امانہ بھابھی کے نام۔۔ انعام رانا

آپ جس گنگا جمنی تہذیب کی امین ہیں اس میں تو معلوم نہیں، مگر ہم پنجابیوں میں دیور بھابھی کا تعلق بہت پیارا اور شرارتی سا ہے۔ بھابھی ماں بھی ہے اور دوست بھی، رازدار بھی ہے اور ناصح بھی۔ کبھی کبھار دشمن بھی بن جاتی ہے مگر وہ آپ پہ پورا نہیں آتا۔ ہم کبھی ملے نہیں مگر میرے آپ کے رشتے کا تقدس اور میرے دل میں آپکی عزت کسی ملاقات کی محتاج ہی کب ہے۔ اور پھر وہ جو میرے اور آپ میں واسطہ ہے، اُس سے رشتے کے لیے بھی اُس سے ملاقات کب  اہم بنی تھی۔

چار سال ہوئے کہ مکالمہ شروع کیا تو   طنز میں ڈوبا ہوا ایک مضمون آیا اور ساتھ ایک بھالو کی تصویر۔ نجانے کون سا ایڈیٹر تھا جسے کہا اس سے پوچھو کوئی انسانوں والی تصویر نہیں ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ اس کی سب سے بہتر تصویر ہے۔ جیسے ڈائمنشیا کے مریض کو کچھ یاد اور کچھ بھول جاتا ہے، بس اس کے میرے رشتے کی یاد بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ معاذ بن محمود نامی ایک چلبلا لکھاری مکالمہ پہ آیا تھا، یہ تو یاد ہے، کب وہ میرا سایہ بن گیا، یہ یاد نہیں آتا۔ دوست کب بنا شاید بتا سکوں، ماں جایا کب ہوا یاد نہیں آتا۔ نہ  کب یاد آتا ہے نہ وجہ سمجھ آتی ہے کہ کمبخت کب وجود کا حصہ بن گیا۔

بیسیوں خرابیاں ہیں، بدصورت تو خیر بیچارہ ہے ہی، موٹا اب اتنا نہیں رہا، نوجوانی میں وہ سب بیماریاں بھی لگوا چکا ہے جو عموماً  ساٹھ سال میں لگتی ہیں، مگر پھر بھی چسکورا ہے، پنگے باز پورا ہے، راہ چلتوں کو اڑنگیاں دیتا ہے، طنز ایسا لکھتا ہے کہ باقاعدہ دعا کرتا ہوں کہ کبھی میرے خلاف کیا میرے حق میں بھی نہ  لکھے، لیکن اس سب کے باوجود اس پہ بلاوجہ پیار کیوں آتا ہے شاید کسی تحلیل نفسی سے ہی معلوم ہو۔ بہت سے لوگ مجھے اس کے طعنے مارتے ہیں، شکوہ کرتے ہیں کہ میں اس کا بیجا ساتھ دیتا ہوں۔ کئی ناراض بھی ہو گئے۔ لیکن میں فقط مسکرا دیتا ہوں۔ ان کو کیا بتاؤں کہ اپنے ہی سائے سے محروم نہیں ہو سکتا، اپنے ہی بازو نہیں کاٹ سکتا۔ پنگے یہ کرتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں ،ہو نہ  ہو اس کو انعام رانا نے کہا ہو گا۔ شاید ان کو درست لگتا ہو، کیونکہ عرصہ ہوا مجھے کبھی اپنی لڑائی لڑنا ہی نہ  پڑی، یہ مجھے بتائے بنا میری جگہ لڑ کر آ جاتا ہے، اور جتاتا بھی نہیں، بلکہ مجھے تو اوروں سے معلوم ہوتا ہے۔ لوگ کیا جانیں کہ جس مان سے اسے کام کہتا ہوں شاید اپنی بیوی کو بھی نہ  کہہ سکوں اور جس حق سے اسے ڈانٹ دیتا ہوں، شاید اپنے سگے بھائی کو بھی نہ  ڈانٹ سکوں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جس خاموشی سے یہ مجھے یا میرے موڈ سونگز کو برداشت کرتا ہے، میری ڈانٹ کھاتا ہے، میری بیوی اور میرے بھائی بھی نہیں کر سکتے۔

لوگوں کو کیا بتاؤں کہ مکالمہ سے میرا تعلق تو فقط نام کا ہے، یہ احمد رضوان، اسما اور معاذ کی محبت اور محنت کا ثمر ہے۔ کس کس کو بتاؤں کہ مجھے بتائے بنا وہ مکالمہ کے مضامین بوسٹ کرتا رہتا ہے، اپنی جیب سے۔ کسے بتاؤں کہ وہ جو دبئی کی کمپنی میں لاکھوں کا افسر ہے ،فقط میری محبت میں بلامعاوضہ کراچی آفس سنبھال کر سارا دن merkit.pk کو بھی چلاتا ہے۔ لوگ تو لوگ میرے اپنے گھر والے بھی شاید یہ نہ سمجھ پائیں کہ اگر معاذ کا ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں تو وہ پچھلے دس دن سے بیوی بچے چھوڑ کر مرکٹ کے معاملات دیکھنے کے لیے لاہور میں کیوں پڑا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ خط تو بس بھابھی آپ سے معافی مانگنے کے لیے تھا۔ کیونکہ میری وجہ سے آپ اور میرا بھالو کئی دن سے آپ سے دور ہے ،تاکہ مرکٹ کو راہ پہ ڈال سکے اور میری غیرموجودگی کور کر سکے۔ بس یہ خط تو آپ کا شکریہ کرنے کے لیے ہے کہ میری محبت نے  آپ سے  آپ کی محبت کو جدا کر رکھا ہے۔ بس آپ یہ خط پڑھیے، اسکے ختم ہونے تک ہمارا مشترکہ محبوب آپ کے قدموں میں ہو گا۔
آپکا بھائی/دیور
انعام رانا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply