دنیا کا سب سے خوبصورت دل کس کے پاس ہے؟۔۔عارف انیس

ایک پُرفضا وادی میں ایک لمبا تڑنگا، کسرتی جسم کا دیوتا صفت نوجوان رہتا تھا جسے اپنے دل کی خوبصورتی پر بہت ناز تھا. ایک دن اپنے قصبے کے بڑے چوراہے کے درمیان کھڑے ہو کر ترنگ میں اس نے اعلان کر دیا “وادی والو، غور سے سنو، میرا دل اس وادی کا سب سے خوبصورت دل ہے. جسے شک ہے، وہ آئے اور دیکھ لے”.
اس کی بات نے ایک دم ہل چل مچا دی. لوگ دور دور سے اس کے دل کی زیارت کو آنے لگے. ایک قطار سی لگ گئی. اس کے دل کی خوبصورتی نے سب پر جادو کردیا. ایسا لشکارے مارتا ہوا، صحت مند، بغیر کسی خراش کے توانا دل تھا کہ وہ دھڑکتا تو دیکھنے والے سانس لینا بھول جاتے. پھر سب آپس میں نظریں ملاتے اور اقرار کرلیتے کہ واقعی یہ اس وادی کا سب سے خوبصورت دل ہے.
نوجوان اپنے مداحوں کی باتیں سن کر مزید فخر سے پھول گیا. وہ اب قلعی والے مرغے کی طرح ہر روز چلتا ہوا گاؤں کے مرکز میں جاتا اور لوگ قطار بنائے آتے، اس کا دل دیکھتے اور ہکا بکا رہ جاتے.
ایک دن ایک دل پذیر حسینہ نوجوان کے دل کو سراہ رہی تھی اور نوجوان اپنی جوانی کے نشے میں مدہوش کھڑا تھا کہ اچانک ایک منمناتی ہوئی آواز آئی “پرے ہٹو، میرا دل تمہارے دل سے زیادہ خوبصورت ہے”.
نوجوان نے ایک وحشت سے ادھر ادھر دیکھا. قطار میں بھی ہل چل پیدا ہوئی اور لوگوں نے آس پاس نگاہ کی. بالآخر ان کی نظریں پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ایک بوڑھے پر پڑیں جس کی ولولہ انگیز داڑھی بل کھاتی ہوئی اس کے سینے پر بکھری ہوئی تھی.
نوجوان نے بوڑھے کو نظروں نظروں میں تولا، پھر اس کے چہرے پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ بکھر گئی.
“وادی والو، سنا تم نے؟” اس نے اونچی آواز میں کہا اور کچھ لوگ مزید ہنسے.
“دکھاؤ اپنا دل بڑے میاں….. لاؤ ہم بھی تو دیکھیں، مگر احتیاط سے کہ ایسا نہ ہو کہ دل دکھاتے اللہ کو پیارے ہوجاؤ”. اس بار ایک بھرپور قہقہہ پڑا.
بوڑھے نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا اور مظبوط قدموں سے آگے بڑھا. “کیوں، نہیں، آجاؤ سب نظارہ کرلو……. دیکھ لو میرا دل “….. اور یہ کہ کر اس نے اپنا دل ہاتھوں میں لے کر نوجوان کی طرف بڑھایا. اسی دوران ایک ٹھٹھ لگ چکا تھا اور کئی اور لوگوں گردنیں اٹھا کر ادھر دیکھ رہے تھے اور پھر وہ دیکھتے رہ گئے.
بوڑھے کا دل مظبوط اور صحت مند تھا اور ٓایک رچاؤ کے ساتھ دھڑک رہا تھا مگر نوجوان کے لشکتے، چمکتے دل کے ساتھ اس کا کوئی مقابلہ نہیں تھا. بلکہ اس کے ارد گرد خراشیں اور گہرے زخم بھی موجود تھے. کچھ جگہیں تو ایسی لگ رہی تھیں جیسے کہ وہاں سے دل کے اس حصے کو نکالا گیا ہو اور کوئی اور حصہ ڈال دیا گیا ہو. وہ حصے ابھرے ابھرے اور بے جوڑ دکھائی دے رہے تھے.
نوجوان ہلکی سی ہنسی ہنسا. مجمع میں کچھ اور لوگ قہقہہ بار ہوئے. صاف لگ رہا تھا کہ بڈھے دل کا نوجوان سے کوئی مقابلہ نہیں تھا اور بوڑھا محض دل لگی کر رہا تھا.
“بڑے میاں، اتنے اونچے بول؟ اس کا دل دیکھو اور اپنے دل پر نظر کرو جس پر خراشوں اور زخموں کے ڈھیر ہیں. بلکہ لگتا ہے کہ اس پر تو پپنتیس پنکچر لگے ہوئے ہیں”. یہ گاؤں کا چوہدری تھا.
بوڑھے کے چہرے پر تاثرات منجمد رہے. اس نے ایک وقار کے ساتھ دایاں ہاتھ اٹھایا تو خاموشی سی چھا گئی.
” مانا کہ تمہارا دل مجھ سے زیادہ چمکدار اور لشکارے دار ہے، مگر میں کسی قیمت پر بھی اپنا دل تمہارے والے سے ادلی بدلی نہیں کروں گا.” اس نے پاٹ دار آواز میں کہا تو بہت سی جبینیں شکن آلود ہوگئیں.
“دیکھو یہ جو میرے زخم ہیں… ہر زخم کا نشان اس بندے سے وابستہ ہے جسے میں نے اپنی زندگی میں پیار دیا. میں نے بس اپنے دل کے اس ٹوٹے کو پکڑا اور اس کے حوالے کردیا. میں نے اپنے والدین کو، دوستوں کو، اپنی محبوباؤں کو، اپنے بچوں کو، اجنبیوں کو، اسی دل سے ٹکڑے توڑ کر ان کے حوالے کیے. بہت دفعہ ایسا ہوا کہ دل کا وہ ٹکڑا لینے والے نے، اپنے دل کا ایک ٹکڑا توڑا اور میرے حوالے کردیا اور میں نے وہ ٹکڑا اپنے دل میں موجود خالی جگہ پر چسپاں کردیا. لیکن جیسے ہمیں معلوم ہے کہ ہر کوئی اپنے طریقے سے محبت کرتا ہے اور وہ ہماری محبت کی روایت سے بالکل مختلف بھی ہوسکتا ہے. سو بہت دفعہ ایسا ہوا کہ اپنے دل کا جو ٹکڑا انہوں نے مجھے دیا وہ اپنی جگہ پر نہ بیٹھ سکا. تبھی یہ بے جوڑ پنکچر سے بن گئے ہیں “. بوڑھا یہ کہتے ہوئے بھیگے سے لہجے میں مسکرایا.” لیکن یہ پنکچر مجھے بہت پیارے ہیں کہ یہ مجھے سانجھی مگر بے جوڑ محبتوں کی یاد دلاتے ہیں “.
چوراہے میں ایک سکوت سا طاری ہوگیا. بوڑھے کی بات نے جیسے سب کا دل دبوچ لیا تھا.
” یہی نہیں، ایسا بھی ہوا کہ بعض اوقات میں نے اپنے دل سے ٹوٹا نکال کر اگلے کے حوالے کردیا. مگر اگلے نے جواب میں کچھ بھی واپس نہیں دیا. تبھی یہ کھائیاں نظر آرہی ہیں. ویسے تو یہ تکلیف دہ ہیں مگر پھر بھی مجھے پیاری ہیں کہ یہ ان محبتوں کی نشانیاں ہیں جو واپس نہیں آئیں. ” یہ کہ کر بوڑھا ایک لمحے کے لیے رکا اور ہنسا” اب بولو پھر، کس کا دل زیادہ خوب صورت ہے؟ “.
نوجوان کی آنکھوں میں آنسو تھے جو آس کے گالوں پر سے ہل چلاتے ہوئے اس کے سینے پر جاگرے. مجمع میں موجود اور لوگ بھی رو رہے تھے اور بوڑھے کو عقیدت سے دیکھ رہے تھے. انہیں اپنی زندگیاں اور اپنی محبتیں یاد آرہی تھیں.
نوجوان نے اپنی آنکھیں مسلیں اور وہ چلتا ہوا بوڑھے کے سامنے آگیا، پھر اس نے اپنے لشکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا اور وہاں سے ایک ٹکڑا توڑ کر بوڑھے کے حوالے کردیا. اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے.
بوڑھے نے تشکرانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا. اس نے نوجوان کے دل کا ٹکڑا اپنے دل پر آراستہ کیا اور پھر اپنے دل کا ایک ٹکڑا نکالا اور نوجوان کے چمکتے ہوئے دل میں خالی ہوئی جگہ ہر رکھ دیا.
نوجوان نے حیرت زدہ نظروں سے اپنے دل کی طرف دیکھا. اب وہ پہلے جیسا لشکتا ہوا نہیں لگ رہا تھا. چمک کچھ کم ہوگئی تھی، مگر وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہا تھا کہ بوڑھے کے دل سے کچھ محبت اور کچھ درد کی لہریں اس کے دل میں ایک انوکھی سی کیفیت جگا رہی تھیں. پھر اسے محسوس ہوا کہ اس درد کے بغیر اس کا دل کتنا نامکمل تھا.
بوڑھے اور نوجوان، دونوں نے چہروں پر مسکراہٹ لیے ایک دوسرے کو گرم جوشی سے گلے لگایا اور پھر وہ اپنی اپنی منزلوں کی جانب چل دیے.
عارف انیس
( ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply