محبت کو کس انسان کی تلاش رہتی ہے؟۔۔میر افضل خان طوری

یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی  ہر انسان کو جستجو رہتی  ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں اپنے آپ سے کچھ سوالات کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنی ذات کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا میں خود اپنے آپ سے محبت کرتا ہوں؟ کیا میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ مجھ سے محبت کی جائے؟ کیا میں نے خود کو اس قابل بنانے کی کوشش کی ہے کہ لوگ مجھ سے محبت کریں ؟ کیا ابھی تک میں نے اپنے آپ کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کیلئے معاف کیا ہے؟ اگر میں خود سے محبت نہیں کرتا تو لوگ مجھ سے کیوں محبت کرینگے؟ اگر میں خود کو معاف نہیں کرسکتا تو دوسروں کو معاف کرنے کے قابل کیسے بن جاؤں گا؟

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم محبت کا جذبہ اپنی ذات سے باہر ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ لوگ ہم سے محبت کریں۔ لوگ ہم سے دور نہ بھاگیں۔ لوگ ہم سے نفرت آمیز رویہ اختیار نہ کریں۔ لیکن بد قسمتی سے ہم اس کیلئے خود اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے۔

لوگوں کی محبتیں ہمارے دل کے دروازے پر ہمیشہ دستک دے رہی ہوتی ہیں لیکن ہمارے اندر کی خباثت ان کو اندر نہیں آنے دیتی۔ ہم نے اپنے اندر کی دنیا میں نفرت، حسد، لالچ، عداوت اور ذاتی انا کے بڑے بڑے سانپ پال رکھے ہیں۔ جن کے ڈر کی وجہ سے لوگوں کی محبت راستے ہی میں دم توڑ جاتی ہے ۔ ہماری زہریلی زبان لوگوں کو ہمیشہ ڈستی رہتی ہے۔

ہم ساری زندگی ایسے منفی رویوں اور جذبوں کی آبیاری کرتے ہیں جن کی وجہ سے اچھے سے اچھے لوگ بھی ہم سے دور بھاگنے کو   غنیمت سمجھتے ہیں۔ ہم لوگوں کی زندگیوں میں صرف برائیوں  کی تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس لوگوں سے شکایتوں کے علاوہ کوئی اور اچھا مواد موجود نہیں ہوتا۔ ہم لوگوں پر منفی تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے کبھی نہیں جانے دیتے۔ ہم نے لوگوں کی برائیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا مقدس پیشہ سمجھ رکھا ہے۔ ہم برسوں تک لوگوں کی  کسی بھی بُری بات کو یاد رکھتے ہیں لیکن انکی  تمام اچھی باتوں کو بھول جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیں محبت کبھی باہر نہیں ہوتی محبت ہمیشہ اندر ہوتی ہے۔ محبت اخلاص چاہتی ہے۔ محبت کے ظرف کا نام اخلاص ہے۔ جس دل میں اخلاص ہوتا ہے محبت وہاں پروان چڑھتی ہے۔محبت وہاں آتی ہے  جہاں محبت ہوتی ہے۔ محبت ہی محبت کو کھینچتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہم سب  سے محبت کریں ، تو ہمیں اپنے رویوں کا منصفانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ان اندرونی عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جو لوگوں سے نفرت، حسد ، بغض اور عناد کا باعث بن رہی ہیں۔ لوگوں کی محبت کو اندر آنے کیلئے ہمیں اپنے دل کے اندر مطلوبہ سپیس پیدا کرنا ہوگی۔ ہم لوگوں سے کس قسم کی محبت چاہتے ہیں؟ ہمیں پہلے خود کو اس قابل بنانا ہوگا۔ اپنے اندر وہ مطلوبہ خوبیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ ہمیں ان تمام منفی رویوں اور جذبوں کو اپنے کردار سے ختم کرنا ہوگا جو ہماری شخصیت پر بدنما داغ بن کر لوگوں کی محبتوں کو روکتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply