2017،پشاورکی صفائی کا سال

2017،پشاورکی صفائی کا سال
وقاراحمداعوان
چلئے جناب آخر کارپشاور کی صفائی کا سال آہی گیا ۔حالانکہ یہ کوئی انہونی یا نئی بات نہیں کیونکہ ایساپہلی بارتھوڑا ہورہاہے۔اس سے پہلے بھی کئی بارپشاور کی صفائی کی بات کی گئی۔اس کے لئے باقاعدہ کثیر رقم مختص کی گئی لیکن “کھودا پہاڑ نکلا چوہا”پشاور جوکہ ماضی میں پھولوں کا شہر کہلاتا تھا ویسے کا ویسا ہی رہا۔البتہ پشاور کی صفائی ضرور کی گئی۔مطلب پشاور کے ترقیاتی فنڈز دیگرعلاقوں میں خرچ کئے گئے۔مثال کے طورپر ایک عرصہ ہوا پشاور سے وزیر اعلیٰ نہیں آیا۔اسی طرح دیگر محکمہ جات پر بھی آنے والے وزراء دیگر علاقوں سے تھے اس لئے پشاور کی خوبصورتی اور ترقی پرکسی بھی قسم کی خاص توجہ نہیں دی گئی۔البتہ گزشتہ حکومت میں پشاور سے وزیر بلدیات ضرور آئے تھے۔اور جن کی خدمات بھی پشاور کے لئے قابل فخر ہیں۔جیسے جی ٹی روڈ کی حد تک گاڑیاں باقاعدہ صبح وشام صفائی کرتی نظرآتی تھیں،مگر قریب کی گلی سے گزرنا محال تھا۔
اسی طرح شہر کی تمام اہم اوربڑی شاہراہوں کو روزانہ کی بنیاد پر صاف کیا جاتا تھا۔مگر اندرون شہر اورمضافات گندگی کے ڈھیر بن چکے تھے۔اور جس سے مختلف بیماریاں جنم لیتے دیر نہیں کرتی تھیں۔اور شاید انہی وجوہات کی بناء پر پشاور کو ایک عرصہ تک دنیا کے گندے ترین شہروں میں شما ر کیا جاتارہا اور اب بھی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پشاور دنیا کے گندے ترین شہروں میں سے ہے۔لیکن اب چونکہ موجودہ صوبائی حکومت نے پشاور کو خوبصورت بنانے کا بیڑہ آخر کار اٹھا ہی لیاہے ،تو لہذا بات اسی پر کریں گے۔جہاں تک ہم دیکھ رہے ہیں،شہر کے مختلف چوکوں میں لگے بل بورڈز پر لگے بڑے بڑے بینزز میں تو دیکھنے کو مل رہاہے کہ 2017پشاورکی صفائی کاسال ہے۔اس بارے نہ صرف وزیر اعلیٰ ایک پروگرام کے ذریعے باقاعدہ اعلان کرچکے ہیں بلکہ ساتھ وزیر بلدیات اور خاص طورسے پشاور کے چاروں ٹائونز ناظمین بھی متحرک نظرآتے ہیں۔لیکن ہم چونکہ سوشل میڈیا پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ قریباً ہر وقت جڑے رہتے ہیں اس لئے ذرا وہاںکی خبر بھی آپ لوگوں تک پہنچادیں۔جیسے پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ ترقیاتی منصوبے صرف سوشل میڈیا تک ہیں وہیں عوامی رائے کے مطابق “پشاورکی صفائی”;بھی سوشل میڈیا تک ہی رہے گی۔ہوسکتاہے اب کی بار صوبائی حکومت اپنے اس بلندوبانگ دعوے کو علمی جامہ پہنادے ۔
مگر ایسا بھی ہوسکتاہے کہ ایسا نہ ہو اور صرف عوام کے دل جیتنے کے لئے ایسا سوچا گیا ہو۔2017ء ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے آپ اپنے دماغ پر زیادہ زور نہ دیں۔کیونکہ آپ بے چارے بھی اب تھک چکے ہیں۔دوسرا آپ میں سے کچھ لوگ ایسے بھی سوچتے ہونگے کہ پاکستان تحریک انصاف یا صوبائی اور ضلعی حکومت کی مذکورہ کاوش کو سراہنے کی بجائے بلاجواز تنقید کیوںکی جارہی ہے۔اگر حکومت اب کی بار سنجیدہ ہے تو اسے اپنا کام کرنے دیں ۔اس کے ساتھ ساتھ عوام کوبھی جاگنے کی تلقین کریں تاکہ پشاورکے باسی بھی پشاور کو خوبصورت بنانے میں اپنا کردار اداکرسکیں۔تو جناب ان تمام گلے شکوئوں میں بھی صداقت کا عنصر موجود ہے۔کیونکہ کسی بھی گھر ،محلہ،گائوں ،قصبہ اورشہر کی صفائی میں جتنا وہاں کے مکین اپنا مثبت کردار اداکرتے ہیں شاید ہی کوئی اور کرتا ہوگا۔جیسے ہم کب باشعور ہوکر اپنے گھر کے گند یا کوڑاکرکٹ کو ٹھکانے لگانے والے بن جائیں گے۔اسی طرح محلہ کے باسی اورپھر ہوتے ہوتے بات شہر اورملک تک جاپہنچتی ہے۔آج اگر ہم پشاور کو ماضی کا مہکتا شہر مانتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ ہماراماضی میں صفائی بارے مثبت کردار تھا۔پشاورکا قریباً ہر باسی اپنے گھر کے کوڑا کرکٹ کوٹھکانے لگا دیتا تھا۔اس کے علاوہ صابن،شیمپو،سرف وغیرہ کا استعمال بھی کم تھا۔گائوں میں بہنے والی چھوٹی چھوٹی نہریں اور ان کا پانی قریباً قابل استعمال تھا کہ جن سے گائوں کی خواتین کپڑے وغیرہ دھو لیتی تھیں۔لیکن اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس پانی کودیکھنے کے بعد ہم دوچار روز تک کھانا تک نہ کھائیں۔ہرگھر میں صابن،شیمپو اور سرف وغیرہ کے کثرت استعمال سے کھیتوں کوملنے والا پانی گندا ہوچکاہے تودوسری جانب مختلف بیماریوں سے بچائو اورکیڑے مار ادویات کے استعمال نے ہماری فصلوں اور دیگر غذائی اجناس کو مضر صحت بنا دیاہے۔اسی طرح شہر کا کوڑاکرکٹ ہر گلی محلہ میں پڑادیکھنے کومل رہاہے۔حالانکہ ہم اپنی نصابی کتابوں میںباربار صفائی بارے مضامین بھی پڑھتے رہے ہیں اورپڑھ رہے ہیں۔اس کے علاوہ دین اسلام کی تعلیمات کہ;صفائی نصف ایمان ہے۔ یعنی صفائی کو ایمان کا نصف درجہ دیا گیاہے۔لیکن ہم جدید دور میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو ماضی کے انسا ن سے بھی گیا گزرا بنا چکے ہیں۔کہ جسے سہولیات تو حاصل نہ تھیں لیکن وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو ہمیشہ سے صاف ستھرا بناتا آیاہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں آج کا انسان اپنے آپ کو معاشرتی ذمہ داریوں سے مبرا سمجھ رہاہے۔اورشاید یہی ایک وجہ ہے کہ ہمار اشہرگندا سے گنداترین کی فہرست میں شامل ہوچکاہے۔مگر جناب صبح کا بھولا اگرشام کو لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے کے مصداق اس کے علاوہ چڑیا اتنا بھی کھیت نہیں چگ گئیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔ اس لئے وقت سے پہلے جاگنا ہوگا۔حکومتیں آئیں گی جائیں گی لیکن ہم نے اپنا کام کرنا ہوگا۔ہم نے اپنی مذہبی، اخلاقی،معاشرتی اور قومی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ہم نے کسی کا بھی انتظار نہیں کرنا ہوگا،کیونکہ صد افسوس کہ باہر کاکوئی شخص آکرہمیں ہمارے گھروں،محلوں وغیرہ کا کوڑاکرکٹ صاف یا ٹھکانے لگانے کادرس دیتا نظرآئے۔ہم خود ہی اپنی مددآپ ہی اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کیوںنا اپنے شہر کو خوب سے خوب تربنالیں۔اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہم باشعور قوم ہیں۔

Facebook Comments

waqar ahmedawan
work with Daily Aajsubh peshawar edition

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply