18ذولحج شہادت ذوالنورینؓ ۔۔۔۔ رعنا اختر

محرم کی رستے جانے سے پہلے 18 ذوالحج کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک ایسی شہادت ملتی ہے ، جس میں شہید ہونے والے کا نام عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ ہے ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہی آنکھوں سے سیلاب رواں ہو جاتے ہیں دل کٹ جاتا ہے آنکھیں خون ٹپکانے لگتی ہیں  ۔

حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت کلثوم کے ساتھ یکے  بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو ” ذوالنورین “بھی کہا جاتا ہے ۔
آپ نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو نورِ ایمان سے منور کیا ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کرنے والوں میں سے چوتھے نمبر پہ تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حافظ قرآن ، ناشر قرآن اور جامع قرآن بھی ہیں ۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے کہا جنت میں ہر ایک کا رفیق ہوتا ہے میرا رفیق عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ہو گا ۔

امام بخاری اور امام مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رض سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس آتے تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم اپنا لباس درست فرما لیا کرتے تھے کہ میں اس عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے کیوں نہ حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔

اسلام کی وجہ سے دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب ذوالہجرتین بھی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ظاہری حسن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم سے مشابہہ  تھا ۔

آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قریش کی بڑی شاخ بنو امیہ سے ہے ۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفید رنگ ، خوبصورت وبا و وجاہت اور متوازن قد و قامت کے مالک تھے ۔ گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے لباس زیب تن کر کے عمامہ سے مزین ہوتے تو نہایت خوبصورت معلوم ہوتے ۔

اعلیٰ  سیرت کے ساتھ ساتھ سخاوت اور شرم و حیا میں اپنی مثال آپ تھے ۔ شروع ہی سے بڑے پیمانے کی تجارت کی وجہ سے ان کا شمار صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ عمدہ لباس اور لذیز و نفیس غذاؤں کے عادی تھے ۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی نہایت سادہ تھی ۔ رہن سہن ،اخلاق و اطوار اور کردار میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہر کام سنت نبوی سے آراستہ اور مزین تھا ۔ ایک مرتبہ وضو سے فارغ ہو کے آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسکرائے تو لوگوں نے آپ کی اس مسکراہٹ کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم بھی وضو کے بعد ایسے ہی مسکرایا کرتے تھے ۔

بیعت رضوان کے موقع پہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کی طرف سے سفیر بن کر گئے تھے ۔ کہ خبر مشہور ہو گئی کے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کون ہے جو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا بدلہ لینے کے لیے میرے ہاتھ پر بیعت کرے گا ۔ اس وقت تقریبا ً چودہ صحابہ کرام نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا بدلہ لینے کے لیے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہاتھ پہ ” موت کی بیعت ” کی اس موقع پہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے کہا یہ بیعت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے ہے ۔ اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور بیعت شجرہ ہے ۔ اللہ نے قرآن مجید میں بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اظہار فرمایا ۔

حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح بھی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دیا ۔ اس موقع پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے کہ  میں اپنی دوسری بیٹی کا نکاح بھی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دوں ۔ دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو اس کو یکے بعد دیگرے میں عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں دے دیتا ۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت تو بیان کی جاتی ہے ان کی شان تو بیان کی جاتی ہے ان کی سخاوت کے قصے ضرور بیان کیے جاتے ہیں ۔ لیکن ان کی مظلومیت کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا ان کی درد ناک شہادت کے قصے عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے ۔

تاریخ کی چیخیں نکل جائیں  اگر عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومیت کا ذکر کیا جائے ۔ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ وہ مظلوم تھے جن کا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا جو امت کے لیے پانی کے کنویں خرید کر وقف کیا کرتے تھے ۔ آج وہی عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ پانی کی چند بوندوں کے لیے ترس رہے تھے ۔ 35 ذولقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا ۔ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ اس محاصرے کا دورانیہ چالیس دن تک رہا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ قید میں تھے تو پیاس سے نڈھال تھے آپ نے آواز لگائی ،ہے کوئی جو عثمان کو پانی پلائے ؟
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جب پتہ چلا تو مشکیزہ لیے ساقی بن کے عثمان کو پانی پلانے آ ئے ۔
اس عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو چالیس دن ہو گئے ایک گھر میں قید کیے ہوئے جو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی کے لیے جگہ خریدا کرتا تھا ۔ آج وہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو کوئی ملنے نہیں آ سکتا تھا جس کی محفل میں صحابہ جوق در جوق آیا کرتے تھے ۔ 40دن ہو گئے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو کھانا نہ ملا جو اناج کے اونٹ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا ۔
آج اس عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی داڑھی کھینچی جا رہی ہے جس عثمان غنیؓ سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے تھے ۔ آج عثمان غنیؓ پر ظلم کیا جا رہا ہے جو کبھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کا غزوہ احد میں محافظ ہوا کرتا تھا ۔ آج اس عثمان غنیؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا جس ہاتھ سے اس عثمان غنیؓ نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس شہادت کو لکھنے کے میں قابل نہیں ہو دل پھٹ رہا ہے آنکھیں برس رہیں ہیں ۔ جس عثمان غنیؓ نے کبھی بنا کپڑوں کے غسل نہیں کیا تھا آج اسی عثمان غنیؓ کو برچھیوں سے زخمی کیا جا رہا تھا ۔
18ذولحج 35ہجری دن جمعہ کا تھا حضرت عثمان غنیؓ روزے کی حالت میں تھے ۔ ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا سامنے قرآن پاک پڑا تھا خون کے چھینٹے قرآن پہ گر گئے ، قرآن عثمان غنیؓ کی شہادت کا گواہ بن گیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ زمین پہ گر گئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی ٹھوکریں مارنے لگیں جس سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ باغیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے شہید ہو گئے ۔
اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی
دیا خون صحابہ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس پہ بہار آئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply