سلویا سے عائشہ تک۔۔محمود چوہدری

پچیس سالہ سلویا رومانوکو ڈیڑھ سال پہلے انتہا پسند تنظیم الشباب نے اغوا کر لیا تھا ۔وہ ایک اطالوی این جی او کی رضا کار ہیں جو ان دنوں کینیا میں بے سہارا بچوں کی مدد کے مشن پر تھیں ۔ اس سال دس مئی کو اطالوی حکومت نے انہیں ترکی کی انٹیلی جینس ایجنسی کی مدد سے بازیاب کروا یاہے ۔ دس مئی کو جب وہ اپنے وطن پہنچی تو ملک کے وزیر اعظم انہیں خود لینے ائرپورٹ پہنچے ۔ لیکن جب وہ جہاز سے اتری تو اس کے بعد اطالوی میڈیا اور اطالوی انتہا پسند سیاسی پارٹیوں کے غیض و غضب کا شکارہوگئیں ۔ اس کا جرم صرف اتناہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیاہے اور اپنا نام عائشہ رکھا لیاہے ۔ان کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی گھٹیا پروپیگنڈ ہ چلا اطالوی حکومت پر الزام لگا کہ اسے چھڑانے کے لئے افریقی دہشت گرد تنظیم کو تاوان دیاگیا ہے یہ پیسہ اب دہشتگردی کا سبب بنے گا ۔ سلویا کہ گھر پر حملہ کیا گیا سوشل میڈیا پر مہم اتنی سخت تھی کہ پولیس کو اس کا فیس بک اکا ونٹ بند کرنا پڑا۔ اس کے گھر پر پہرہ رہا ۔ کچھ ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ اس نے دہشتگردوں کے ڈر سے اسلام قبول کیا ہے اور وہ بہت جلد اس اثر سے نکل آئے گی اور اپنا حجاب اتار دے گی ، سلویا یہ سب سنتی رہی اور خاموش رہی آج دو مہینے بعد اس نے اپنا پہلا انٹرویو ایک مسلمان رائٹر ڈیو ڈیوڈ پکاریدوکو دیا جو میلان میں مسلمان تنظیمات کا راہنما ہے اور قرآن کریم کااطالوی زبان میں ترجمہ کرنے والے معروف عالم دین حمزہ روبیرتو پیکاردو کا بیٹا ہے ۔
ڈیوڈ پکاردو کا کہنا ہے کہ جب میں میلان میں عائشہ کو ملنے گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک مصری خاتون نے انہیںرستے میں روک لیااورپوچھنے لگی کہ تم سلویا ہی ہو نا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ مجھے ان کی باتیں سننی چاہیے ۔لیکن میں نے دیکھا کہ اس مصری خاتون کی زبان سے تو کچھ الفاظ نہ نکلے البتہ محبت سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ ڈیوڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے عائشہ کا کہنا تھاکہ اغوا ہونے سے پہلے میں خدا پر یقین نہیں رکھتی تھی ۔ میں اپنے آپ کو ملحد کہتی تھی ۔ میں جب دنیا میں ہونے والے کسی سانحے کی خبر سنتی تو اپنی ماں سے کہتی اگر کہیں خدا ہوتا تو اس طرح کی برائیاں تو نہ ہوتیں خدا کیسے انسانوں کو اتنا دکھ پہنچا سکتا ہے ۔ دوران تعلیم مجھے دنیا میں پھیلی ناانصافیوں کے خلاف کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ مجھے چھوٹے بچوں اور خواتین پر ہونے والے ظلم اور سماجی نانصافیوں کے بارے جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی لئے میں ذاتی تجربہ حاصل کرنے اور بچوں کی مدد کرنے بطور رضا کارافریقہ پہنچی ۔ اس سوال پر کہ کیا اس سے پہلے مسلمانوں سے ملنے کا کوئی تجربہ ہوا تھا۔ عائشہ کا کہنا تھا بدقسمتی سے مسلمانوں کے بارے میرا نکتہ نظر بہت منفی تھی ۔ جب پہلی دفعہ میں ایک عورت کو میلان میں باپردہ دیکھا تو میرے ذہن میں بھی پہلا خیال یہی آیا کہ اس بے چارہ کو زبردستی دبا کر رکھا گیا ہے۔اس سوال پر تو پھر خدا کے قریب کیسے آئی؟عائشہ کا کہنا تھا کہ جب مجھے اغواءکیا گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب مجھے وہ لے کر جارہے تھے تو میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ میں تو ا س ملک میں بطور رضا کار آئی تھی ان لوگوں کی مدد کرنے آئی تھی ۔ میں تو کچھ اچھا کرنے آئی تھی ۔ میں نے کون سا گناہ کیا ہے ؟ میں نے سوچا کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے اغوا کیا گیا ہے ؟ کسی اور لڑکی کو اغوا ءکیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا میرے اغوا کا فیصلہ کسی اورطاقت نے کیاہے ؟پہلا سوال ہی مجھے خدا کے قریب لے آیا ۔ پھر میری روح کا سفر شروع ہوا ۔ اس سفر کے دوران میںبہت زیادہ غور کرتی رہی۔میرے پاس سوالوں کے جواب نہیں تھے لیکن مجھے ان کے جوابات درکار تھے ۔ یہ سوال مجھے مزید پریشان کرتے تھے ۔ میں روتی تھی ، پریشان ہوتی تھی جب ان سوالوں کا جواب نہیں آتا تھا تو مجھے مزید غصہ آتا تھا ۔ مجھے خود ہی ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا تھا ۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی ہے اوپر جس نے میرے لئے کوئی اچھا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس کے بعد کا مرحلہ وہ آیا جب میں جیل میں تھی میں نے سوچنا شروع کردیا ۔ کہیں خدا مجھے کوئی سزا تو نہیں دے رہا کیونکہ میں اس کی ذات میں یقین نہیں رکھتی۔ اور میں اس سے اتنی دور ہوں ۔دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے اغوا کار مجھے صومالیہ لے گئے ۔ رات کا وقت تھا میں سو رہی تھی ۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ ڈرون حملہ سنا ، میں بہت ڈر گئی ، مجھے لگا میں مرنے والی ہوں ۔ اس لمحے میں نے خدا سے گڑ گڑاکر دعا کرنا شروع کردی ۔ اے خدا مجھے بچا لے ۔ مجھے اپنی فیملی سے دوبارہ ملا دے ۔ مجھے ایک موقع اور دے دے ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا ۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں اس سے مخاطب ہوئی ۔ ۔۔
اغوا کار سخت نہیں تھے لیکن وہ لوگوں کو حبس بے جا میں رکھے ہوئے تھے ۔ ان کا یہ طرز عمل غیر قانونی تھا ۔ بہت مشکل ہے کہ کوئی ان کا مذہب اختیار کرلیتا ۔البتہ میں نے ان سے قرآ ن مانگا اور میں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ۔ مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ یہ بہترین کتاب ہے مجھے سمجھ آگئی کہ یہ قرآن ان ”الشباب“ والوں کی تو نہیں ہوسکتی ۔ یہ ایک معجزاتی کتاب ہے ۔ میرے روح کی تلاش شروع ہوگئی اور مجھے خدا کے وجود کی آگاہی ہونا شروع ہوگئی ۔مجھے محسوس ہوگیا کہ خدا مجھے رستہ دکھا رہا ہے اور مجھے موقع دے رہا ہے کہ میں اس پر عمل کروں یا نہیں۔پہلی دفعہ تو اسے پڑھتے ہوئے مجھے پورے دو مہینے لگ گئے ۔ لیکن اس کے بعد میں نے اس پر غور کرنا شروع کر دیا ۔ ہر روز میں خود کو زیادہ مضبوط محسوس کرتی ۔حتیٰ کہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ بہت سی آیات نے میرے دل پر گہری چوٹ لگائی ۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ خدا مجھ سے براہ راست مخاطب ہے مسلمان ہونے سے پہلے مجھے سورت انفال کی آیت نمبر 70بہت اچھی لگی اے پیغمبر جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور خدابخشنے والا مہربان ہے۔۔۔ ایک اور آیت جس نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا وہ تھی۔۔۔ تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔۔۔ایک اور آیت سورہ آل عمران میں ہے ۔۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہ ہو سکے گا اور اگر اس نے مدد چھوڑ دی تو پھر ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے اور مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خدا براہ راست مجھ سے مخاطب ہے ۔
جب میں مسلمان ہوئی تو مجھے یقین ہوگیا کہ خدا مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ جب مجھے ڈر لگتا تھا جب مجھے اپنی فیملی یاد آتی تھی جب مجھے اپنا مستقبل بے قرار کرتا تھا تو عبادت مجھے طاقت دیتی تھی ۔ جتنا میں غمگین ہوتی تھی اتنا ہی خدا سے میں صبر اورقوت مانگتی تھی۔پھر میں نے پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کے بارے میں آگہی حاصل کرنا شروع کردی اور میری ذات میں صبر آگیا۔
اس سوال پر کہ آپ نے اپنا نام کیسے چنا ؟ عائشہ کا کہنا تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ٹرام کی ٹکٹ خرید رہی ہوں اور میرے میٹرو کارڈ پر میرا نام عائشہ لکھا ہے ۔۔اس سوال پر کہ اسلام سے آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے ؟ عائشہ سلویا کا کہنا تھا کہ مجھ میں صبر آگیا ہے ۔ میں اپنے والدین کی عزت زیادہ کرتی ہوں ۔ میں دوسروں کے بارے میں نرم دل گئی ہوں ۔ جب کوئی میرے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتا ہے تو مجھے اب غصہ نہیں آتا

 

 

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply