لاووسیے ۔ کیمسٹری جدید دور میں (44)۔۔۔وہاراامباکر

انتوان لاووسیے نیوٹن کے کام سے بہت متاثر تھے۔ انکا کہنا تھا کہ “فزکس کے برعکس کیمسٹری فیکٹس کی بنیاد پر بہت ہی کم ہے۔ اس میں بے ربط خیالات ہیں اور غیرثابت شدہ مفروضات ہیں۔ اس کو سائنسی منطق نے چھوا بھی نہیں”۔ کیمسٹری کو وہ تجرباتی فزکس کے طریقے سے کرنا چاہ رہے تھے، نہ کہ ریاضیاتی تھیوریٹیکل فزکس کے طریقے سے۔ اور یہ دانشمندانہ انتخاب تھا۔ اس وقت کے علم اور ٹیکنالوجی کے حساب سے یہی کیا جا سکتا تھا۔ اس سے بہت بعد میں تھیورٹیکل فزکس کیمسٹری کی وضاحت کرنے کے قابل ہوئی لیکن یہ اس وقت ممکن ہوا جب کوانٹم تھیوری آئی اور پھر ہائی سپیڈ کمپیوٹنگ۔

لاووسیے ایک امیر وکیل کے بیٹے تھے اور ان کے سائنس سے شوق کا ہر کسی کو پتا تھا۔ کم عمری سے ہی عجیب تجربات کرتے رہے۔ اگر صرف دودھ پیا جائے تو صحت پر کیا اثرات ہوں گے؟ اگر چھ ہفتے کے لئے خود کو تاریک کمرے میں بند کر لیا جائے تو کیا روشنی کی شدت کو محسوس کرنے کی صلاحیت بہتر ہو گی؟ اور سائنس کے دوسرے بانیوں کی طرح طویل گھنٹے باریک بینی سے کئے جانے والی محنت میں گزار سکتے تھے۔

لاووسیے خوش قسمت تھے کہ پیسے کا مسئلہ ان کو کبھی نہیں رہا۔ بہت بڑی وراثت ملی جس سے انہوں نے ایک ادارے میں سرمایہ کاری کی جس کا کام ٹیکس اکٹھا کرنا تھا۔ تمباکو کی فصل کے قوانین پر عملدرآمد کرنا اور اس میں ملاوٹ روکنا، ناپ تول میں کمی نہ ہونے دینا ان کے ذمے آیا۔ اس سے ہونے والی آمدنی بہت اچھی تھی اور وہ فرانس کے امیر ترین اشخاص میں شامل تھے۔ اپنی دولت سے انہوں نے دنیا کی بہترین پرائیویٹ لیبارٹری قائم کی۔

لاووسیے نے پریسٹلے کے تجربات کے بارے میں سنا اور 1774 میں ان سے ملاقات ہوئی۔ جب پریسٹلے نے انہیں اپنے تجربات کا بتایا تو لاووسیے کو اندازہ ہو گیا کہ جلنے کے عمل پر کئے گئے پریسٹلے کے تجربات کا کوئی تعلق ان کے اپنے زنگ لگنے پر کئے گئے تجربات سے تعلق ہے۔ یہ ان کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ پریسٹلے کو کیمسٹری کے تھیوریٹیکل اصولوں کا کچھ خاص معلوم نہیں ہے اور نہ ہی اپنے کئے گئے تجربات کے مضمرات کا۔ لاووسیے نے لکھا کہ “یہ تجربات کی بُنی گئی چادر تھی جس میں وجوہات کے جاننے پر غور نہیں کیا گیا تھا”۔

تھیورٹیکل سائنس اور پریکٹیکل سائنس کرنے میں بہت فرق ہے اور کم ہی لوگ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہوں کہ وہ دونوں میں اچھے ہیں۔ لاووسیے دونوں کے ماسٹر تھے۔ باریک بینی ان کی خاصیت تھی۔ انہوں نے پریسٹلے کے تجربات کو لیا اور انہیں بہتر کیا۔ ہر شے کو بہت ہی باریکی سے تولا اور پیمائش کی اور پھر پریسٹلے کی دریافت کی وضاحت دی جو پریسٹلے نے تصور بھی نہ کی ہو گی۔ “جب پارہ جلتا ہے تو یہ ایک گیس کے ساتھ ملتا ہے۔ یہ گیس نیچر کا بنیادی عنصر ہے”۔ ان کی پیمائش نے بتایا تھا کہ جتنا وزن گیس کا کم ہوتا ہے، پارے اور کیلیس کے وزن میں اتنا ہی فرق ہے۔

لاووسیے کی پیمائش نے ایک اور چیز بھی دکھائی۔ جب اس کا الٹ ہوتا ہے۔ یعنی کالیکس کو مزید گرم کرنے سے پارہ بنتا ہے تو اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا کہ وہی گیس جو پہلے جذب ہوئی تھی جب پارے سے کالیکس بنا تھا، وہی گیس خارج ہوئی ہے۔ یہ لاووسیے کی دی گئی وضاحت تھی اور انہوں نے اس گیس کا نام آکسیجن رکھا۔

لاوسیے نے اس کے بعد اپنے مشاہدات کو سائنس کے مشہور اور اہم ترین قوانین میں سے ایک میں ترجمہ کر لیا۔ یہ ماس کی کنزرویشن کا قانون تھا۔ “کسی کیمیائی ری ایکشن سے پیدا ہونے والے مرکبات کا ماس بالکل اتنا ہی ہو گا جتنا ان مرکبات کا جس سے یہ ری ایکشن شروع ہوا”۔ اس قانون کو الکیمیا سے جدید کیمسٹری کی طرف ہونے والی تبدیلی کا سب سے بڑا سنگِ میل کہا جا سکتا ہے۔ اس نے ظاہر کر دیا کہ کیمیائی تبدیلی دراصل عناصر کے ملاپ میں ہونے والی تبدیلی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماس کی کنزرویشن کے قانون کی دریافت نے کیمسٹری کو ہر لحاظ سے جدید دور میں داخل کر دیا۔

لاووسیے کو اپنی کئے گئے کاموں کی وجہ سے جدید کیمسٹری کے بانیوں میں مرکزی کردار کہا جاتا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے کے کام سے ہونے والی آمدنی نے ان کے لئے سائنس کرنا ممکن کیا تھا۔ اور یہی ان کی زندگی ختم ہونے کی وجہ بھی بن گئی۔ انقلابِ فرانس کے بعد ان کا امیر ہونا اور بادشاہت کے ساتھ تعلق ہونا انقلابیوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ ٹیکس جمع کرنے والے ویسے بھی دنیا میں کبھی پاپولر نہیں رہے۔ اور انہیں ویسے خوش آمدید کیا جاتا ہے جیسے کوئی کرونا کا مریض کھانستا ہوا آ رہا ہو۔ لیکن فرانس کے انقلابیوں کے لئے یہ خاص ولن تھے۔

اگرچہ جتنی بھی انفارمیشن ہمیں ملتی ہے، اس میں لاووسیے نے اپنا کام دیانتداری سے ہی کیا تھا لیکن انقلابی ایسی معمولی باریکیوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے۔

لاووسیے نے پیرس کے گرد ایک بڑی دیوار بنوائی تھی۔ اور کوئی بھی محصول کے پھاٹک سے گزرے بغیر نہیں جا سکتا تھا۔ یہاں پر آنے جانے والی اشیا کی چیکنگ ہوتی تھی۔ ان کی پیمائش کر کے ٹیکس وصول کیاجاتا تھا۔ ٹھیک ٹھیک پیمائش کرنا لاووسیے کی خاص مہارت تھی۔ اور وہ اپنے لیبارٹری کے کام کو ٹیکس ایجنٹ کے کام میں بھی لے آئے تھے۔

جب انقلابِ فرانس آیا تو یہ دیوار سب سے پہلا سٹرکچر تھا جس پر حملہ کیا گیا۔ 1793 میں ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور دہشت کے اس دور میں ان کی سزا سر قلم کر دئے جانا ٹھہری۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے استدعا کی کہ وہ جس ریسرچ پر کام کر رہے ہیں، انہیں مکمل کرنے کی مہلت دی جائے۔ جس پر جج نے جواب دیا کہ “فرانس کی ری پبلک کو سائنسدانوں کی کوئی ضرورت نہیں”۔ شاید ایسا ہی ہو لیکن کیمسٹری کو یہ ضرورت تھی اور خوش قسمتی سے اپنی پچاس سالہ زندگی میں لاووسیے وہ کچھ کر چکے تھے جس نے اس شعبے کو تبدیل کر دیا تھا۔

لاووسیے نے اپنے کام میں 33 عناصر دریافت کئے۔ وہ ان میں سے 23 کے بارے میں درست تھے۔ انہوں نے مرکبات کو نام دینے کا باقاعدہ سسٹم بنایا جو ان سے پہلے کی زبان میں نہیں تھا۔ کیمیکل ری ایکشن کو دکھانے کی مساوات، جس سے ہم واقف ہیں، انہوں نے نہیں بنائی لیکن ان کی دریافتوں نے کیمسٹری میں انقلاب برپا کیا اور آئندہ آنے والے کیمسٹ کے لئے نئے خیالات کی بنیاد دے گئے جس پر کیمسٹری باقاعدہ سائنس کے طور پر کام کر سکتی تھی۔

لاووسیے کی 1789 میں لکھی کتاب کیمسٹری کی موجودہ شکل کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے جس میں عناصر کا تصور بتایا گیا ہے۔ چار عناصر کی تھیوری اور فلوگسٹون کو غلط بتایا گیا ہے۔ ماس کے کنزورویشن کا قانون ہے اور مرکبات کو نام دینے کا طریقہ ہے۔ اگلی نسل تک یہ کتاب ایک کلاسک بن چکی تھی جس نے اس شعبے میں آنے والوں کی راہنمائی کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہیں بتایا گیا تھا کہ فرانس کو سائنسدانوں کی ضرورت نہیں لیکن ان کی سزائے موت سے ایک صدی کے بعد ان کے ہم وطنوں کی اگلی نسلوں نے ان کا کانسی کا مجمسہ پیرس میں نصب کیا جس کے افتتاح کے لئے آنے والوں نے ان کی تعریف میں تقاریر کیں۔ ستم ظریفی یہ کہ مجسمہ بنانے والوں نے ایک غلطی یہ کی تھی کہ مجسمے پر شکل کسی اور کی لگا دی تھی لیکن فرنچ نے اس کی پرواہ نہیں کی اور غلط مجسمے کو لگا رہنے دیا۔ ایک یادگار تھی کہ جس شخص جس کا سر قلم کر دیا گیا تھا، اس کے مجسمے پر کسی اور شخص کا سر لگا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑا۔ یہ مجسمہ خود زیادہ دیر نہیں رہا۔ فرانس پر نازی قبضے کے دوران اسے اس جگہ سے گرا دیا گیا اور اس کی دھات سے گولیاں بنا لی گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آٹھ مئی 1794 کو پیرس میں جلاد نے رسی کھینچ دی۔ جب گلوٹین گرا تو لاووسیے کا سر ان کے تن سے جدا ہو گیا۔ ان کی لاش کو دوسری لاشوں کے ساتھ ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ لیکن ان کے خیالات پائیدار ثابت ہوئے۔ انتوان لاووسیے اپنی زندگی میں کئے گئے کام سے جدید کیمسٹری کا فیلڈ تشکیل دے چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply