• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ثریا طرزی پر لکھے گئے مضمون پر جواب ۔۔۔ حبیبہ طلعت

ثریا طرزی پر لکھے گئے مضمون پر جواب ۔۔۔ حبیبہ طلعت

سب سے پہلے تو منصور ندیم صاحب کو  خاص مبارکباد کہ آپ نے تاریخ کی کتابوں پر جمی گرد جھاڑ کر ذہنوں کے جالے صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ ایسے موضوعات عموما مقبول نہیں ہوتے ہیں لیکن ان کی علمی و دستاویزی حیثیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ سو اس قیمتی سلسلے کو جاری رکھیے۔

اب آتے ہیں مضمون کی طرف، ملکہ ثریّا طرزی پر لکھا گیا یہ مضمون انسانی معاشروں کی تاریخ کے اس پہلو پر روشنی ڈالتا ہے کہ جہل اور پسماندگی کس طرح ترقی کی مزاحمت کرتے ہیں۔

ہماری نظر میں ثریا طرزی نے افغانستان میں وہی کردار ادا کرنے کی کوشش کی جو ہندوستان میں سر سیّد نے ادا کیا تھا۔
لیکن دونوں ملکوں کی صورتحال میں تین بنیادی فرق تھے۔ ہندوستان کا معاشرہ انگریز کا محکوم تھا اس لیے یہاں ملّاؤں کی انتہائی کوشش کے باوجود سر سیّد اپنا کام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے برعکس افغانستان ایک خودمختار بادشاہت تھا۔ جہاں پشت پناہی کے لیے انگریز یا کوئی اور طاقت نہیں تھی۔

ہندوستان میں اکثریت ہندووں کی تھی جن کا مذہبی طبقہ، کبھی بھی کوئی سیاسی دباؤ ڈالنے کی حیثہیت میں نہیں رہا تھا۔ اس لیے ان کی اکثریت نے یا تو مزاحمت نہیں کی یا تبدیلیوں کو قبول کیا۔ افغانساان سو فیصد مسلم معاشرہ تھا جہاں مولوی ہمیشہ سے ایک طاقتور سیاسی عنصر رہے تھے۔
ثریّا طرزی چونکہ عورت تھیں اس لیے ان کا واضح رجحان فطری طور پر عورتوں کی بہتری کی جانب زیادہ تھا۔ اس کے مقابلے میں سر سید نے شروع ہی سے مصلحتاً عورتوں کی تعلیم کا نام لینے سے گریز کیا تھا۔ دوسری طرف ہند میں سرکاری ملازمتیں انگریزی تعلیم سے مشروط تھیں اس لیے مردوں نے بہرحال سر سیّد کی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
دوسری طرف تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عالمی سیاست میں افغانستان ہمیشہ ہی پستا رہا۔ انگریز، روس، ترکی اور ایران سب افغانستان پر اپنا اثر قائم رکھنے اور دوسروں کا اثر زائل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ یوں اور امان اللہ کی حکومت انہی کوششوں کے نتیجے میں ختم ہوئی۔
جغرافیائی پوزیشن ایسی تھی کہ بالآخر مسلم افغانی بادشاہ اپنی حکومت اور برتری منوانے کی خاطر روس کی آشیر واد لیتے رہے۔

” افغان رہنماوں میں یہ رجحان بھی پایا جاتا یے کہ وہ بیرونی طاقتوں کے متضاد مفادات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اکثر ایسا کرنے میں قومی مفاد کے بجائے انفرادی مفاد اہم ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنی ضد اور انا کی وجہ سے وہ اکثر معقولیت اور مفاہمت کی راہ کو ترک کردیتے ہیں۔ سیاسی اداروں کی عدم موجودگی اور ایسی صورتحال جس میں سیاست کا دارو مدار شخصیات تک محدود ہو، وہاں حالات زیادہ پیچیدہ ہوجاتے ہیں”
بحوالہ ریاض خان
کتاب” افغانستان اور پاکستان”

ریاض خان نے خاص اس خطے کی صورتحال کا تجزیہ پیش کیا ہے جس کی روشنی میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ملکہ طرزی کی خواتین میں علم کے فروغ اور شعور کی آگاہی پر مبنی عام تحریک بھی کیونکر متنازعہ قرار پائی جب کہ مسلم حکمران گھرانوں کی متعدد خواتین اس حوالے سے معروف ہیں۔
تاہم یہ امر تسلی بخش ہے کہ معاصرین نے ملکہ کی جانب سے اپنے ملک کی خواتین کے لیے متعدد خدمات کو سراہا ہے اور مریم وردک اور قاضی نذر الاسلام کے الفاظ قیمتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس اس بات کا ہے کہ جس روئیے کا سامنا ثریا طرزی کو سو سال پہلے کرنا پڑا تھا اسی رویّے کا شکار آج کی پاکستان کی خواتین کی تحریکیں بھی ہو رہی ہیں۔ جہاں کسی بھی مثبت اقدام کو این جی اوز کی گالی دے کر سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔
شکریہ

Facebook Comments

حبیبہ طلعت
تجزیہ نگار،نقاد اور لکھاری۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ثریا طرزی پر لکھے گئے مضمون پر جواب ۔۔۔ حبیبہ طلعت

Leave a Reply