برصغیر میں برطانوی راج کا زمانہ تھا، 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر پر برطانوی پرچم لہرانے کے دور کا یہ مشہور واقعہ ہے۔ 1880ء میں برطانیہ کا اس وقت کے مشترکہ ہندوستان میں اقتدار مستحکم ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ مشرقی پنجاب کے ضلع مظفر نگر کا مشہور قصبہ کاندھلہ کا ہے ، کاندھلہ کو ویسے بھی ایک نسبت علمائے کرام کا مولدو مسکن ہونے کی وجہ سے شہرت حاصل رہی ہے۔
قصبہ کاندھلہ میں زمین کے ایک ٹکڑے پر مسلمانوں اور ہندوؤں کا تنازعہ چل رہا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ بات بڑھتی گئی حتی کہ اجتماعی نوعیت اختیار گئی، اب مسئلہ ایک مسلم یا ہندو کا نہ رہا بلکہ یہ مسئلہ مسلمانوں اور ہندووٴں کا بن گیا، مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ہمیں اگر یہ زمین مل گئی تو ہم اس پر مسجد تعمیر کریں گے کیونکہ یہ زمین مسجد کے لئے ہے، جبکہ انکے مقابلے میں ہندووٴں کا دعویٰ یہ تھا کہ اگر ہمیں یہ زمین مل گئی تو ہم اس پر مندر بنائیں گے، کیوں کہ یہ مندر کی زمین ہے، اس جھگڑے نے طول پکڑلیا تھا، بالآخر یہ بات عدالت تک پہنچ گئی۔ جب مسئلے کو عدالت میں پیش کیا گیا تو انگریز مجسٹریٹ بھی اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ میرا کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنا اس فیصلے سے اختلاف کی ایک ایسی آگ کو بھڑکا دے گا جس کا بجھانا آسان نہیں رہے گا۔ انگریز مجسٹریٹ نے غور وفکر سے مقدمہ سننے کے بجائے بات فریقین کے سامنے رکھی کہ اگر آپ آپس میں مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرلیں تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔ انگریز مجسٹریٹ نے دونوں فریقین سے کہا کہ آپ اپنے کسی مقامی معزز شخص کا نام طے کرلیں جسے ہم ثالث مقرر کریں اور آپ کو اعتماد ہو کہ اس کا کیا گیا فیصلہ آپ کے لئے قابل منظور ہوگا، اسی بنیاد پر دونوں طرف سے بیسیوں نام پیش کیے گئے، پیش کیے جانے والے ناموں میں سے کسی نام پر کبھی مسلمان اعتراض کرتے تھے تو کوئی نام ہندوؤں کے نزدیک ناقابل قبول ہوتا۔ بالآخر تنگ آکر مجسٹریٹ نے ہندوؤں سے کہا، آپ لوگ کسی بھی ایک معزز شخص کا نام دے دو، جس کے فیصلے پر آپ کو اعتماد ہو، اس کے بعد پھر مزید موقع نہیں دیا جائے گا۔ ہندووں نے بہت سوچ بچار کے بعد کاندھلہ کے درویش صفت عالم دین مولانا محمد بخشؒ کا نام تجویز کردیا۔ مسلمانوں نے بھی اُس نام پر اتفاق کرلیا۔ یوں مولانا محمد بخش کا ندھلویؒ ثالث بن گئے ۔
اگلی تاریخ پر فریقین کو بھی حاضر ہونے کا حکم دیااور مولانا محمد بخش کاندھلوی کو بھی پیش کرنے کا کہا جن کا انتخاب کیا گیا تھا، اس نامزدگی کے بعد مسلمانوں کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یقینی طور پر ہمیں یہ زمین مل جائے گی، مسلمانوں کے خیال میں مولانا محمد بخش کاندھلوی تو خود عالم دین ہیں اور مسلمان ہیں اب کیسے ممکن ہے کہ اس زمین پر مندر بنانے کی حمایت کرسکتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ہندووٴں کی مجالس میں افسردگی چھائی تھی کہ وہ مسلمان بزرگ کہیں ہمارے خلاف کوئی فیصلہ نہ سنا دیں، مولانا محمد بخشؒ مقرر تاریخ کو عدالت میں آئے۔
مولانا محمد بخش عدالت میں پہنچے تو مسلمانوں کو یہ منظر دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ مفتی محمد بخش تو ضرور مسجد کی بات کریں گے لیکن جب انگریز مجسٹریٹ نے اس زمین کے متعلق دلائل اور کاروائی شروع کی اور مولانا محمد بخش صاحب سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں کہ
یہ زمین کس کی ہے؟
تو مولانا محمد بخش صاحب نے جواب دیا کہ
یہ زمین ہندووٴں کی ہے۔
اس کے بعد اگلا سوال انگریز مجسٹریٹ کا یہ تھا کہ
“کیا ہندو اس زمین پر مندر بنا سکتے ہیں۔۔؟”
مولانا محمد بخش صاحب نے کہا کہ :
“جی بالکل وہ اس کے مالک ہیں وہ جو بنانا چاہیں وہ بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ زمین ہی ان کی ملکیت ہے۔”
یہ منظر مسلمان بھی دیکھ رہے تھے اور تمام ہندو بھی کیونکہ دونوں فریقین پہلے ہی مولانا محمد بخش کی ثالثی پر رضا مندی کا اظہار کر چکے تھے لہذا اسی لئے انگریز مجسٹریٹ نے دونوں طرف کے دلائل سن کر گواہوں کے بیانات اور دستیاب ریکارڈ کو دیکھ کر اور ثالث کے ساتھ اتفاق کرکے ہندووٴں کے حق میں فیصلہ سنا دیا، کہ یہ زمین مندر کی ہے۔ ہندووں کا حق ہے اور ہندووں کو ہی زمین ملے گی۔
لیکن اس فیصلے کے آخر میں ایک تاریخی جملہ بھی کہا کہ ” آج کے اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا”۔پھر اس واقعہ کا کیا اثر ہوا مجمع پر اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ ہی ہندو جو اس زمین کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار تھے لیکن اس فیصلے کے بعد ہندوؤں نے اسلام قبول کرلیا اور وہ کفر کی ظلمتوں سے نکل کر کلمہ حق کے سائے میں آگئے اور اس زمین پر خود اپنی رضا مندی سے ایک مسجد تعمیر کر ڈالی۔
مسلمان اپنا مقدمہ ہارگئے تھے، مگر اسلام جیت گیا تھا، اسلام کے ایک شیدائی نے اپنے حسن اخلاق سے جہل زدہ ذہنیت کو شکست دی ۔اسلام کا بول بالا کر دیا۔ یہ اخلاقی فتح مسلمانوں کی تاریخ کا محض ایک واقعہ نہیں ۔اسلام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
آیا صوفیہ کو پہلی بار چھٹی صدی میں عیسائی بازنطینی سلطنت میں مرکزی گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن 1453 میں خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح دوئم نے اپنے باپ کی خواہش کے تابع ریاست کے کثیر معاملات اور وسائل کو بروئے کار لاکر اس جگہ کو فتح کیا تھا، یہی قسطنطنیہ بعد میں استنبول کہلایا، قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔ یہ فیصلہ سلطان محمد فاتح کا ذاتی فیصلہ تھا، ہمارے کچھ دوست اس عہد کی فاتح اور مفتوحین کی روایات کے مطابق اسے ایک بہترین فیصلہ قرار دے رہے ہیں، اور کچھ اسے اسلام سے بھی ثابت کر رہے ہیں، کچھ کے نزدیک سلطان محمد فاتح کا رقم ادا کرکے اسے مسجد بنانے کا دعوی پیش کر رہے ہیں، اسی کے ساتھ کچھ ایسے فاتحین کی روایات کے مطابق ایک فاتح کی ذاتی ملکیت قرار دیتے ہیں، اب اصولی سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ، یہ ایک جارح فاتح حکمران کی فتح کی ملکیت ہے، یا ایک اسلامی خلافت کے زیرنگیں فتح ہے۔ جو لوگ اس کے لئے مذہبی دلائل نکال رہے ہیں، انہیں فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار دیکھ لینا چاہیے، کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے ساتھ آنے والے مصاحبین کی ذاتی زمینوں کا بھی دعویٰ چھوڑ دیا تھا۔
پتہ نہیں کیوں ہم صلاح الدین ایوبی کو بھی بھول گئے جنہوں نے قاہرہ میں اپنی نگرانی میں عیسائیوں کے لئے گرجا تعمیر کروایا تھا اور خصوصاً اسلامی مساجد کی طرز پر تعمیر کروایا تھا، حضرت عمر فاروق رض نے بھی جب شام کا دورہ کیا تھا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی گرجا کو مسجد میں بدلنے یا گرانے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیت المقدس کے دورہ پر تھے تو نماز کا وقت ہوگیا۔پادری نے کہا آپ ادھر نماز پڑھ لیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اگر میں نے آپ کے عبادت خانے میں نماز پڑھ لی تو مسلمان بھی اسی طرح کریں گے اور یہ گرجے مسجدوں میں بدل جائیں گے۔ لہذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے گرجا کی حدود سے باہر نماز پڑھی تھی، کیا مسلمانوں کے لیے اس سے بہتر کوئی مثال ہو سکتی تھی۔
سلطان محمد فاتح کا یہ فیصلہ اسلام کے بالکل مطابق نہیں تھا کیونکہ اس نے ایک گرجا کو مسجد میں تبدیل کیا تھا، یہ بہرحال اس وقت کے فاتحین کی روایت تھی، بالکل ویسے ہی جیسے قرطبہ میں مساجد کو کلیسا میں تبدیل کیا گیا، بہر حال قریب کوئی پانچ سو سال آیا صوفیہ کی حیثیت سے مسجد برقرار رہی، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی میں مصطفی کمال پاشا کا دور آیا، مصطفی کمال پاشا نے آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت کو ختم کرکے اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا، اور پچھلی صدی میں اسے دنیا کی چند بہترین سیاحت کے مقامات میں شمار کیا جانے لگا۔ حالیہ ترکی کی عدالت کا فیصلہ آیاصوفیہ کی عجائب گھر کی حیثیت کو ختم کرکے دوبارہ سے مسجد بنانا خالصتا ًایک سیاسی فیصلہ ہے، اس عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی تحریک کو ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی جانب سے مذہبی اور قدامت پسند ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک حربہ قرار دیا جا رہا ہے اور اس عمل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، عمارت کی حیثیت اور اس کے مستقبل کا تعین اے کے پی کی انتخابی مہم کا ایک اہم موضوع تھا۔ جسے طیب اردگان مسلمانوں کی ہمدردیوں کو اپنے سیاسی عمل کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ترکی کی سیکولر جماعتوں اور عالمی برادری کی جانب سے اس مہم کی مخالفت کے باوجود ملک کے قدامت پسندوں کی جانب سے اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب رشیا کلیساؤں کے مرکزی کلیساء نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ استنبول میں واقع پرانے گرجا گھر اور یونیسکو کی جانب سے تاریخی ورثہ قرار دیے جانے والی عمارت آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق احتیاط برتے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم اخلاقیات اور اسلام کا دعوی کرتے ہوئے پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات کرتے ہیں، فلسطین برما اور کشمیر کے مظالم یاد دلاتے ہیں با بری مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، اردو ادب میں ہم نے نثر اور نظم میں قرطبہ کی مسجد کو کلیسا میں تبدیل کرنے پر اتنے نوحے لکھے ہیں، وہاں ہم کیسے ایک گرجا گھر کو مسجد بنانے کے سلطان محمد فاتح کے کئے گئے فیصلے کو مذہبی اقدار سے درست ثابت کر سکتے ہیں، شاید یہ صلاح الدین ایوبی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس معاملے میں کردار بھول گئے ہیں۔
میرے خیال میں اس وقت جو صورتحال پوری دنیا میں ہے اس کے مطابق ایک میوزیم کو ایک ریاست کی جانب سے مسجد میں تبدیل کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، کیونکہ ریاست کا حکمران پوری دنیا میں اپنے ملک کے تمام مذاہب کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے، اس سے بہترین کردار تو جسینڈا آرڈن کا ہے، جس نے مسلمانوں کے قاتل کے لیے اپنے ملک کے قوانین بدل کر سزائے موت تجویز کی، اور اس پورے واقعے میں اس نے پوری دنیا کو یہ احساس دلادیا، کہ جن اخلاقیات کا دعوی ہم اسلام کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ وہ غیر مسلمان اس کی عملی تفسیر ہیں۔
مزید اس ایک واقعے کے بعد مغربی دنیا کا ردعمل بھی سامنے آئے گا، جو یقینا ًہمارے لئے تکلیف دہ ہوگا۔ ایسے وقت میں اس اقدام سے مغرب اور عیسائی برادری کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کاش ہمارے مذہبی حلقے شاہ عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ کے شاگرد مولانا محمد الہی بخش کاندھلوی جتنی بصیرت ہی رکھتے کہ جن کی دانائی و بصیرت کی وجہ سے ایک انگریز مجسٹریٹ اپنے فیصلے میں یہ تاریخی جملہ لکھتا ہے جو اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب بن گیا۔
” اسلام جیت گیا مسلمان ہار گئے”
جیسے کل اسلام اور مسلمانوں کا آپس میں مقابلہ تھا، بالکل آج بھی ہمارے بعض مسلمان اپنی جہالت، شدت پسندی اور کٹھ ملائیت اور دیگر عوامل کی وجہ سے ایک غلط فیصلے کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔ اور اس فیصلے کے بعد آنے والے ردعمل کو یکسر بھلائے بیٹھے ہیں، ہماری آنکھوں نے قرطبہ سے کشمیر ، برما سے فلسطین تک کتنے لاشوں ، اور خون کے قطروں پر آنسو بہائے ہیں ، میں آنے والے مستقبل میں کسی اور ماؤں کی جگر پاشوں کو لاشوں میں بدلتے نہیں دیکھنا چاہتا ۔ ۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آیا صوفیا ، گرجا کے مسجد بننے سے کیا اسلام کی فتح ہوگی؟۔۔منصور ندیم“