مرامحور ”زندگی“ ہے۔۔فارینہ الماس

لوگ زندگی سے بیزار کیوں ہو جاتے ہیں؟ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ ہم زندگی کی دھکم پیل سے تھک جاتے ہیں ۔یا ہماری ذات کی عدم تکمیل کا احساس ہمیں اندر سے کاٹنے لگتا ہے۔ کبھی یوں بھی لگتا ہے ،جیسے ہماری حقیقی ذات اندر ہی اندر گھل رہی ہے،کہیں بھٹک رہی ہے ۔بالکل کسی عریاں لباس،میل کچیل گیسوؤں کے ،پاشکستہ سادھو کی طرح۔جس کے قدم بے قراری میں ، اَن دیکھے راستوں پر گھسٹتے چلے جا رہے ہیں۔نگاہ میں منزل تو کوئی نہیں بس سراب جیسا کوئی دھوکا ہے۔ایسے وقت میں زندگی کی بے ثباتی ہمیں اس قدر بے چین کر دیتی ہے کہ اس کی وحدت کو برقرار رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ ہماری ذات انتشار کا شکار ہو جاتی ہے اور پھر یوں لگتا ہے جیسے جان کا خاتمہ ہی اک آخری راستہ بچا ہو۔

ایسی درماندگی و بے حوصلگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان خود میں ، زندگی کی سچائیوں کو قبول کرنے کا حوصلہ   نہیں پاتا ۔ یا پھر ایک مدت تک یہ ہی جان نہیں پاتا کہ سچائی ہے کیا؟ کبھی وہ سامنے موجود ہے لیکن نظروں سے پوشیدہ ۔اور اگر عیاں ہے بھی تو انسان اس سے نظریں چھپائے چھپائے پھرتا ہے۔اور اس کے لئے سب کچھ گڈ مڈ سا ہو جاتا ہے ۔اصل اور دھوکے ،سچ اور جھوٹ کا فرق معلوم نہیں رہتا۔اور پھر جب ان سچائیوں سے مفر ناممکن ہو جائے تو انسان ان کا جرات مندی سے سامنا کرنے کی بجائے کم حوصلگی و کمزوری کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔

ہر من ہیسے کا کہنا ہے کہ ”ہر سچ کے اندر اس کا الٹ بھی اتنا ہی سچا ہوتا ہے“شاید اسی لئے ہم اس الٹ سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔لیکن کہیں نہ کہیں تو وہ اک لکیر موجود ہوتی ہی ہے جو ان کا فرق بتا سکے جو ہماری فہم سے بالاتر رہتی ہے۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری فہم یک طرفہ ہو۔جو ہمیں ہر شے کا ایک ہی پہلو دکھاتی ہے۔ہم جہل کی غار کے اندر ،اس کے گھپ اندھیرے کو ہی سچائی مان لیتے ہیں۔اور کسی درز سے اندر جھانکنے والے روشنی کا پیچھا ہی نہیں کرتے ۔اگر جستجو کی تمنا ہمیں غار سے باہر لے جائے تو شاید حقیقت خود بخود منکشف ہونے لگے۔ کہ اصل روشنی اور زندگی کا منبع”علم وآگہی“ کی صورت غار کے باہر موجود تھا۔

ہمارے جاننے اور نہ  جاننے کے بیچ ضرور کچھ نہ کچھ تو حائل رہتا ہی ہے۔کبھی خود ہماری بے خبری،کبھی ہمارا لوبھ یا لامتناہی تمنائیں اور آرزوئیں ،کبھی شکستہ دلی یا شکستہ حالی۔زندگی سے ہماری بے دلی کا باعث آگہی کے شعور کی کمی ہے ،یا آگہی کو سمجھنے سے معذوری ۔ایک وجہ غار سے باہرنکلنے کے بعد آگہی کی چندھیا دینے والی روشنی کو سہار نہ پانا بھی ہے۔انسان ایسی کسی بھی صورتحال میں ڈگمگا سکتا ہے۔زندگی سے کسی بھی طور ، بیزاری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔نفسیاتی و شخصی بگاڑ اسے مجرم بھی بنا سکتے ہیں اور ذہنی امراض کا شکار بھی۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ہی نقصان پہنچا بیٹھے۔
اپنی محرومیوں کے سوگ میں ہر دم مبتلا رہنے والے لوگ کم ہمت، بے عمل اور بددل بن جاتے ہیں ۔وہ خود کے ساتھ بیتنے والے دکھ کا بدلہ دوسروں سے لینا چاہتے ہیں اور جب نہیں لے پاتے تو اپنی ہی زندگی کو موردالزام ٹھہرا کر اسے اس کے انجام تک پہنچانے کی ٹھان لیتے ہیں۔وہ خود کشی کو ہی اپنے دکھ کا مداوا سمجھتے ہیں۔

زندگی سے بیزاری کی ایک بڑی وجہ ، خواہشات اور توقعات کا پورا نہ ہونا بھی ہے۔ ہماری خواہشات ہمارے گرد ایسا مایا جال بنتی ہیں کہ ہماری تمام تر فہم اور ادراک طمع اور لالچ میں الجھ کر رہ جاتی  ہے۔خواہشات کا یہ چکر ہمیں سر پٹ دوڑاتا ہی رہتا ہے ۔کبھی ہم تھک کر رک جاتے ہیں تو اگلے ہی پل نئی خواہشات کا حساب کتا ب مکمل کر کے پھر سے اندھے راستوں پر دوڑنے لگتے ہیں۔منہ زور آندھیوں میں بہنے والے سوکھے پتوں کی طرح۔جو ہانپتے کانپتے،گرتے پڑتے،باہم ٹکراتے اور پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔اسی طرح ہم بھی کبھی اوندھے منہ جا پڑتے ہیں کبھی کسی کے قدموں تلے روندے جاتے ہیں۔ لیکن اپنی اناؤں کے کچلے جانے کا سوگ تک منانے کی فرصت نہیں ملتی۔اس سفر پر زندگی کو متلی کی حد تک چکھنے والے لوگ آخر میں اس کی کراہت کو سہارنے کا حوصلہ تک گنوا بیٹھتے ہیں۔ پھر اندر کے خالی پن اور بے مقصدیت سے واپس پلٹنے کی خواہش تو جنم لیتی ہے ۔لیکن وقت اور حالات اس کا موقع نہیں دیتے۔

زندگی سے بیزاری کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔لیکن اس کا نتیجہ صرف قنوطیت،وحشت،خوف،دکھ اور انتشار ذات ہی کی صورت نکلتا ہے۔جن کی گھٹن ہم سے ہمارے ہونے کا جواز تک چھین لیتی ہے۔ مایوسی اور شکست ذات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔اس وقت ایک انسان البیر کامیو کی طرح سوچنے لگتا ہے۔کہ ” جب زندگی موت سے بھی  زیادہ لایعنی ہو جائے تو خودکشی لازم ہو جاتی ہے“ان کی نظر میں زندگی کی سفاکیوں سے جان چھڑانے کا واحد طریقہ خودکشی رہ جاتا ہے۔محروم ،مفلس،تنہائی کا شکار،کم ہمت،زندگی کے مفہوم سے غافل اور آگہی کی شدید کمی یا  زیادتی کے حامل لوگ اپنی ذہنی کیفیات میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتے تو خود کشی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔کچھ لوگ بیماری میں مسلسل مبتلا رہنے کے باعث بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ محبت میں ناکامی کو اپنی زندگی کی ناکامی کی وجہ بنا لیتے ہیں۔

ایک حساس،تخلیق کار اپنے مزاج اور فطرت میں تشویش،دکھ اور کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ جس کا اظہار وہ اپنی تخلیق کے ذریعے کرتا رہتا ہے لیکن اگر اس کی یہ کیفیت حد سے بڑھ جائے یا اگر اسے اپنے ہنر کی بے قدری کا سامنا ہو تو بھی وہ زندگی کا خاتمہ کر کے اپنے تئیں اپنی ذات کی فرسٹریشن اور تناؤ سے چھٹکارہ پالیتا ہے۔میاکووسکی،ارنسٹ ہیمنگوے،ورجینیا وولف کے علاوہ ہمارے ہاں شکیب جلالی،سارا شگفتہ،مصطفیٰ زیدی جیسے شاعر اور ادیب اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر چکے ہیں۔

قدرت نے انسان کے اوصاف میں اپنی صفات کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ودیعت کیا ہے تاکہ یہ کائنات اپنے محور سے باہر نہ نکل سکے۔ مثلاً اللہ اپنی صفات میں عادل ہے،رازق ہے،حلیم ہے،کریم ہے ،در گزر کرنے والا ہے، حکمت والا ہے دانا ہے تو ایسی ہی لامحدود صفات کا  ذرہ بھر حصہ انسان کی بھی سرشت کو سونپا گیا ہے۔ یہ اور بات کہ انسان ان صفات کو سمجھنے اور اپنی ذات سے ان کا اظہار کرنے سے اکثر قاصر ہی رہتا ہے۔ اگر وہ ان صفات کو اپنی ذات کا حصہ بنائے تو شاید بہت سے نفسیاتی و شخصی مسائل سے بچ سکے ۔ان اوصاف میں ایسا رنگ اور حسن ہے جس کی مدد سے انسان زندگی کو اپنے ارد گرد اور خود اپنے اندر تلاش کر سکتا ہے ۔وہ خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے زندگی کے لمحے چن سکتا ہے۔ شاید اسی سچائی کو جاننے کا راستہ زندگی کا راستہ ہے۔جو اپنی ذات سے شروع ہو کر کائنات تک محیط ہو جاتا ہے۔

خدا ایک اعلیٰ تخلیق کار ہے ۔ جس نے فطرت کے مظاہر سے لبریز یہ کائنات ،کل جہان تخلیق کئے۔ اس نے اپنا یہ تخلیقی وصف بھی انسان کو تھوڑا بہت عطا کیا ہے۔ کسی فنکار کا فن،موسیقار کی دھن،ادیب کا تخیل، مصور کا فن پارہ،سائنسدان کی ایجاد،استاد کا سبق، قاری کی خوش الحانی سب تخلیق کے ہی مظاہر ہیں جو ہر انسان میں کسی نہ کسی طرح موجود ہیں۔ لیکن ہر انسان اسے سمجھ نہیں پاتا۔یہ زندگی کا بہترین مصرف اور انسان کی جمالیاتی حس کی تشفی کا سامان ہیں۔ یہ انسان کو فطرت کے قریب لے جاتے ہیں۔ چرچل نے کہا تھا کہ ” تم اپنی دنیا خود تخلیق کر سکتے ہو ،تمہاری قوت متخیلہ جس قدر مضبوط ہوگی تمہاری دنیا اسی قدر خوش باش ہو گی۔ اور جب تم خواب دیکھنا چھوڑ دو گے تو تمہاری دنیا اپنا وجود کھو دے گی۔“تخلیق کا وصف زندگی کی علامت ہے۔ جو انسان کے اردگرد بکھری گھٹن کو پی جاتا ہے۔ یہ انسان کو اس کی منزل کا پتہ بھی دیتا ہے اور اس کی محنت کے ٹھکانے لگنے کا اطمینان بھی۔ اس سے معاشرے کی لامتناہی اور اندھی خواہشات کے آگے بند باندھنے کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔اور بے عملی و بے دلی سے دم توڑتے سماج کی نسوں میں نئے خیالات و تصورات کی آکسیجن بھر ی جا سکتی ہے۔ ہر انسان کے گرد ڈھکی چھپی اور پوشیدہ سچائی کو تلاشنے اور قابل فہم بنانے میں مددگار سچے تخلیق کار معاشرے کو گیان اور دھیان دونوں ہی کی قوت و قدرت عطا کرتے ہیں ۔یہ وہ اظہار ذات اور انکشاف ذات ہے جس سے انسان عرفان ذات حاصل کرتا ہے۔لیکن یہی تخلیق کار جو سماج کو زندگی دینے والا ہے اپنے مزاج اور طبیعت میں کب ایسی بے دلی و پس مردگی کا اظہار کر جائے اس کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔مغرب کے تحقیقی مطالعے بتاتے ہیں کہتکلیقی صلاھیتوں کے حامل لوگ ایک عام انسان سے کہیں ذیادہ ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔اس لئے ان میں خودکشی کا رحجان ذیادہ پایا جاتا ہے۔وہ مسائل زمانہ کو برداشت کرنے کی ہمت اور جرائت میں بہت حد تک کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ خصوصاً شاعر حضرات کے اندر کا ڈپریشن ان کی شاعری میں عیاں ہوجاتا ہے۔

تخلیقی وصف قدرت کا عطا کیا ایک تحفہ ہوتا ہے ۔اور تخلیق کا مطلب ہی پیدا کرنا یا وجود میں لانا ہے۔وہ ایک عظیم روح کا مالک ہوتا ہے۔وہ روح جو اس کی تخلیق کو عظیم بناتی ہے۔ وہ تو انسان کو اس کے احساسات و خیالات اور جذبات کو ترتیب دینا سکھاتا ہے تو اپنے وجود کے اندر پنپنے والے جذبات میں اس قدر منتشر کیسے ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی کو اپنے وجود کے اندر مسخر کریں اور اسے اس کا حق ادا کریں ۔زندگی کے ہوتے ہوئے زندگی کو کھونے کی بجائے اسے کھوجنے کی جستجو کریں۔ اسے شکستہ حالی میں بھی بے قدرا نہ ہونے دیں ۔خود کشی ،زندگی کی بے قدری اور بے حرمتی ہے۔اس کی تاک میں رہنے والی مایوسی سے انسان کی ازلی جنگ ہے جو کائنات میں زندگی کے وجود میں رہنے تک انسان کو ہر حال میں جیتنا ہی ہے ۔کیونکہ انسان کا محور مایوسی نہیں بلکہ زندہ دلی ہے۔

Facebook Comments

فارینہ الماس
تعلیم سیاسیات کے مضمون میں حاصل کی لیکن اپنے تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعہ کو اہمیت دی۔لکھنے کا شوق افسانے اور ناول لکھ کر پورا کیا۔سال بھر سے کالم نگاری میں مشق جاری ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply