“مخالفین” کے بچے۔۔اشفاق احمد

ہم سب یک زباں ہو کر اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی لڑائی کے بیچ ہم کچل دئیے جائیں گے۔ یہ سچ بھی ہے اور عرصے سے ہم اس کا مزہ چکھتے آرہے ہیں لیکن بات اپنے اپنے اختیار کی ہے صاحب۔

ہم انفرادی طور پر بھی یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔ ہم بھی تو وہ ہاتھی ہیں جو آپس کی لڑائیوں میں اپنی زبان کی تلواروں سے ایکدوسرے کے دلوں میں چھید کر رہے ہیں۔ ان لڑائیوں میں دو اطراف کے بچوں کے ننھے منے معصوم سے خواب کس بری طرح کچلے جاتے ہیں، اسکا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ وہ اپنے معصوم سے خوابوں کی جس دنیا میں خوش ہیں وہیں سے ہم انہیں وقت سے پہلے گھسیٹ گھسیٹ کر اپنی کرخت اور تلخ دنیا میں لانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

غور کیجیے صاحب رشتوں اور معاشرتی تصادم میں جہاں بڑے بے شمار کدورتوں کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں تو سب سے ذیادہ ضربیں بچوں پر پڑتی ہے۔ ہم مخالف بڑوں سے کی جانے والی ساری نفرت میں ان کے بچوں کا بھی پورا پورا حصہ قائم رکھتے ہیں۔ وہ بچے جو ابھی دنیا کو ایک خواب کی صورت دیکھ رہے ہیں، ان کے پھول کی پنکھڑی کی طرح نازک احساسات پر طعنوں، نفرتوں اور امتیازی سلوک کی گہری ضربیں لگا کر انہیں زخم پر زخم دے رہے ہیں۔ ان کے سامنے دھڑلے سے غیبت کرکے، جھوٹ بول کر اور گالیاں بک کر ہم روز انہیں نیا سبق سکھا رہے ہیں۔ میں نے اور آپ نے تو اسی معاشرے میں بارہا یہ تکلیف دہ منظر بھی دیکھا ہے کہ بڑوں کی آپس میں گالیوں بھری معرکہ آرائی میں انہی کے بچے ایک کونے میں کھڑے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور باوجود بڑوں کی ناچاقی کے ان کے مابین تعلق میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن کیا کیجیے صاحب کہ جب “مخالفین” کے بچے گر کبھی بڑوں کی تاک میں آجائیں تو وہ طعنے اور اپنے بڑوں کی برائیاں سن کر بجھ سے جاتے ہیں۔ ہم بھلے اپنے بچوں سے لاکھ محبت جتائیں لیکن اگر یہ محبت کسی دوسرے کے بچے سے نفرت، امتیازی سلوک اور طعنوں کو بھی ساتھ میں لیئے ہوئے ہے تو معاف کیجیے گا یہ محبت نہیں ظلم ہے۔ ایسی محبت کا کیا فائدہ؟ کہ جو ہم اپنے بچے کو تو دے رہے ہوں لیکن دور کوئ دوسرا بچہ کسی دیوار کی اوٹ میں کھڑا خود پر برسنے والے ایک ایک طعنے کو یاد کر رہا ہو اور اس کی شدت کو محسوس کر رہا ہو۔

مجھے تو لگتا ہے ہم حادثاتی طور پر بڑے ہوگئے ہیں وگرنہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے ہم میں “بڑےپن” کی بہت کمی ہے۔ رشتوں کے حوالے سے بڑا ہونے کی تو بس ایک ہی تعریف سمجھ میں آتی ہے کہ انسان پورے شعوری احساس کے ساتھ اپنے شخصی رجحان کے مطابق کم از کم کوئی ایک ایسی ادا اپنا لے جو سبھی بچوں کے ذہن میں نقش ہو کر انہیں آگے مثبت اور بامعنی انداز سے سوچنے میں مدد گار ہو۔ بچوں کا کوئی ایک استاد نہیں ہوتا بلکہ بچوں کا استاد پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ ماں باپ سے لے کر مکتب اور معاشرے تک ہر بڑا اس کا استاد ہے۔ گھر ان کی پہلی درس گاہ اور ماں باپ ان کے اولین استاد۔ گھر ہی سے اس کی آبیاری ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تسلیم ہے کہ امتحان کی اس دنیا میں ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی محرومی اور کسی نہ کسی کسک میں جی رہا ہے، لیکن ایک بڑی وجہ اس کی یہ بھی تو ہے کہ انہیں کم کرنے کے لیے ہم نے آپس کی محبتوں کو وہ موقع نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ لازم ہے صاحب کہ محبتوں کو موقع دینا ہے وگرنہ ہم وہ ” استاد” ہیں جو ہر وقت بچوں کی اور خدا کی نظر میں ہیں اور اس وقت نے آنا ہی آنا ہے جب خدا کے اور خدا کی معصوم مخلوق کے سوالوں کا کوئی جواب ہم سے نہ بن پائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply