کشمیر کا سچ: گراؤنڈ رِپورٹ (قسط دوم)

ڈاکٹر قمر تبریز۔

عارف کے ساتھ میں 16 جون، 2017 کو صبح تقریباً 9 بجے ڈل جھیل کی سیر کر رہا تھا۔ یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہاں اتنا سناٹا کیوں ہے۔ عارف کے دل میں ہندوستانی حکومت یا فوج کے خلاف کس قدر غصہ ہے، اس کی تفصیل آپ پہلی قسط میں پڑھ چکے ہیں ۔ شکارہ چلانے والے عارف کے ساتھ میری بات چیت کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ایک دوسرا شکارہ ہمارے قریب آگیا۔ اس پر سوار 50 سالہ فاروق انگوٹھی اور لڑکیوں کے گلے کے ہار وغیرہ بیچ رہے تھے۔ ڈل جھیل میں شکارے سے مختلف قسم کے ساز و سامان بیچنے والے گھومتے رہتے ہیں ۔ ان کی اچھی کمائی بھی ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہاں اکثر و بیشتر ملک و بیرونِ ملک کے سیاح بڑی تعداد میں ہر وقت موجود رہتے ہیں ۔ یہ سیاح پانی پر ہی ہاؤس بوٹ کی شکل میں موجود ہوٹلوں میں قیام بھی کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈل جھیل میں ایک بازار بھی موجود ہے، جہاں انواع و اقسام کی اشیاء سے لیس متعدد دکانیں ہیں ، جن میں عام طور سے کشمیری شال، خشک میوے وغیرہ فروخت کیے جاتے ہیں ۔

فاروق سے میں نے پوچھا کہ پہلے وہ روزانہ کتنا کما لیتے تھے اور اب کتنا کماتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ڈل جھیل میں پہلے وہ روزانہ ایک ہزار روپے اپنا سامان بیچ کر کما لیتے تھے، لیکن پچھلے دو سال سے سیاحوں کے نہ آنے سے اب ان کی روزانہ کی آمدنی صرف 200 روپے تک سمٹ گئی ہے۔ پچھلے سال کی طرح چونکہ اس سال بھی ڈل جھیل کا رخ کرنے والے سیاح بہت ہی کم ہیں اور میں جس وقت وہاں موجود تھا، وہاں اس وقت مجھے دور دور تک کوئی دوسرا سیاح نظر نہیں آ رہا تھا، اس لیے فاروق کو کسی دوسرے سیاح کے پاس جاکر اپنا سامان بیچنے کی جلدی نہیں تھی۔ ان کے پاس وقت ہی وقت تھا، اس لیے وہ میرے شکارہ کے ساتھ دیر تک رکے اور میرے سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ وہ ’زی نیوز‘ سے سب سے زیادہ نالاں دکھائی دیے۔ ان کا ماننا تھا کہ ٹی وی چینلوں کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے ہی کشمیر کی شبیہ خراب ہو رہی ہے اور سیاح کشمیر آنے سے خوف کھا رہے ہیں ۔

اس سے پہلے، میں نے دہلی کے اخباروں میں بھی جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ کا یہ بیان پڑھا تھا کہ ٹی وی چینل والے کشمیر کی نیوز دکھاتے وقت حقیقت بیانی سے کام لیں اور ریاست کی غلط شبیہ نہ پیش کریں ۔ ظاہر ہے، ان کا بھی اشارہ اسی بات کی طرف تھا جس بات کو ڈل جھیل میں مجھے فاروق بتا رہے تھے۔ تبھی ایک اور شکارہ زعفران اور خشک میوے کے ساتھ ہمارے شکارہ کے قریب آگیا۔ اس پر دو بزرگ دکاندار بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے ان سے بھی پوچھا کہ ان کا کاروبار کیسا چل رہا ہے، تو انہوں نے مایوسی بھرے انداز میں جواب دیا کہ بڑی مشکل سے وہ گزر بسر کر پا رہے ہیں ۔ اس پر میں نے کہا کہ بیوقوف تو آپ لوگ ہی ہیں ، جو پتھر بازی کر کے پورے ماحول کو خراب کیے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے سیاح یہاں آنے سے ڈرنے لگے ہیں ۔ اب رونے سے کیا فائدہ؟ اس پر وہ صاحب کافی برہم ہو گئے اور بولے کہ اگر تم صحافی ہو تو، میں جو بتاؤں گا وہ تم لکھ نہیں پاؤگے!

میں نے ان کو کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر صحافی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ لیکن، ٹی وی چینلوں پر کشمیر کے بارے میں جو کچھ جھوٹ سچ دکھایا جاتا ہے، اس کو لے کر وہ کافی غصے میں تھے اور بولے کہ یہاں آکر ہر صحافی یہی کہتا ہے کہ وہ حقیقت بیانی سے کام لے گا، لیکن دہلی جاکر کچھ اور کرتا ہے۔ یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ گراؤنڈ رپورٹنگ کرنے والا کوئی بھی صحافی، چاہے وہ ہندوستان کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، اپنے اخبار یا ٹی وی کے دفتر کو صحیح خبر لکھ کر بھیجتا ہے۔ اب یہ ٹی وی یا اخبار کا مالک طے کرتا ہے کہ اسے کون سی رپورٹ دکھانی ہے اور کون سی نہیں ۔ وہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ خبر کو کیا اینگل دینا ہے۔ یہیں سے سیاست شروع ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ٹی وی یا اخبار کے مالکوں پر حکومت وقت کا دباؤ رہتا ہے کہ ان کو اسی انداز میں خبر کو پیش کرنا ہے، جیسا حکومت چاہتی ہے۔ کشمیر کا معاملہ ویسے بھی بہت حساس ہے، اس لیے وہاں کی رپورٹنگ کرتے وقت صحافیوں کو اور بھی محتاط رہنا پڑتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہ چلی جائے، جس سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی سبکی ہو۔ اس بات کو عام قاری نہیں سمجھتے، اس لیے ان کی شکایت بھی بجا ہے۔ بہرحال، ایک صحافی کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت حال سے عوام اور حکومت کو روبرو کرائے، تاکہ اگر ان سے کہیں کوئی غلطی ہو رہی ہے، تو اس کا ازالہ کیا جا سکے۔

پچھلے دو سالوں سے سیاحوں کے کشمیر نہ جانے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں اکثر ہڑتال رہتی ہے۔ سیکورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان انکاؤنٹر کہیں بھی، کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت روک دی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کسی سیاح نے وہاں کسی ہوٹل میں ایک کمرہ دو دنوں کے لیے کرایے پر لیا ہے، تو ہڑتال کی صورت میں اسے مزید کئی دنوں تک اسی کمرے میں ٹھہرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک تو سرینگر، پہل گام، گل مرگ جیسی جگہوں پر ہوٹل کا مہنگا کرایہ، دوسرے ہڑتال یا سیکورٹی خطرات کی بناپر آپ ہوٹل کے کمرے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ایسے میں ہر کسی کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ وہاں اتنے دنوں تک خرچ کو برداشت کر سکے۔ اوپر سے جو گاڑی والے ہیں ، وہ حالات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر اپنا کرایہ دو گنا کر دیتے ہیں ۔ ٹاٹا سومو کا جہاں عام طور سے کرایہ ایک دن کا تین ہزار ہے، وہ پانچ یا چھ ہزار مانگنے لگتے ہیں ۔ پھر، اگر آپ نے ہوائی جہاز کا ٹکٹ پہلے سے بک کرا رکھا ہے یا وہاں سے تقریباً 350 کلومیٹر دور جموں آکر آپ کو ٹرین پکڑنی ہے، تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ صحیح وقت پر وہا ں پہنچ جائیں گے۔

زیادہ تر سیاح انہی باتوں سے گھبرا کر کشمیر کا رخ نہیں کر رہے ہیں ۔ ورنہ دیکھا جائے تو، کشمیر میں اس وقت بھی کسی سیاح کو گھومنے پھرنے میں نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی۔ میں نے وہاں تقریباً 15 روز قیام کیا، مجھے کہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اس دوران میں نے وہاں کے مختلف گاؤں اور شہروں کا دورہ کیا، کئی تاریخی اور سیاحتی مقامات پر گیا، سینکڑوں لوگوں سے ملا۔ ایک تو مقدس رمضان کی وجہ سے پورے کشمیر میں روح پرور منظر تھا، وہیں بارش کی وجہ سے موسم اور بھی خوشگوار ہو گیا تھا۔ نہ تو کہیں کوئی آلودگی اور نہ ہی کوئی شور شرابہ۔ پانچ چھ سال قبل جن گاؤں یا بستیوں میں فوج کے بنکر بنے ہوئے تھے، وہ بھی اب خالی ہو چکے تھے، اسی لیے کہیں بھی آتے جاتے سواریوں کی فوج کے ذریعے چیکنگ کی بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہاں ، اتنا ضرور ہوا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت رک جاتی ہے، حالانکہ مفتی محمد سعید کے دورِ حکومت میں رات کے دس بجے تک سڑکوں پر اور بازاروں میں پوری رونق ہوا کرتی تھی۔

میں نے جب ایک ڈرائیور سے اس کی وجہ جاننی چاہی، تو اس نے جواب دیا کہ حالات خراب ہیں ، کب کس جگہ گولی باری شروع ہو جائے، کسی کو نہیں معلوم، اسی لیے گاڑی چلانے والے رات میں سڑکوں پر چلنے سے گریز کرتے ہیں۔ مجھے بھی ایک بار رات میں تقریباً 9 بجے اپنے کمرے پر آنے کے لیے گاڑی کی ضرورت پڑی۔ بڑی مشکل سے ایک ٹاٹا سومو والا ملا، جو واپس اپنے گھر کو جا رہا تھا۔ کرایے اس نے زیادہ تو لیے ہی، ساتھ میں راستے میں ایک جگہ فوج کے جوانوں نے چیکنگ کے لیے مجھے روک لیا۔ جب انھیں پوری طرح اس بات کا یقین ہو گیا کہ میں دہلی سے وہاں آیا ہوں ، تب جاکر انہوں نے مجھے چھوڑا۔ ہاں ، اس پورے سفر کے دوران پہلی بار مجھے کشمیر میں اس بات کا ڈر لگا کہ میں ایک ’ہندوستانی‘ ہوں ۔ حالانکہ، کشمیر کے لوگ جتنے مہمان نواز ہوتے ہیں ، اتنے شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ہوتے۔ اور اس میں کسی مذہب کی قید نہیں ہے۔ کشمیر کی یہ عظیم روایت رہی ہے کہ وہاں کوئی بھی چلایا جائے، بھلے ہی وہ کوئی ہندوہو، سکھ اور عیسائی یا کسی اور مذہب کا ماننے والا، کشمیر کے لوگ اس کی ضیافت دل کھول کر کرتے ہیں ۔

کئی بار تو اجنبی لوگ بھی آپ کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دیتے ہیں اور اگر کہیں آپ نے انکار کردیا، تو وہ آپ سے فوراً ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن، اس بار نہ جانے کیوں مجھے ہر وقت اس بات کا خدشہ لگا رہا کہ کوئی ’آنکھ‘ میرا پیچھا کر رہی ہے۔ یہ خوف اُس وقت حقیقت میں تبدیل ہو گیا، جب میں ہڑتال کے دنوں میں سڑک کے کنارے تعینات فوجیوں سے ہاتھ ملا رہا تھا، اور تب فوجیوں نے مجھے وارننگ دی کہ گلی کے نکڑ پر جو 10-15 نوجوان کشمیری بیٹھے ہوئے ہیں، وہ تم پر پتھر چلا سکتے ہیں ، ذرا سنبھل کے جانا۔ تجسس اور بھی بڑھنے لگا۔ اب شاید میری سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا تھا کہ کشمیر کے موجودہ حالات کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے۔ کیوں کشمیریوں کے دل سے بندوق کی گولی لگنے کا خوف نکل چکا ہے اور پولیس یا فوج کے جوان غیر مسلح پتھر بازوں سے کیوں سہمے ہوئے ہیں ۔ کیا ان سب کے لیے ’سیاست‘ ذمہ دار ہے یا پھر پاکستان؟ اور، اس کا بہترین حل کیا ہو سکتا ہے؟ یہ ساری تفصلات انشاء اللہ آئندہ ا قساط میں ، لیکن اس سے پہلے اگلی قسط میں بات کریں گے کشمیر کے کسانوں کی، جہاں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کشمیر کے گاؤں میں رہنے والے کسانوں کے غریب بچے آخر کیوں تعلیم پر پتھر بازی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔

پہلی قسط کا لنک:
https://www.mukaalma.com/article/guestarticle/3977

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون میں بیان کردہ حقائق مصنف کی ذاتی رائے ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply