خواجہ خورشید انور کی کہانی۔۔۔۔۔اصغر علی کوثر/قسط1

خواجہ خورشید انور برصغیر کے ایک مسلم موسیقار ہیں ،وہ موسیقی کے رموز و  نکات کو سمجھتے ہیں ۔اور اس کے ہر پہلو پر عبور رکھتے ہیں ۔لیکن ان کی شہرت صرف فلم موسیقار کے طور پر ہے۔انہوں نے زندگی کے جس شعبے میں بھی قدم رکھا نمایاں پوزیشن حاصل کی بطور طالبعلم فلسفے میں ایم اے کیا اور پھر ممتاز  پوزیشن  حاصل کی ،پھر آئی سی ایس کیا لیکن اس سے قبل انہوں نے بطور نوجوان شاعر اپنا مقام بنانے کی طرف توجہ دی ،اس زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے۔نذر محمد (ن -م)،راشد اور فیض احمد  فیض ان سے ایک سال سینئر تھے ۔یہ22۔1932 کا ذکر ہے ،اس زمانے میں فیض ابھی شعر نہیں کہتے تھے ۔ایام رفتہ کے رخ سے پردہ خواجہ خورشید انور نے ایک خصوصی ملاقات میں ہٹایا۔اس وقت وہ نحیف و نزار محسوس ہورہے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں میوزک پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں ۔لیکن مجھ میں اب اتنا اسٹیمینا نہیں ہے،میں نے بہت کوشش کی ہے کہ کوئی میرا ساتھ دے تو میں میوزک کے خزانوں کو ذہن سے کاغذ پر منتقل کرسکوں ،تاکہ موسیقی اور موسیقی کے  لیے مسلمانوں کی خدمات اور کارناموں پر ایک مستند کتاب وجود میں آجائے لیکن ابھی تک  ایسی کوئی صورت  نظر نہیں آرہی ،اگر میں یہ متاع ِ  اپنے ساتھ لے گیا تو مجھے بہت افسوس  رہے گا،بہتر یہ ہے کہ اس عظیم کام کو سر انجام دینے کے لیے رشید ملک اور علی عباس جلالپوری میرا ساتھ دیں ۔مگر یہ مرحلہ طے ہوتا نظر نہیں آتا،کیونکہ ان میں سے ایک صاحب شاید جوہر آباد شوگر مل میں ہیں اور دوسرے کراچی میں ،وہ کس طرح یہاں آئیں گے اور کس طرح اس کام میں میری معاونت کریں گے۔۔۔

آپ نے شعر کہنا کیوں چھوڑ دیا؟

دراصل میری توجہ میوزک پر مرکوز ہوگئی اس زمانے میں میرے والد صاحب بیرسٹر خواجہ فیروز دین اپنے ہاں موسیقی کی محفلیں کرایا کرتے تھے ان کو موسیقی سے بڑا شغف تھا۔مجھے بھی انہی محفلوں سے یہ ذوق عطا ہوا ۔یہ 1928 میں  جب میں آٹھویں یا نویں جماعت میں پڑھتا تھا ،حفیظ جالندھری  کی زمین میں ایک غزل کہی جو نیرنگ خیال شائع ہوئی ۔اس زمانے میں امتیاز  علی تاج ،پطرس،حفیظ جالندھری ،نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محمد دین تاثیر،اختر شیرانی عبدالمجید اسلک اور چراغ حسن حسرت جیسے لوگ نیرنگ خیال میں چھپتے تھے،اختر شیرانی اپنا ایک جریدہ رومان نکالتے تھے۔اس میں بھی میرا کلام شائع ہوتا رہا۔جس زمانے میں نیرنگ خیال میں میری غزل شائع ہوئی   فیض ابھی شعر نہیں کہتے تھے۔انہوں نے دراصل 1932 میں گورنمنٹ کالج میں آکر شعر گوئی کا آغاز کیا۔اور جب وہ بطور نوجوان شاعر ابھر رہے تھے ۔انہوں نے ایک روز مجھے بتایا کہ انہوں نے میری ایک نظم اپنی محبوبہ کو لائل پور (فیصؒ آباد) بھیجی تھی۔ظاہر ہے اس وقت میں ان سے اچھا شاعر تھا۔لیکن اس  تمام شعر گوئی کے باوجود اس زمانے میں کوئی ادبی شخصیت ہماری ہیرو نہ تھی۔مولانا محمد علی جوہر یا سید عطا اللہ شاہ بخاری ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتے تھے۔جو انگریز کے خلاف انگریز کے خلاف برسرِ پیکار تھے ۔ان کے علاوہ بھگت سنگھ جیسے لوگ بھی میرے جیسے نوجوانوں کے ہیرو تھے،بھگت سنگھ سے میری کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی،نہ ہی میں نے اسے کبھی دیکھا،لیکن اس کے قید ہونےکے بعد سنٹرل جیل لاہور میں جب بھگت سنگھ کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو میں گاہے بگاہے جاتا رہا اس مقصد کے لیے پاس حاصل کرنا پڑتا تھا۔اس لیے میں روزانہ جاسکتا تھا ۔

1929-20 کا ذکر ہے ۔۔۔1929 ہی میں ،میں بھی بم بنانے اور دہشت پھلانے کے الزام میں گرفتار ہوا ،کوئی چار پانچ مہنینے جیل میں گزارے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔ایک سال موسم گرما کی تعطیلات کے دوران تاثیر،فیض، صوفی تبسم اور میں سیر سپاٹے کے لیے کشمیر گئے۔وہاں ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی جو ایک مشہور کمیونسٹ تھا۔اس وقت فیض کو کمیونزم کے بارے کچھ معلوم نہ تھا۔نہ ہی وہ ان  خیالات کا اظہار کرتا تھا۔میں فلاسفی میں ایم اے کرچکا تھا ۔اور ہیکل اور کارل مارکس کا مطالعہ کرکے کمیونزم کی خامیوں خوبیوں سے آگاہ ہوچکا تھا۔اس لیے مجھ پر کمیونزم کبھی اثر  انداز نہیں ہوا۔لیکن سہ پہر کو جب ہم سری نگر میں دریائے جہلم کے کنارے  ٹہلتے اور ٹہلتے ٹہلتے شام ہوجاتی ،خوبصورت پہاڑیوں اور جھرنوں کے مابین جب شفق کے رنگ کی طرف میں ،ملک راج آنند   کی توجہ دلاتا تو وہ کہتا کہ اس شفق میں مجھے روس کے کسانوں کا لہو جھلکتا ہوا نظر آتا ہے ۔وہ ہر بات کا اختتام کمیونزم پر کرتے مگر ہمیں ان کی کوئی دلیل قائل نہ کرسکی ۔اگرچہ وہ بڑے مشہور انگریزی ناول نگار تھے۔اور ان کے ایک ناول “ٹولیوز اینڈرے بڈ”کئی زبانوں میں ترجمہ چکا تھا ۔مگر طویل بحثوں کے باوجود وہ مجھے متاثر نہ کرسکا ۔۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کمیونزم حتمی اقدار کا قائل نہیں ،اس  میں الٹی میٹ ویلیوز نہیں ہوتی ہیں ،اس لیے میں کبھی کمیونسٹ نہ ہوسکا ۔فیض نے اپنی ایک کتاب میں کچھ گئی گزری  باتوں اور ایام رفتہ کا ذکر کیا ہے ۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ میرے ایک دوست خورشید انور ہوسٹل میں میرے کمرے میں آجاتے تھے،اور وہیں کمیونزم کے بارے میں لٹریچر تقسیم کیا کرتے تھے۔۔۔۔میں حیران ہوں کہ یہ انہوں نے کس طرح لکھا، کہ میں ان کے کمرے میں تو جایا کرتا تھا مگر باقی کچھ یاد نہیں ،صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب کمیونزم مجھے کبھی متاثر ہی نہ کرسکا تو میں کمیونزم کا لٹریچر کیونکر تقسیم کرتا ؟۔۔۔ بہر حال فیض نے شاید اپنی ترنگ میں آکر اپنی کتان “مہ و سال آشنائی”میں ذکر کیا ہے۔فیض کے بارے میں انہوں نے 1935 میں جب  ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا تو وہاں صاحب زادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر خورشید جہاں سے ان کی ملاقات ہوئی وہ میاں بیوی بھی وہیں پڑھاتے تھے ،اور کٹر کمیونسٹ تھے۔رشید ہ نے تو ماسکو ہی کے ایک ہسپتال میں وفات پائی،ان کو کینسر تھا ،ڈاکٹر محمد دین تاثیر اس کالج میں پرنسپل تھے،وہیں ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی گئی،چونکہ اس تحریک میں زیادہ کمیونسٹ شامل ہوگئے،اس لیے رشیدہ جہاں  کی کمیونزم کی تعلیم و تدریس کےے ساتھ ساتھ فیض کو ریگولر کمیونسٹ اذہان بھی متاثر کرنے لگے،یہ ایک ایسا در تھا جب سارے زمانے میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوچکا تھا اورروس ہر ملک میں اس قسم کی ہر تحریک کی مدد کرنے کی کوشش کرتا تھا ،جس سے میرے جیسے حریت پسندوں کو محض اس حد تک روس سے اتفاق تھا ،کمیونزم کی حد  تک ہر گز نہیں ،فیض کی اس زمانے کی نظموں میں کمیونزم کی کوئی جھلک نہیں ملتی،وہ بنیادی طور پر ایک رومانی شاعر ہیں ،میں اور فیض کئی سال تک گورنمنٹ کالج لاہور میں اکٹھے پڑھتے رہے۔اس زمانے  میں  مجھ پر کئی کیس چل رہے تھے،ایک مقدمے میں جس میں مجھے سزا ہوئی  تھی،میں نے اپیل کی اور بری ہوگیا۔باقی مقدمات واپس لے لیے گئے،یہ ایک لمبی کہانی ہے۔۔پھر کسی وقت بتاؤں گا۔

بہر حال فیض سے میری دوستی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میں ایک سال گرمی کی چھٹیاں گزارنے کے لیے فیض کے بہنوئی کے پاس درمشالہ گیا۔فیض وہیں گئے ہوئے تھے،ان کے بہنوئی میرے والد صاحب کے ہم جماعت تھے اور  لندن میں کوئی پانچ سال ان کے ساتھ رہ چکے تھے،ان سے گھریلو تعلقات تھے،اس وجہ سے میں دھرم شالہ میں جب فیض سے ملا تو وہ ملاقات دوستی میں بدل گئی۔یہ دوستی ابھی تک قائم ہے ۔

بشکریہ ہفت   روزہ اشاعت، امروز 1983

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply