صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔۔۔سید عارف مصطفی

ریاست کا چوتھا ستون ہے ، چوتھا ستون ہے ، چوتھا ستون ہے ۔۔۔ ”
اوروں کا تو مجھے معلوم نہیں لیکن یہ سنتے سنتے کم ازکم میرے تو کان پک گئے ہیں ۔ اس نعرہ زنی پہ آگے بات ہوگی لیکن پہلے ایک غلطی اور اسکے ازالے کی بابت کچھ گفتگو ہو جائے ۔ اس معاملے میں بظاہر تو کچھ خاص نہیں‌ ہوا یعنی بس اتنا ہی کہ  کسی صحافی سے ایک غلطی ہوئی اور اسکی نشاندہی کرانے پہ بروقت ادراک کرکے معافی مانگ لی گئی ۔۔۔ لیکن درحقیقت اس میں پاکستانی معاشرے کے سیکھنے کے لئے اور اہل صحافت کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں ذمہ دار بنانے کے لئے بہت کچھ سبق پنہاں ہے ۔

ہوا یہ تھا کہ لندن میں کام کرنے والی صحافتی ویب سائٹ یوریشیا فیوچر ڈاٹ کام ، جس نے جنگ گروپ اور اس کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن پہ سنگین الزامات لگائے تھے اور انکا تعلق متنازع ادارے کیمبرج اینالٹیکا کمپنی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی تھی، نے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے اپنے تمام الزامات واپس لیے ہیں اور یہ حلف نامہ جمع کرایا ہے کہ آئندہ وہ جھوٹے الزامات کو نہیں دہرائیں گے۔ یہ الزامات دراصل طیب بلوچ نامی ایک صحافی کے ان 4 مضامین میں لگائے گئے تھے جو اس ویب سائٹ نے بغیر تصدیق شائع کردیئے تھے اور ان مضامین کے زہریلے مواد کو جنگ گروپ کے کئی مخالفین نے اپنے مفاد کو بڑھاوا دینے کے لئے بڑھ چڑھ کے استعمال کرنے کی کوششیں کیں۔

طیب بلوچ کے ان آرٹیکلز میں حسب ذیل الزامات عائد کئےگئے تھے۔۔
کہ میر شکیل الرحمان اور نواز شریف کے گٹھ جوڑ سےگریٹر پنجاب کا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے اور انہوں نے ہی پشتون تحریک میں تیزی پیدا کی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ میر شکیل الرحمان نے جعلی و گمراہ کن خبروں کی بنیاد پہ ممبئی حملے کا الزام پاکستان پر ڈال دیا۔ اور یہ کہ پاک فوج اور محب وطن حلقے میر شکیل الرحمان، جنگ و جیو گروپ کو پاکستان میں مغربی ایجنڈے کا پرچارک سمجھتے ہیں اور یہ کہ جنگ اور جیو غیر ملکی ایجنٹ ہیں اور اسکے ایجنڈے کو بڑھاوا دینے میں لگے ہوئے ہیں ،

میڈیا پہ اثر نفوذ کے حوالے سے میر شکیل کو میڈیا کا گاڈ فادر ٹھہرایا گیا اور یہ کہا گیا کہ میر شکیل الرحمان نے عدلیہ اور اداروں کیخلاف مہم کا اعتراف کیا ہے۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ سرکاری اشتہارات میر شکیل الرحمان اور ان کے ذیلی ادارے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے ذریعے تقسیم کیے جاتے ہیں، اور یہ کہ ایگزیکٹ کے چینلوں کیخلاف میر شکیل الرحمان اور نواز شریف مل جل کر سازشیں کر رہے ہیں، میر شکیل الرحمان نے سرکاری مشینری پر اپنا اثر رسوخ استعمال کیا اور ایگزیکٹ کے چینلوں کیخلاف غلط بیانیہ پھیلا یا۔ آرٹیکل میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ نواز شریف نے میڈیا تشہیر کا ٹھیکہ (کنٹریکٹ) میر شکیل الرحمان کو دیا تھا اور یہ کہ نواز شریف کی ہر سیاسی کامیابی کے پیچھے میر شکیل الرحمان کا ہاتھ ہے۔

پھر وہی ہوا جو کہ  ہونا چاہیے تھا یعنی   جنگ گروپ نے یوریشیا فیوچر ڈاٹ کام کے ادارے اور اسکے ڈائریکٹر ایڈم جیری کوہتک عزت کے قانونی نوٹس بھجوادیئے جس پہ اس ادارے نے اپنے طور پہ طیب بلوچ کے تمام الزامات کی چھان بین تفصیل سے کی اور طیب بلوچ سے ان الزامات کے بارے میں ثبوت طلب کئے جو کہ وہ دینے میں یکسر نام رہا کیونکہ وہ مخصوص ایجنڈوں پہ کام کرنے والا ایک ایسا عادی بلیک میلر ہے کہ جو صرف الزامات لگانے ہی دلچسپی رکھتا ہے ۔

اس غیر متوقع صورتحال پہ ایڈم جیری اور انکے ادارے کے دیگر اکابرین ہکا بکا رہ گئے اور انہوں نے فوری طور  پر ادارہ  جنگ اور اسکے بانی کے خلاف لگائے گئے نہ صرف اپنے تمام الزامات واپس لے لئے بلکہ معافی بھی مانگ لی اور یوریشیا فیوچر ڈاٹ کام ویب سائٹ کے فرنٹ پیج پر تفصیلی معافی نامہ شائع کیا جو کہ  90؍ روز تک ویب سائٹ کے صفحہ اول پر موجود رہے گا۔

اب واپس آتا ہوں اسی نعرے کی طرف جس کا ذکر ابتدائے کلام میں کیا گیا تھا اور وہ یہ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون ٹھہرانے والوں‌ نے اسکی آڑ میں رات دن میڈیا کی قؤت اور اہمیت کی مالا جپنے کا کام تو بڑے زور و شور سے جاری کیا ہوا ہے لیکن یہاں ہمارے اپنے ملک میں عملی صورتحال تو حد درجہ مایوس کن ہے کیونکہ اب ناپختہ صحافتی رویئوں اور اطوار کے سبب بہتیرے لوگ اسے بلیک میلنگ کے استعارے کے طور پہ دیکھنے لگے ہیں انکے نزدیک اہل صحافت کے رویوں میں ذمہ داری اور اپنے صحافتی فرائض کی دیانتدارانہ انجام دہی کے بغیر تو یہ نعرہ قطعی بے معنی اور بالکل کھوکھلا ہے۔

میں نعرہ بازوں کو اس معاملے میں بالعموم خاموشی ہی پاتا ہوں کہ میڈیا کو آخر ذمہ دار کیسے بنایا جائے کیونکہ اگر وہ خود کو اہمیت کے اعتبار سے جدید ریاست کا چوتھا ستون قرار دینا کبھی نہیں بھولتے تو ریاست اور معاشرے کی جانب اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی وہ کیوں یاد نہیں رکھتے اور کیوں کسی بھی عزت دار کی پگڑی اچھالنے میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں-

ایک زمانے سے ہم یہ وطیرہ دیکھ رہے ہیں کہ ادھر کسی نے بھی نئے چینل کا لائسنس لیا اور جھٹ ادھر کسی بھی معزز فرد یا ادارے کو مطعون کرنا شروع کردیا ۔

اس ضمن میں اہل صحافت کے ساتھ ساتھ کافی ذمہ داری عدلیہ کی بھی ہے کہ وہ ایسے مقدمات کی سماعت میں‌ اتنی تاخیر کردیتی ہے کہ اسکا کوئی فائدہ دوسرے فریق کو نہیں  ہو  پاتا ۔ برطانیہ و مغربی ممالک میں ایسی صورتحال موجود نہیں‌ہے ۔

ابھی 2016 کی ہی تو بات ہے کہ جب لندن میں اے آر وائی چینل کی جانب سے جنگ اور جیو گروپ اور اسکے مالکان کے خلاف ایسے ہی  نعرے لگائے جانے پہ مقدمہ بازی کی نوبت آگئی تھی اور کچھ ہی عرصے میں‌ لندن کی عدالت سے فیصلہ بھی سنادیا گیا تھا کہ  جس میں اے آر وائی کو معافی مانگنے اور کروڑوں روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ ہے کہ آخر ایسے مقدمات کو ہمارے ملک میں ایسی تیزرفتاری سے کیوں نہیں نپٹا دیا جاتا؟۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس سلسلے میں عدلیہ بھی اپنی ذمہ داریاں محسوس کرے اور ریاست کے اس چوتھے ستون کے متنازعہ معاملات خصوصاً الزام تراشی کے رجحان کی بیخ کنی پہ خصوصی توجہ دے کیونکہ کسی کی عزت کو یوں بے وجہ پاؤں تلے روندنے کی حرکت دراصل اسکے جسمانی قتل سے زیادہ سنگین معاملہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply