنا ایسا ہوا کہ چار دن میں بندے کی تنخواہ ساڑھے چار لاکھ ہوگئی۔ دوبارہ سندیسہ بھیجا گیا۔ جواب ندارد۔ حاجی صاحبمجھ سے مشورہ کرتے تو میں یہ کہہ کر انکار کروا دیتا کہ اتنی تنخواہ کی رسیدیں سنبھالنا مشکل ہوجائے گا اور چونکہ نیب آج کل کافیفعال ہے لہذا بیٹی کا مستقبل جیل کی ملاقاتوں میں صرف ہونے کا اندیشہ ہے۔

محبت کے معاملے میں حاجی صاحبان جانے کیوں امریش پوری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کردار بھی بھرپور اداکرتے ہیں۔ ساری فلم کے دوران کبھی یہاں سے طمانچہ رسید کرتے ہیں تو کبھی وہاں سے لات لیکن پھر بھی شفقت کا دامن ہاتھسے نہیں چھوڑتے۔ اختتام ہمیشہجا سمرن جی لے اپنی زندگیپر ہی ہوتا ہے۔ بندہ پوچھے، میاں یہی کرنا تھا تو پچھلے ڈھائی عشرےاتنے پاپڑ بیلنے پر کیوں لگایا۔ لیکن شاید حاجی بھی ادراک رکھتے ہیں کہ وہ محبت ہی کیا جس کی قدر نہ کروائی جائے۔

دیکھا گیا ہے کہ حاجی صاحبان کی بیگمات دراصل حکمت کا سرچشمہ ہوتی ہیں۔ حکمت سے مراد حکیم والی حکمت ہرگز نہیں۔ بھلا کوئیعورت کیوں اپنی زندگی کی مشکلات میں اضافہ کرنے پر کیوں تلی ہوگی۔ حکمت سے مراد یہاں عقل و دانائی رہی۔ محبت کے حاجیانہمعاملات میں مائیں ہمیشہ مروجہ روایات سے ہٹ کر بیٹیوں کا ساتھ دیا کرتی ہیں۔ میں عورت کو ناقص العقل نہیں مانتا البتہ ہماریخواتین مردوں کی طرح ایکسپوژر نہ رکھنے کے باعث معصومیت میں بنا بنایا کام بگاڑ ضرور سکتی ہیں۔  مثلاً ایک خاتون نے اپنے حاجیصاحب کو نہایت پیار اور چاہ کے ساتھ زیابیطس کے علاج کے طور پر ہڑ کا پانی پلایا اور عین اس لمحے جب حاجی صاحب زبان تاپیندہ ہڑ ہڑ ہو چکے تھے، خاتون نے شیرینی کا لیپ کرتے ہوئے بیٹی کے پسند کے رشتے کی سفارش کر دی۔ مجھے حاجی صاحب کی بیگمکا تو نہیں معلوم البتہ لڑکی کے بارے میں سنا ہے آج کل کچھی محلہ پشاور میں کسی تیلی کے ساتھ بیاہی ہوئی ہے اور حال ہی میںساتویں اولاد کو جنم دیا ہے۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے، ہڑ بہت کڑوی مطلب خان صاحب سے بھی زیادہ کڑوی ہوتیہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گجر کے معاملے میں بھی حاجی صاحب ایک چیلنج ضرور بنے رہے لیکن انگریزی کہاوت ہےکل احسن جس دا اختتام احسن۔بالآخر حاجی صاحب نے گجر کی جانب دیکھتے ہوئے فرمان جاری کر ہی ڈالا کہجا گجر، نہا لے اپنی مرضی سے۔ گجر اب دن بدنگھنٹہ بہ گھنٹہ غسل میرا مطلب ہے شادی خانہ آبادی کے قریب جا رہا ہے۔ ویسے تو تمام منکوحین بخوبی واقف ہیں کہ شادی کا ہنیمون پیریڈ چار کمر درد دورانیے تک ہی محیط ہوتا ہے، پھر بھی، چونکہ گجر اس راہِ راست پر براہ راست چل پڑا ہے تو ہماری جانبسے گجر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار ہے۔ بس چند ہی دن ہیں جب تک اکڑ کر کہہ پاؤ گےکوئی مذاق نہیں، میں نے دنیا دیکھیہےلیکن اندر اندر میرے اور بھٹی صاحب کی طرح تم بھیشادیکے چند ہیمنٹبعد خود کلامی کر رہے ہو گے کہبس؟ یہتھی دنیا؟۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply