امریکہ میں سیاہ فاموں کے مظاہرے اور پاکستانی۔۔یاسر حمید

ہوا یوں کہ چند روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے سیاہ فام شخص کو دبوچ کر اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا ہوا ہے 46 سالہ سیاہ فام شخص جس کا نام جارج فلائیڈ تھا کو جعلی کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے شبہ میں حراست میں لیا تھا جہاں اس کی موت دم گھٹنے سے ہوئی۔اس پولیس آفسر کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور تھرڈ ڈگری قتل اس پر ڈالا گیا ہے۔۔
جب تکبر اور انا کا مارا پولیس والا ایک مشتبہ سیاہ فام کا گلا دبا رہا تھا تو وہاں پر کافی لوگ اسے روکنے کے لئے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ پولیس والے کا ایک ساتھی انہیں بھگانے کی کوشش میں مصروف تھا لیکن لوگ شورکر رہے تھے اور پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح پولیس والا اس سیاہ فام کی جان بخشی کر دے
ہٹ دھرمی کے مارے سپاہی نے جب اس سیاہ فام کو مار دیا تو امریکہ بھر میں احتجاج جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ لوگوں نے وائٹ ہاؤس پہ دھاوا بول کر بھی غصہ اتارا اور مظاہرے ملک گیر ہو گئے۔ ان تمام مظاہروں میں گورے بھی موجود تھے جنہوں نے ان سیاہ فام کے حق میں مظاہرے کیے۔ کورونا بحران کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی بڑھاوا ملا جو بھوک سے مر رہے تھے یا حالات سے تنگ تھے۔ جس کے جو ہاتھ لگا دوکانیں اے ٹی ایم سب لوٹ لیا۔ توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے اس عمل میں بہت سے اداروں نے اپنے آفس بند کر دیے۔ حتی کہ پرسوں سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا ٹیسٹ کے لیے جو کیمپ آفس بنائے تھے وہ بھی بند کردیے۔ لوگ کورونا کو بھول کر سیاہ فام نسل کے حق میں نکل پڑے۔
ان مظاہروں میں بہتر بات تھی کہ کئی لوگ ایسے لوگوں کو جو مظاہروں کے نام پر لوٹ مار کر رہے تھے کو پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کر رہے تھے۔ اور دوسری اچھی  بات یہ کہ پولیس خود بھی ان مظاہروں میں شامل تھی بلکہ انہوں نے  مظاہرین سے نا صرف گھٹنے ٹیک کر معافی مانگی بلکہ مظاہرین کے ساتھ مل کر نعرے بازی بھی کی۔
اس سب میں امریکی صدر ٹرمپ نے دو طنزیہ ٹویٹ کئے تو اسے ٹوئیٹر نے سماجی معیار کے مطابق نہ ہونے پر  مٹا دیا۔
پھر ٹرمپ کے بیان اور مظاہرین کو دھمکی پر ہیوسٹن کے چیف پولیس آفسر نے ٹرمپ کو کھری کھری سنا دی کہ اگر آپ کوئی بہتر بات نہیں کر سکتے تو اپنا منہ بند رکھیں۔ مظاہرے اب بھی چل رہے ہیں جو اس ملک اور خطے میں اب کئی تبدیلیاں لے کر آئیں گے اور وہاں سیاہ فام معیار زندگی   بہتر ہو گا۔
دوسری جانب ہمارے پاکستانی بھائیوں کو سب کچھ بھول کر بس کورونا یاد آ گیا ہے کہ کورونا کہاں گیا لوگ اب کورونا سے کیوں نہیں ڈر رہے۔ مظاہروں میں کورونا نہیں ہوتا۔ اب امریکہ کے کورونا مریضوں کی تعداد یکدم کم ہو گئی ہے گورے بھی کالوں سے نفرت کرتے ہیں یہ نسل پرستی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بس وہی پاکستانی ہیں جو اب تک کورونا کو تسلیم ہی نہیں کر رہے تھے یا پھر وہ وقتاً فوقتاً امریکہ کی اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموشی اختیار کیے  ہوئے ہیں۔ اور اس سب کو نسل پرستی بھی ایسے لوگ کہہ رہے ہیں جو خود یورپ امریکہ میں گوریوں کے دیوانے ہو جاتے ہیں ان سے دوستیاں  اور شادی کرتے ہیں
امریکہ میں ملک گیر مظاہرے ہو رہے ہیں اور کئی کئی لاکھ لوگ ہر شہر میں باہر نکلے ہوئے ہیں۔ اب ہسپتال اور ٹیسٹ کرنے والے کیمپ بند ہونے سے کیسسز کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ پھر اگر وہ مظاہرے نہ کرتے تو بھی ہماری عوام کو چین نہیں آنا تھا کہ امریکہ اپنے ملک میں نا انصافی پر نہیں بول رہا۔ ان پاکستانیوں کو کسی صورت ان کی کوئی بات برداشت نہیں ہوتی۔ یہ نا صرف دوسرے ممالک میں بلکہ اپنے ملک میں بھی لوگوں پر انگلیاں اٹھانا جانتے ہیں جو ریاست کے ظلم کے خلاف بولے یا سوال کرے وہ غدار ڈالر لینے والا اداروں کا دشمن ٹھہرایا جاتا ہے۔۔
غلط عمل،ظلم اور ناانصافی کہاں نہیں ہوتی مگر معنی رکھتا ہے کہ ظلم کے خلاف آپ کا رد عمل کیا ہے اور کس طرح کا ہے،نہ ہی میں امریکہ میں ہونے والے اس قتل کا دفاع کر رہا ہوں، میں بس ان کے ردعمل پر بات کر رہاہوں۔
وہاں ایک قتل ہوا ہے ساری قوم اس ےحق میں سڑکوں پر ہے ظلم کو سب ظلم کہہ رہے سب اس قتل کے خلاف بول رہے  ہیں،چاہے وہ وہاں کی پولیس ہو۔ صدر نے غلط بولا ہے تو وہاں کے سوشل میڈیا نے ان کے ٹویٹ ہٹا دیے ایک پولیس آفیسر نے ٹرمپ کو ڈانٹ دیا۔ کسی نے ان لوگوں کو غدار، اداروں کا دشمن، غیر محب وطن، دشمن کا یار نہیں کہا، کہ سب نے ان کے موقف سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
میں یہی کہنا چاہوں گا  کہ
“اس وقت جو احتجاج امریکہ میں ہو رہے ہیں پاکستانی عوام اس سے بہت سی اچھی باتیں سیکھ سکتی ہے
اگر اچھا سیکھنا چاہے تو۔۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت  کےبدلنے کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply