لڑکپن کا عشق۔یاد نمبر65/منصور مانی

لڑکپن کا عشق،یاد نمبر 65

میں چوبرجی کے چار میناروں کے سامنے ساکت کھڑا تھا،  ابھی  آگہی  کا در  وا ہونے میں سترہ برس کی مسافت  حائل تھی!میرے سامنے  تیسرے مینار  کی اوٹ میں  ایک آدمی  بیٹھا ہو اتھا جس کی نظریں مجھ پر گڑی تھیں، آدمی کے  چہرے پر  ویرانی اور نحوست نے کالک مل رکھی تھی، میں تھوڑا آگے بڑھا، وہ آدمی ایک ہاتھ پر کسی چیز کو مسل رہا تھا، جیسے ہی میں مزید آگے بڑھا میرا استقبال  ایک ناگوار  بُو اور اُس آدمی کی مسکراہٹ نے کیا، مجھے ادراک ہوا کہ وہ آدمی کسی چیز کا نشہ کرنے کی تیاریوں میں  تھا،  میں کچھ گھبرا کر آگے  سے ہٹنے لگا!

عاشق ہو؟

اُس نے دریافت کیا؟

میں اُس کے اس عامیانہ سوال پر جُز بز سا ہو گیا!

تمہیں کیا تم اپنا نشہ کرو!

اپنا نشہ ہی تو نہیں ملا!

یہ تو دنیا  میں کھو جانے کے لیے ہے ! یہ کہہ کر اُس نے  ماچس سے سگریٹ کو سُلگایا، اور ایک گہرا کش لگا کر  دھویں کا ایک مہین مرغولہ فضا میں چھوڑا،میں سگریٹ سے پیدا ہونے والی چرس کی بدبو سے ہراساں ہو کر پیچھے کی جانب  ہٹا، مگر اُس کی باتوں نے مجھے اُس کے پاس رُک جانے پر مجبور کر دیا تھا،

تم نے مجھے عاشق کیوں کہا؟

تم نہیں آپ!، اُس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا، عمر تجربے اور علم میں تم سے کہیں بڑا ہوں!

میں نے ایک نظر اُس کے میل سے اٹے لباس پر ڈالی، گندگی اور غلاظت کی پوٹ محسوس ہوتے اس ڈھیر کو میں نے استہزہ کی نظر سے دیکھا!

اور آپ۔۔۔ ، اور آپ  نے مجھے عاشق کیوں کہا؟

تمہاری عمر، تمہارہ چہرہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہےکہ تم عاشق ہو!

میں  نے غصے سے کہا !نہیں ۔۔ میں تو عاشق نہیں میں تو بس طالب علم ہوں!

ابے جا لونڈے، ابھی ایک ماروں گا تو سب منہ سے نکل جائے گا، ادھر آ میرے پاس بیٹھ!

میں ڈر گیا،اور ایک  ٹرانس کے عالم  میں اُس کے پاس جا کر بیٹھ گیا، مجھے بدبو محسوس ہو رہی تھی، میرا دم گھٹ رہا تھا!

مگر مجھے حیرت بھی تھی کہ یہ کیسا چرسی ہے جو علم اور عشق کی باتیں کر رہا ہے!

کہاں رہتی ہے؟ اور تو کیوں اس کے پیچھے کراچی سے لاہور آیا؟ تیرے ماں باپ کو پتا ہے کہ تو لاہور میں ہے؟ اُس نے اپنی آلودہ سانس میں کئی سوال پرو ڈالے!

میں تو گھومنے آیا ہوں، اور بس !

میں نے  اپنی   پیشانی پر نظر نہ آنے والے پسینے کو صاف کرتے ہوئے  کہا!

جبیں کی دھول جگر کی جلن چُھپائے گا

شروع عشق ہے وہ فطرتاً چُھپائے گا!

میں کچرے کے ڈھیر میں سے کھلتے شعر کے کنول کو دیکھ کر بُری طرح چونک گیا، دل نے ایک دم یہ سوچا کہ  ہو نہ ہو یہ کوئی صاحب علم آدمی ہے جو حالات کا شکار ہو کر نشہ کر رہا ہے!

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اُس نے اپنی سگریٹ ختم کر کے ہوا میں ایک سمت اچھال دی، پھر اُس نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے  اپنے برابر میں رکھی گٹھڑی سے شکن آلود مگر صاف کپٹرے نکالے اور میرے سامنے ہی کھڑے ہو کر بدل ڈالے، پھر ذرا دور لگے دو مٹکوں کے پاس گیا اور اُن میں سے پانی نکال کر اپنا منہ  ہاتھ دھویا، اور  میرے پاس آ کر بیٹھ گیا، میں اس کایا کلپ پر سخت حیرانگی کا شکار تھا مجھے یہ سب ایک افسانہ لگ رہا تھا کسی کچے ذہن اور نا پختہ قلم کار کا لکھا ہوا افسانہ جو کبھی بھی دم توڑ سکتا تھا، مگر  ماحول میں رچی چرس کی بدبو  بار بار  یہ احساس دلا رہی تھی کہ یہ حال ہے جو بیت رہا ہے!

اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا چل تجھے اپنے معشوق سے ملواتا ہوں!

میں بھی عاشق ہوں!

میں  کچھ ڈرا ڈرا  سااُس کے ساتھ چل دیا، وہ مجھے لاہور کی گلیوں میں  گھماتا  پھراتا   چل دیا، رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا،

میں  نے  اُردو زبان میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے!

میں نے اُسے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا!

اُس کے چہرے پر  ملی کالک میں سے اب مجھے  کہیں کہیں سچائی کی کرنیں پھوٹتی ہوئی نظر آ رہی تھیں! میں خاموشی سے اُس کی باتیں سننے لگا!

مگر اب وہ خاموش تھا۔۔ !

دو مختلف  سمتوں کے مسافر ایک  مشترکہ منزل کی جانب ہم قدم تھے!

میں لڑکپن کی سرحد پر تھا اور نوجوانی  کی سمت گامزن تھا جب کہ وہ  بڑھاپے کی سرحد پر پیر جمائے بیٹھا تھا کہ اب اُس پار اُترا کہ جب!

لاہور  میرے لیے ایک جادو کی نگری  تھی ، میں جب جب لاہور آیا اس کی  فضا نے مجھے بد حواس کر دیا، لاہور آتے ہی جانے کیوں میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی  تھی، میں عموماً گھر والوں سے چھپ کر دو سے تین دن کے لیے لاہور آیا کرتا تھا،  بس آتا کسی بھی سستے سے ہوٹل میں رُکتا اور پیدل  ادھر سے ادھر گھومتا! مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو مجھے بار بار لاہور کی جانب کھینچ لاتی ہے! چوبرجی کے بائیں جانب بنے ہوئے روڈ پر نکل جاتا اور پارک کے سامنے بنے چند بنگلوں کی قطار میں چُھپے ایک تاج محل کو کھوجنے کی کوشش کرتا! ان دنوں میں بس ایک جستجو  کے کرب میں مبتلا تھا،مجھ پر ابھی آگہی کا در وا ہونے میں کئی برس حائل تھے!

ماحول میں   ایک بلا وجہ کی گرمجوشی محسوس ہو رہی تھی، کانوں میں  ڈھول کی  تھاپ گونج رہی تھی میں   حال میں واپس آیا ، سامنے داتا کا دربار تھا!

یہ میرا محبوب ہے!

مگر تم نے تو کہا تھا کہ  تم اپنے معشوق کے پاس لے کر جا رہے ہو!

اُس نے  میری جانب ایک  یاس بھر نظر ڈالی اور کہا ، میں نے آج نشہ کیا ہے معشوق کے پاس نہیں جا سکتا،

تو کیا  ولی اللہ کے پاس جا سکتے ہیں؟

ہاں !

ولی  سمیٹ لیتا ہے نخرہ نہیں کرتا!

معشوق ستم ڈھاتا ہے، دھتکار دیتا ہے!

میں مایوس ہو گیا اس نے میری مایوسی کو محسوس کرتے ہوئے  کہا اچھا محبوب کو سلام کر لیں پھر چلتے ہیں !

بس دور  دور سے دیکھیں گے!  پاس نہیں جائیں گے آج میں اس قابل نہیں کہ معشوق کا سامنا کر سکوں!

ہم داتا کے دربار میں  گھس گئے!

مجھے کوئی رغبت محسوس نہیں ہو رہی تھی،

ہم  اندر گئے میرے ساتھ آئے ہو چرسی عاشق نے ایک جذب کے عالم میں آنکھیں بند کرکے   کچھ پڑھنا شروع کیا، میں نے غور سے سُننے کی کوشش کی مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا،

میں نے بھی بے دلی کے ساتھ داتا کو سلام کیا،

مزار کی ایک ایک چیز مجھے اپنی جانب گھورتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی !

میں اس ماحول میں اجنبی تھا!

یہ داتا کے پاس میرا  تیسرا

اور لاہور کا   دسواں  چکر تھا!

مجھے چرسی عاشق کے معشوق کو دیکھنے کی جلدی تھی، مگر چرسی کی مناجات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں!

میں نے  چرسی کو ٹوک کر کہا، چلیں!

چرسی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کسی نے اُسے عین  نشے کے سرور میں    انتہا  پر ، ٹھنڈا پانی ڈال کر برف کر دیا ہو!

اُس نے خاموشی سے اپنے چہرے پر ہاتھ   ملے اور کہا،

داتا سے مانگ لے جو مانگنا ہے!

کیوں داتا  نے  تمیں تمہارا معشوق دیا؟

چرسی نے مجھے کہا۔۔۔تو سوال بہت کرتا ہے!

ابھی تو عاشق نہیں ،عشق کے عین پر ہے!

عاشق سوال نہیں کرتے!

چل اس نے کہا،۔۔

ہم دونوں  ایک انجانی سمت  چل دیے !

جلد ہی مجھے لوگوں کی چہل پہل نظر آنا شروع ہو گئی اس چہل پہل میں   بہت جلدی تھی!

چھپ جانے کی جلدی!

میں سمجھ گیا تھا!

کیا ہم بازار حسن جا رہے ہیں ؟

ہاں

ہم اب ہیرا منڈی میں ہیں ، چرسی نے جواب دیا!

میرا سار شوق   ایک دم ہوا ہو گیا، مجھے  احساس گناہ نے گھیر لیا!

یہ میں کس جگہ آ گیا ہوں ، اگر کسی نے دیکھ لیا، کسی کو پتا چل گیا!

میرے چہرے پر  پھیلی ہوئی  سوالات اور  ڈر کی تنی چادر کو چرسی نے محسوس کر  لیا،

اُس نے سامنے گجرے   بیچتے ہوئے ایک لڑکے کو رُوکا اس سے  موتیے کے دو بھرے بھرے گجرے  لیے !

اور مجھے لے کر اُس گلی میں گھس گیا!

گلی کیا تھی رنگ و بو کا ایک جہاں تھی، لکٹری کے بڑے بڑے دروازے چوپٹ کُھلے ہوئے تھے دروازے کو  پار کرتے ہی ایک بڑی بیٹھک تھی جس میں چند لڑکیاں صوفے پر سجی سنوری بیٹھی ہوئی تھیں ، یہ منظر کم و پیش ہر دروازے سے جھانک رہا تھا!

ابھی  محفل سجنے میں وقت تھا، میں اس اجنبی چرسی کے ساتھ چلا جا رہا تھا!

میرے دل میں اب ڈر نہیں تھا مگر اشتیاق بھی نہیں تھا!

مجھے معلوم تھا کہ میں ایک طوائف کے پاس جا رہا تھا!

مجھے افسوس تھا۔۔۔

ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر جو چرسی تھا اُس کی معشوق ایک طوائف تھی!

میں اسی سوچوں میں غلطاں تھا کہ  چرسی کے قدم رُک گئے، لگا کہ منزل آ گئی ہے!

اُس نے میری جانب دیکھ کر سامنے ایک دروازے کی سمت اشارہ کیا!

اور میرے ہاتھ میں گجرے تھما دیے اور ہاتھ جوڑ کر کہا!

بس جا کر دے آؤ، میری حاضری ہو جائے گی !

مگر میں کیوں! میں نے کہا!

میں نہیں جا سکتا ، نشے میں ہوں، بس تم جاؤ، وہ سمجھ جائے گی! اُس نے مجھے دھکا دیتے ہوئے  کہا!

میں ،ہاتھ میں گجرے تھام کر اُس دروازے کی جانب بڑھا، یہ دروازہ بند تھا ،  دروازے کے اوپر ایک بلب لگا ہوا تھا جو اردگرد کے اندھیرے کو چیرنے  کی ناکام کوشش کر رہا تھا!

میں دروازے کے پاس پہنچ گیا، اور دستک دینے کے لیے جیسے ہی ہاتھ اُٹھایا اندر سے ایک آواز آئی اندر آ جاؤ، دروازہ کُھلا ہے!

میں دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہو گیا!

گھر کے اندر،  ایک ایسی بو تھی جو کسی کے انتقال کے وقت دروبام سے آتی ہے!

میں آگے کی جانب بڑھا، سامنے  ایک ٹوٹا ہوا چنیوٹی جھولا پڑا تھا، جس کا ایک پایا، ٹوٹا ہوا تھا، پائے کے نیچے ایک اینٹ لگا کر اُسے بیلنس کرنے کی کوشش کی گئی تھی، مجھے لگا کہ جیسے جھولے میں کوئی لیٹا ہوا ہے، میں جھجک کر ایک جانب کھڑا ہو گیا، میرے ہاتھوں میں گجرے تھے!

ارے اس عمر  میں ہاتھ میں گجرے!

میں نے آواز کی سمت دیکھا!

اور بس دیکھتا ہی رہ گیا،

میرے سامنے حسن کی ایک مکمل تصویر تھی، رعب حسن سے میری زبان گنگ ہو چکی تھی،  میں چُپ چاپ کھڑا اُس عورت کی طرف دیکھتا رہا،

عورت نے میری جانب دیکھا اور ہنس پڑی، اور کہا ابے لونڈے اب کیا دیکھتا ہے ، جوانی میں دیکھتا اب تو بس کھنڈر ہے!

جا رکھ دے یہ گجرے اُس کے پاس، عورت نے جھولے کی سمت اشارہ کیا!

مجھے معلوم ہے۔۔۔یہ کس نے بھیجے ہیں!

میں جھولے کی جانب بڑھا، سر سے پیر تک کوئی چادر  میں چُھپا لیٹا ہوا تھا،  جیسے ہی میں  جھولے کے نزدیک آیا،  چادرمیں سے ایک سفید ہاتھ باہر نکلا!

جو کئی جگہ  سےجلنے کے باعث کالا پڑ چُکا تھا،  کلائی تک پورے ہاتھ میں جگہ جگہ جل جانے کے نشان تھے جو سفید  جلد پر بد نما لگ رہے تھے!

میرے ہاتھ میں پکڑا دو اور اپنی شکل گُم کرو!

چادر میں سے ایک آواز نکلی،

میں نے ایک نفرت آمیز نظر سے چادر کو دیکھا ور گجرے جھولے میں پھینک کر، باہر کی سمت دوڑ لگا دی!

جاری ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

(مانی جی، میں عوام)

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply