بُک ریویو:جھجھک از حسن منظر۔۔۔ ایک پہلو یہ بھی ہے

     ڈاکٹر حسن منظر کا افسانوی مجموعہ “جھجھک” اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی وہ تصویریں ہیں جن پر نظر پڑتے ہی ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیں، جن کا سامنا ہم نہیں کرنا چاہتے کہ ہم ایک “مہذب” اور مشرقی اقدار کے “علمبردار” سماج میں رہتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے سب جانتے ہیں لیکن اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

   پہلا افسانہ “زیادہ دن نہیں ہوئے” ہے۔ ہمارے منہ پر بھرپور طمانچہ مارنے کے لئے یہ ایک ہی کافی ہے۔ کیا ہمارے شہروں اور قصبوں میں عورت اور خاص طور پر جوان عورت اس عدم تحفظ کا شکار نہیں؟ وہ جتنی مرضی تعلیم یافتہ ہو جائے، اس کا سب سے بڑا جرم اس کا عورت ہونا ہے، جسے یہ مرد کی بالادستی والا معاشرہ نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔

     “چھٹکارا” ہماری مالکانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تمام انسانوں کو برابری کا درجہ دینے والے دین کے پیروکار اپنے ملازموں کو زرخرید جانوروں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔ غلاموں کو تو چودہ سو سال پہلے مساوی حقوق دے دئیے گئے تھے، لیکن ہم آج بھی اپنے ہاں کام کرنے والوں کو غلام سے آگے کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ نسل در نسل یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ اور اگر کوئی “بغاوت” کا مرتکب ہو کر “آزاد” ہونے کی تگ ودو کرنے پر تل جاتا ہے تو پھر بھی اس کے مصائب کم نہیں ہوتے۔ صرف موت ہی اسے تمام آلام سے چھٹکارا عطا کرتی ہے۔

     “جھجھک” جو اس مجموعے کا بھی نام ہے، کی ہیروئن “مہ لقا” ایک روایتی کردار ہے جو ایک بھرے پرے گھر میں پلی بڑھی، گھر والوں اور سہیلیوں سے دنیا جہان کی باتیں کرنے والی، تمام خبریں رکھنے والی لڑکی کی شادی ایک دور دراز علاقے میں ہو جاتی ہے۔ جہاں شوہر کے کام پر جانے کے بعد گھر میں کوئی بات کرنے والا بھی نہیں۔

اس کہانی میں شوہر اور بیوی کے احساسات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ کیسے مرد شادی کے بعد یہ قطعی  بھول جاتا ہے کہ صنف مخالف بھی ایک جیتا جاگتا اور دل و دماغ رکھنے والا انسان ہے۔ اور بیوی اس کا اظہار بھی نہیں کر سکتی۔

نئی نویلی دلہن کی تنہائی کا احساس مرد کو نہیں ہو پاتا۔ اور بیوی اس سے جھجھک کے مارے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔

     “ناشکرے” میں اس دوہرے معیار کو واضح کیا گیا ہے کہ مرد کو عورت پر ظلم روا رکھنے کا طعنہ دینے والے ہی اسے نئے ظلم کے لئے معاونت بھی کرتے ہیں۔

     “بکھیڑا” کا محمد احمد عرف مما ایک مثالی انسان ہے جو سچ، ایمانداری اور اپنے جیسے کم حیثیت لوگوں کی خاطر دولت حاصل کرنے کو ٹھکرا دیتا ہے اور قناعت پسندی کو ترجیح دیتا ہے۔ افسانے کی پنچ لائن یہ مکالمہ ہے جب وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے۔

“یہ کام نہیں ہے بکھیڑا ہے۔ خوشی نہیں ہے اس کام میں۔ مجھ سے نہیں ہو گا۔”

     “دلاسا” ایک ماں کی کہانی ہے۔ مامتا کے لافانی جذبے کا اظہار ہے کہ ایک ماں کو اپنی پہلی اولاد کتنی عزیز ہوتی ہے، چاہے وہ کتنے ہی بچوں کی ماں بن جائے۔ اور اگر وہ پہلی اولاد کہیں ناگہانی کا شکار ہو جائے تو یہ بات کبھی نہیں بھولتی۔ ساری عمر ایک کسک کا سبب بنتی رہتی ہے۔

     “یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی” نئی نسل کے ان جاگتے ذہنوں کا المیہ ہے جو کچھ حساسیت کا شکار ہیں۔ کہ جو کچھ کتابوں میں، درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے، جن اخلاقی اقدار کی تلقین کی جاتی ہے، ہمیں اپنے ارد گرد نظر نہیں آتیں۔ بلکہ اس کے متعلق استفسار کرنا بھی منع ہے۔ لیکن یہ گھٹن اندر ہی اندر بڑھتی جاتی ہے۔ صدیوں کا یہ قرض جو اس نسل پر بڑھتا جا رہا ہے، آنے والی نسل کو اس سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ آج کا ایک اہم سوال ہے۔

     ایک دلہن کو اگلے ہی روز واپس بھیج دیا جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے، اس کی پرواہ کسی کو نہیں۔ ہر ایک کو اپنے کھانے پینے، دولت، کام دھندے سے غرض ہے۔ “نند بھاوج” ایک جیتے جاگتے انسان کو commodity سمجھنے والوں کی کہانی ہے۔ 

      والدین اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ ان کی موجودگی میں بے فکریاور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں پر جب ذمہ داریاں پڑتی ہیں تو ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حسن منظر نے بڑے خوبصورت انداز میں “بادشاہ کا قد” میں اس چیز کر بیان کیا ہے۔ پہلی بار پڑھنے میں یہ بچوں کی کوئی جادوئی کہانی لگتی ہے، لیکن اچانک کہانی ہمارے تصور سے بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ سادہ سے انداز میں شروع کر کے ایک ٹھوس حقیقت تک قاری کو لے جانا ڈاکٹر صاحب کا فن ہے۔

     ایک زمیندار کی اذیت پسندی کو نمایاں کرتی کہانی “بھوبھل کا چہکا” نفسیات کے طالب علموں کے لئے ایک تحفہ ہے۔ اس میں انسانی فطرت کی بوقلمونی سامنے آتی ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انسان کی سوچ نہیں بدلتی، لیکن آگہی کا ایک لمحہ ساری زندگی پر بھاری ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہی انسان جو اپنی بیوی کو ذرا اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا، اس کی خاطر سب کو چھوڑ دیتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیات انسان کے دل و دماغ کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہیں۔

     “لاٹ صاحب” میں جانوروں کی آڑ میں انسان کی اس جبلت کو نمایاں کیا گیا ہے، جو خالق کائنات نے ایک بیلنس قائم کرنے کے لئے رکھی ہے، لیکن انسان ہمیشہ اس کا غلط فائدہ اٹھانے کا سوچتا ہے۔

     “جب میں ہی نہ رہوں۔۔” میں اس بازار کے رہنے والوں کا ذکر ہے، جو سب ہی غلط نہیں ہوتے بلکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی جان دے کر بھی دوسروں کے کام آتے ہیں، اور نام نہاد شرفاء اس وقت بھی غلط سوچ رہے ہوتے ہیں۔

     “یسین کا لال” ایک ناقابلِ فراموش کہانی ہے، اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے، اور انسان کو کس حد تک مجبور کر دیتی ہے، لیکن جب یسین اپنے بیٹے کی خاطر عقاب کے بچے کی جان لینے لگتا ہے تو اچانک اس پر ادراک ہوتا ہے کہ یہ بھی کسی کی اولاد ہے تو اس کا ہاتھ اٹھ ہی نہیں سکتا۔ اور یہی اس کہانی میں پوشیدہ پیغام ہے کہ اولاد صرف آپ کی ہی نہیں، کسی اور کی بھی ہوتی ہے۔ اور اسے بھی جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔

     “معمولی لوگ” ہمارے معاشرے کے اس کم حیثیت طبقے کی کہانی ہے جو اس طبقاتی جبر کا شکار ہے جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ اور یہ طبقہ خواہ کتنا ہی پس رہا ہو، دل میں اللہ کی محبت کی شمع جلائے رکھتا ہے۔ اور بے دھیانی میں بھی غلطی ہو جانے پر کانپ اٹھتا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو شائد معاشرہ انہی کی وجہ سے قائم ہے۔ 

     “ادھ کھلے پھولوں کا زمانہ” اپنے نام سے ہی اسٹوڈنٹ لائف کے رومانس پر مشتمل ہے جب انجانے میں انسان محبت سے روشناس ہو جاتا ہے، غیر محسوس طریقے سے، بغیر وجہ کے، کوئی اچھا لگنے لگتا ہے اور بعض اوقات اس کو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ کوئی اسے سالوں گزرنے کے بعد بھی چپکے چپکے یاد کرتا ہے۔

     “شیشہ ء ساعت” ڈاکٹر حسن منظر کی خود نوشت کا ایک حصہ ہے۔ جس میں وہ اپنے آباؤ اجداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ تقسیم کے پر آشوب واقعات اور ایک نوزائیدہ مملکت میں آمد پر انہیں کن حالات سے گزرنا پڑا، اس کی ایک جھلک اس میں نظر آتی ہے۔ قیامت کے اس دور نے ان کو ہلا کر رکھ دیا۔ کم سنی میں ہی انسانی اقدار کی پامالی کے مشاہدے نے ان کی آئندہ زندگی کا رخ متعین کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں تلخی لئے ہوئے ہیں۔

     “پرسا” اس ماں کی کہانی ہے جسے اپنی بیٹی کی خاطر اس کے سسرال کے ناروا سلوک کا سامنا ہے۔

     “چالیسواں” ایک کرسچین لڑکی کی کہانی ہے جو سبھی مذاہب کے تہوار مناتی ہے۔ اس کا باپ شیخی میں آ کر ندی میں بہہ جاتا ہے، شوہر کو میونسپلٹی کا افسر پٹوا کر مروا دیتا ہے، چالیس دن گزرنے کے باوجود اس کو موت کا یقین نہیں آتا۔ وہ اب بھی سوتے میں سپنے میں اسے ہی دیکھتی ہے۔ یہ ایک دلگداز کہانی ہے جو غریب آدمی کی ناآسودہ خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔

     “شب ہراس” ایک منفرد افسانہ ہے جس میں ہماری پوشیدہ خواہشات دکھائی گئی ہیں کہ ہم اوپر سے ہمدردی کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہماری لاشعوری تمنا ہوتی ہے کہ کچھ برا، کچھ غلط ہو جائے۔ یہ ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جس کی شدید خواہش ہے کہ ایک آٹھ سال کی بچی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں ایک جنگل میں کچھ ہو جائے، اسے قتل کر دیا جائے، پامال کر دیا جائے یا کوئی اور mishap ہو جائے۔ لیکن جب اس بچی کو ملنے والا اجنبی اسے ہمدردی اور حفاظت سے منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، تو اس شخص کو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ یہ کہانی ہمیں آئینہ دکھاتی ہے کہ ہم کتنے دہرے معیار کا شکار ہیں۔ اور ہمارے اندر چھپی نفسانی خواہشات ہمیں کہاں تک لے جا سکتی ہیں۔ ہم کس حد تک ان کے غلام بن چکے ہیں۔ 

     ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کی ایک خاص بات تقریباً ہر کہانی کی آخری چند لائنیں ہیں جب کہانی یک دم پلٹ جاتی ہے۔ اور قاری کو سوچ کے ایک گہرے سمندر میں اترنا پڑتا ہے۔

تمثیلی انداز میں لکھے گئے یہ افسانے بظاہر نامانوس لگتے ہیں لیکن 

یہ سارے کردار ڈاکٹر صاحب کی انسان اور انسانیت سے محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت انسانیت جس طرح دریدہ بدن ہوئی، اس نے ڈاکٹر صاحب کو ہلا کے رکھ دیا اور یہ اثرات ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔


     اس مجموعے کا ہر افسانہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر ایک الگ مضمون لکھا جائے۔ کہیں کہیں قاری کو پلاٹ میں نامانوسیت کا احساس ہوتا ہے، لیکن کہانی کی گرفت کمزور نہیں پڑتی۔ ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناطے ڈاکٹر حسن منظر نے معاشرے کی دکھتی رگوں کو نمایاں کر کے ان کا علاج کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

غلام قادر

سیالکوٹ

Facebook Comments

Ghulam Qadir Choudhry
​غلام قادر سیالکوٹ میں مقیم ایک نوجوان جو اپنے آپ کو لکھاری سے زیادہ ادب کے طالب علم کہتے ہیں۔ واجبی سی تعلیم، ایک چھوٹا سا کاروبار اور ادب سے ڈھیر دلچسپی۔ کالج میگزین میں بھی لکھتے رہے۔ سیالکوٹ کے مقامی جریدے میں بھی ان کے کچھ مضامین چھپ چکے ہیں۔ مثبت تنقید اور اختلاف رائے کو فریق مخالف کا حق سمجھتے ہیں۔​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply