نظام ملکیت ایک تقابلی جائزہ۔۔۔

آج کے اس مشینی دور میں انسان کے جہاں ایک طرف معاشی تو دوسری طرف عمرانی رشتے دن بدن پیچیدگی اختیار کرتے جا رہے ہیں وہاں ان معاشی اور عمرانی رشتوں میں موجود عدمِ توازن کو دور کرکے اسے عدل اور مساوات کے ان اصولوں پر قائم کرنے کی مانگ بھی بڑھتی جا رہی ہے جو کہ بڑھتی ہوئی معاشی تفریق کو ختم کرکے ایک غیر طبقاتی نظام کی تشکیل کرے اور تمام انسانیت کو ایک کنبے کی شکل میں بدل دے، اور ایک ایسا سماجی ڈھانچہ تشکیل دے جو آپس میں مسابقت کے بجائے مطابقت، ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی مفاد اور حرص و لالچ کی جگہ احسان کے جذبات کو ترویج دیتا ہو۔
ایک متوازن معاشرے کے لیے ایک متوازن اور عادلانہ بنیادوں پر قائم معاشی نظام لازم و ملزوم ہے۔ اور کسی بھی معاشی نظام کی تشکیل میں نظام ملکیت کا تعین ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے کیوں کہ مستقبل کے تمام معاشی سیاسی اور عمرانی حالات کا دارومدار اسی اصول پر بہت حد تک انحصار کر رہا ہوتا ہے۔
جدید دور میں رائج سرمایہ درانہ اور کیمونزم نے اپنے تئیں اس کے حل پیش کیے ہیں۔ سرمایہ درانہ نظام میں لامحدود ملکیت کا تصور دیا گیا ہے کہ ایک شخص جتنا چاہے اپنی معاشی صلاحیت کے مطابق زمین پر مالکانہ حقوق حاصل کر سکتا ہے اور اس میں ہر طرح کے تصرف کا حق رکھتا ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں نفی کی گئی ہے: بلاشبہ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا۔ چنانچہ اس نے اسرائیلوں پر زیادتی کی۔ ہم نے اسے اتنے خزانے دیے کہ ان کی چابیاں کئی طاقت ور آدمی مشکل سے اٹھا پاتے تھے۔ یاد کرو جب اس کی قوم نے قارون سے کہا کہ زیادہ اِترا نہیں، یقینًا اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس میں عالمِ آخرت کی بھی جستجو کر اور اس کے ساتھ دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر، اور جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان فرمایا ہے تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کیا کر اور زمین میں فساد کی خواہش نہ کر۔ بلاشبہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ قارون نے جواب دیا کہ جو کچھ مجھے دولت ملی ہے وہ میری اس ہنر مندی کی وجہ سے ہے جو میرے پاس ہے (اور تمھارے پاس نہیں) کیا اس نے اتنا بھی نہیں جانا کہ اللہ نے اس سے پہلے ایسی ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا جو اس سے زیادہ قوت میں مستحکم اور زیادہ سے زیادہ جمعیتیں (فوجی قوت) اپنے ساتھ رکھتی تھیں اور (جب سزا کا وقت آتا ہے) مجرموں سے ان کے جرائم کے متعلق نہیں پوچھا جاتا۔ (القصص ۷۶ تا ۷۸)
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کے سرمایہ داریت میں جو یہ جواز گھڑا جاتا ہے کہ کوئی شخص جو دولت کماتا ہے وہ اس کی ذاتی ہنرمندی پر منحصر ہے جس کی بنیاد پر وہ جس حد تک چاہے دولت کے انبار جمع کر سکتا ہے اور معاشرے کی دولت پر سانپ بن کو بیٹھ سکتا ہے جو کہ آگے جاکر جا گیرداریت، سرمایہ داریت اور سامراجیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور اس اصول کے تحت قائم ہونے والی کثیر الملکی کمپنیوں (multinational companies) پوری دنیا کے ٹھیکہ دار بن بیٹھی ہیں اور تیسری دنیا کے ممالک کا معاشی استحصال کرنا اپنا پدری حق سمجھ بیٹھی ہیں۔ اور جہاں تک دولت کے تصرف کا سوال ہے، اس میں فرد مکمل طور پر آزاد ہے۔ وہ اس دولت کو جن بھی مدات میں خرچ کرنا چاہے وہ اس میں مکمل آزادی رکھتا ہے۔ جب کہ قرآن مجید ان الفاظ میں اس اصول کی ممانعت کرتا ہے: قوم نے کہا اے شعیب کیا تمھاری نماز اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودں کی پرستش چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے آبا و اجداد کرتے آ ئے ہیں یا اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم اس تصرف کو چھوڑ دیں جو ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہے۔ یقینًا آپ تو بردبار اور سمجھدار آدمی ہیں۔سورۃ ہود ۸۷
ان آیات میں نظر آتا ہے کہ قوم شعیب اپنے پیغمبر سے اس بات پر بحث کرتی نظر آتی ہے کہ ہم اپنے مال میں تصرف کسی صورت نہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور آپ سمجھدار ہونے کے باوجود ہمیں ایک خدا کی عبادت کی طرف بلاتے اور ہمارا مال ہمیں اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے سے روکتے ہیں۔ لیکن حق تعالیٰ نے ان کی اس حجت کو قبول نہ کیا اور کہا: اور جن لوگوں نے ظلم کیا انھیں ایک زبردست چیخ نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ سورۃ ہود ۹۴۔
چنانچہ سرمایہ درانہ نظام کے دو اجزا سامنے آتے ہیں: ۱) انسان کو جو دولت بھی حاصل ہے اس کا سارا انحصار اس کی ذاتی ہنر مندی پر ہے سو اس کی ملکیت کو متعین کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں۔ وہ لامحدود حد تک ملکیت رکھ سکتا ہے۔ ۲) اور جو دولت اسے حاصل ہے اس میں اسے ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے۔ وہ جس مد میں چاہے اسے خرچ کرے اور جس حد تک چاہے دولت جمع کرلے۔ لیکن اسلام ان دونوں اصولوں کی سراسر ممانعت کرتا ہے۔
اس وقت دنیا میں رائج الوقت دوسرا نظریہ سوشلزم کا ہے جس کے تحت ملکیت افراد سے لے کر ایک گروہ کے حوالے کر دی گئی۔ اب تمام کی تمام ملکیت ریاست یا ایک ریاستی گروہ کے ہاتھ میں دے دی گئی اور انفرادی ملکیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ اب ریاست تمام امور کی مالک ہے اور وہی دولت کے تصرف کو بھی متعین کرے گی۔ اگر اس نظریہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ریاست بھی افراد کے ایک گروہ کا نام ہے نہ کہ علیحدہ سے نزول کوئی مخلوق۔ اب اگر کوئی بھی گروہ دھونس دھاندلی یا پروپیگنڈہ کی قوت سے برسرِ اقتدار آجائے وہ ہر سیاہ سفید کا مالک بن بیٹھے گا۔ جب کہ سوشلزم کی موجودہ شکل جو کمیونزم کی صورت میں سامنے آئی ہے، وہ اب فرد واحد کو دوبارہ سے ملکیت کے حقوق وے رہی ہے جس کی مثال چین کا ۲۰۰۷ء کا بنایا گیا پراپرٹی ایکٹ ہے۔
ملکیت اور تصرف کا حق چاہے فرد کو دیا جائے یا ایک گروہ کو، بات ایک ہی ہے۔ کیونکہ ملکیت فرد کے ہاتھ میں ہی آجاتی ہے۔ قرآن ان دونوں صورتوں کی نفی کرتا ہے۔ قران کی تعلیم اور ہدایت تو کچھ اس طرح سے ہے: آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ البقرہ ۱۱۲۔
اور اللہ ہی کے لیے ہے میراث جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔ البقرہ ۲۸۴۔
اور اللہ ہی کے لیے ثابت ہے ملکیت اور حکومت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ہے اس کے درمیان۔ المائدہ ۱۷۔
یاد رکھو حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے اللہ کا ہے۔ یونس ۶۶۔
قرآن مجید میں اس موضوع پر اور بھی بہت سی آیات موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ملکیت صرف اور صرف اللہ پاک کی ہے اور فرد یا فرد کا کوئی بھی گروہ کسی بھی طرح کی ملکیت کا حق نہیں رکھتا۔ اور اسی طرح دولت کے تصرف کا معاملہ ہے۔ اس کا تعین قانونِ الٰہی کے ذریعہ سے کیا جائے گا۔
اے پیغمبر کہہ دیجیے کہ میں خود اپنے نفس کے لیے کسی فائدے اور نقصان کا مالک نہیں ہوں بجز اس کے جو خدا چاہے۔ یونس ۴۹۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی محنت اور کاوش سے جو کچھ کمائے اس کی ملکیت اور تصرف قانون الٰہی کے تابع ہوگا۔ وہ کسی بھی طرح کی ملکیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی حیثیت محض نائب اور خلیفہ کی سی ہوگئی۔ واللہ علم بالصواب۔

Facebook Comments

زوھیب نور
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کامرس لیکچرار.....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply