اس قوم کا پرسان حال کون؟۔۔۔۔۔عبدالرؤف خٹک

اب قوم کو بلا چوں و چرا ٹھنڈے پیٹوں سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا ،یہ اک آخری امید کی کرن تھی جس  پر  قوم  تکیہ کیے   بیٹھی تھی ،اب اگر یہ جماعت بھی پچھلوں کی طرح اسی ڈگر پر چل پڑتی ہے ،جیسے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں تو پھر قوم کو یہ دعا پڑھ لینی چاہیے۔۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ،
کیونکہ آپ کی ساری امیدیں اب دم توڑدیتی ہیں اب آپ کے پاس پیچھے کوئی ایسی قیادت میسر نہیں جس پر آپ مکمل اعتماد کریں ،بڑی مشکل سے قوم کو اک ہیرو ،ہیرے کی طرح کا میسر آیا تھا ،
اب اگر وہ بھی قوم کی امیدوں کو خاک میں ملانے کی کوشش کرے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے اس قوم کا،پھر یہ قوم بھی اپنے نصیب کو روئے کہ انہیں  اچھی قیادت کا میسر ہونا بہت مشکل ہے ،آخر یہ قوم اتنی بدنصیب کیوں ؟ اس قوم کو ستر سال سے اچھی قیادت میسر کیوں نہیں؟ ستر سال سے اس قوم کا استحصال کیوں؟

اگر دیکھا جائے تو بہت سارے معاملات میں قوم خود بھی قصوروار ہے ،قوم نے بجائے خود کو سمجھنے کے اور خود میں شعور پیدا کرنے کے   وہ راستہ اختیار کیا جس میں آپ خود کو کسی کے حوالے کردیتے ہیں  ،اپنا آپ بیچ دینا ،اندھی تقلید کی طرف چلے جانا ،اور یہیں  سے قوم کی بربادی کا سامان پیدا ہوا ،اگر یہ قوم بجائے اندھی تقلید کے خود میں تھوڑا شعور پیدا کرتی اور اپنا ایک اچھا راہنما چنتی تو آج اس قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔
قوم کا غلط ڈگر پر چلے جانا اور وہیں سے ہمارے حکمرانوں کا ہم پر راج کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ،آج یہ قوم تفرقے میں ،مسلک کی لڑائی میں،زبان کی تفریق میں ،لسانیت اور تعصب میں پڑی ہوئی ہے  کہیں روشن خیالی کا لولی پاپ، کہیں جہاد کا درس ہے تو کہیں وطن کی قربانی کا جذبہ،

اس پوری قوم کو اک ایسے گورکھ دھندے سے لگا دیا ہے ،جس کا سر پیر کہیں نظر نہیں آرہا ،اور ہمارے جادوگر ،اور بازیگر اپنے اللے تللے پورے کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،بات کی جاتی ہے قوم سے قربانی مانگنے کی ،قوم تو قربانی دے دے کر اکتا چکی ہے ،لیکن اسے قربانی کے عوض کیا ملا ؟
آج بھی یہ قوم منتظر ہے اک ایسے راہنما کی جو اس قوم کو اک لڑی میں پروئے ،اس قوم کو اس گورکھ دھندے سے نکال باہر کرے ،اور اس قوم کو اپنی اک شناخت دے اپنا اک مقام دے ،تاکہ یہ قوم اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اس ملک کا نام روشن کرے ۔

قوم نے یہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھی ، اپنے اس دبنگ لیڈر عمران خان سے ، قوم کو اک امید ہوچلی تھی کہ یہ شخص مخلص نظر آتا ہے ،اور یہ اس قوم کو اور اس ملک کو اس ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد کرے گا جو ستر سال سے اس ملک کو گدھوں کی طرح نو چ رہے تھے ۔اس ملک کو لوٹنے میں صرف حکمران ہی پیش پیش نہیں تھے بلکہ اس ملک کو ہر بیوروکریٹ، سیاست دان ، اسٹیلشمنٹ ،اور اس ملک کی تمام اشرافیہ اور مافیہ نے کھایا ہے ، جس کو جہاں سے جگہ ملی وہ وہیں  سے اس پر ٹوٹ پڑا ، اور قوم کو ہمیشہ سہانے سپنے دکھائے گئے۔،

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا اس قوم پر ترس کھائیے ،آپ نے اس ملک کے حصے بخرے کیے  قوم نے برداشت کیا اور صبر کا گھونٹ پی لیا ، آدھا کشمیر ہم سے چلا گیا قوم نے برداشت کیا ، اک جھوٹی جنگ ہم پر مسلط کی گئی ،ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ، ہمارے قبائلی مارے گئے ،شہروں میں بم دھماکوں میں لوگ شہید ہوئے ،ہم نے وہ بھی برداشت کیا ،لیکن  یہ برداشت کب تک ؟ یہ اس قوم کی آخری برداشت اور آخری حد ہے اب اگر پانی سر سے اوپر گیا تو پھر یہ قوم دما دم مست قلندر کرےگی۔
یاد رکھنا جب برداشت کی تمام حدیں عبور ہو جائیں تو پھر اک نعرۂ مستانہ لگتا ہے اور وہ ہے انقلاب ،جی ہاں! جب قوم کی برداشت سے باہر ہوجائے تو پھر وہ اپنی تئیں انقلاب کو دعوت دیتی ہے ،نہ پھر کوئی راہنما ہوتا ہے اور نہ کوئی سمجھانے والا ۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply