وحدت اسلام

ہمارا مقصد وحدت اسلام کو مضبوط کرنا، امت کو نئی جہتوں سے متعارف کرانا، اختلافات کی گتھیوں کو احسن طریقے سے سلجھانا، روایتی اختلافات کو بھلا کے ایک متحد امت کا شعور بیدار کرنا، ہونا چاہیے۔ ہم کہتے ہیں کہ اب زمانہ نیا ہے انداز و اطوار، تہذیب و تمدن میں فرق ہے تو نظر بھی تو آنا چاہیے۔ ہماری ساری بحث اختلاف کو مٹانے کے لئے ہوتی ہے اور انداز گفتگو کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ جس کا مقصد وجہ اختلاف کے حل کی بجائے علمی دھاک بٹھانا ہوتا ہے جس سے اختلافی خلیج کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے اور دیکھنے والے، سننے والے مزید تذبذب کا شکار بلکہ متنفر ہو جاتے ہیں یعنی وہ گفتگو جو اختلاف کے خاتمے کا باعث ہونی چاہئے تھی اس سے معاشرتی پیچیدگی و کشمکش میں مزید اضافہ ہوتا ہے نفرت کی وہ خلیج جسے کم ہونا بلکہ ختم ہونا چاہیے تھا وہ ایک خطرناک، پرسرار آدم خور گہری کھائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جو ہر وقت خالص انسانی خون سے بھری رہتی ہے۔

اختلافات کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکل آتے۔ جب تک ہمارا مقصد علمی دھاک بٹھانے کی بجائے، اختلافات مٹانے، اللہ کے دین کی سر بلندی کا نہیں ہو جاتا۔ یہ بات تجربات سے بھی اور مشاہداتی طور پہ بھی واضح ہے کہ جب بھی کسی انسان نے واقعتا اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے تو بڑے سے بڑا منفی ردعمل بھی اس کے اوسان خطا نہیں ہونے دیتا بلکہ تحمل، بردباری اور مدبرانہ انداز فکر سے فریق مخالف کو سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔

آج کے انسان اور ماضی بعید کے انسان میں کوئی فرق تو ہو جس سے معلوم ہو کہ انسانی سوچ و فکر کی سمت بہتر ہے یا ہم نے ترقی کی ہے کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔ ہمارا انداز فکر آج بھی ویسا ہی ہے آج بھی ہم انا کی دلدل میں اسی طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی کی پکار کسی کی سسکیاں سنائی نہیں دیتیں۔ ہم نے آج بھی تہیہ کیا ہوا ہے کہ جب تک ہماری بات کو مقدم نہیں سمجھا جائے گا ہم نے کسی کی بات نہیں سننی۔ کیا تبدیل ہوا ہے ہمارا سوچنے کا انداز، طریقہ گفتگو، انداز تخاطب یا مباحثوں کے اطوار کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ آج بھی فروعی قسم کے مسائل پہ ہم ایک دوسرے پہ تعن و تشنیع اپنا حق سمجھتے ہیں سب کچھ ویسا کا ویسا ہی تو ہے۔ آج بھی بحث مباحثوں میں جب کوئی جواب نہیں بن پاتا تو گالم گلوچ کرنا شروع کر دیتے ہیں یا کسی کو مرعوب کرنے کے لئے ذاتیات پہ پے در پے بے دریغ حملے شروع کر دیتے ہیں۔ آج بھی ہمارے پڑھے لکھے لوگ اپنے آپ کو عقل کل مانتے ہیں اور اس پہ بضد بھی ہوتے ہیں کہ انہیں عقل کل مانا بھی جائے۔ جتنا بڑا ڈگری یافتہ ہو گا اتنا ہی بے دھڑک لوگوں کی سوچ کا استحصال، اپنی سوچ کو لوگوں پہ مسلط کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ بلکہ یہ مرض ایک بیماری کی صورت معاشرے میں سرایت کر چکا ہے کہ جس کھوتے پہ زیادہ کتابیں لدی ہوں گی اس کی رائے کو مقدم مانا جائے۔ لیکن قرآن ایسے کتابوں کا بوجھ اٹھائے لوگوں کو گدھوں سے تشبیہ دیتا ہے جن کا مقصد کسی بھی حوالے سے علمی دھاک بٹھانا یا ذاتی مفادات کا حصول ہو۔

دین اللہ رب العالمین کا محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے۔ تو اتمام حجت بھی اللہ رب العالمین اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم افراد کی بجائے ایک امت بن کے رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلاف رائے کا احترام کیا جائے اسے صرف ایک رائے ہی تصور کیا جائے۔ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے دین اسلام میں عطا کردہ ایک فکری آزادی ہے جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے تاکہ ذہن و عقل زنگ آلود نہ ہوں۔اس فکری آزادی کے احترام کے ساتھ ساتھ اس کے حق کو سلب کرنے کی بھی سخت ممانعت ہے۔ طویل ابحاث کی بجائے اختلافات کی خلیج کو واقعتا کم کرنے کی پورے صدق سے کوشش کی جائے تو وحدت امت بعید نہیں۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply