مائی اللہ وسائی ،بانکا اور میں۔۔محمد اسلم خان کھچی

بہت پرانی بات ہے ۔  میری عمر کوئی آٹھ نو سال ہو گی ،کبھی کبھی بچپن کے کچھ واقعات ذہن میں آتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ آپ جیسے دوستوں کے ساتھ شیئر کروں.
میرا گاؤں مکمل طور پہ دیہاتی طرز پہ ہے. کچے مکان, چھوٹی دیواریں کہ ایک گھر سے دوسرے گھر والے کو آواز دی جا سکے.دیہاتی طرز زندگی , بجلی گیس کی خرافات سے دور ,رات کو کھلے آسمان تلے سونا,  گرمی سردی کا احساس تک نہ ہونا. شام ہوتے ہی نلکے سے پانی کی بالٹیاں بھر بھر کے کھلے صحن کو سیراب کرنا اور پانی گرنے سے نکلنے والی مٹی کی خوشبو سونگھنا.
صبح سویرے ،ریڑکا   کی آواز پہ منہ بسور تے ہوئے اٹھنا اور اماں جی کا پہلا حکم ، لسی   پی لو اور نماز کیلئے جاؤ۔

میرے گاؤں کی خوبصورت تہذیب کے یہ پل میں نے  اپنی روح میں سمیٹے ہیں اور یہ پل میری زندگی کی سب سے بڑی دولت ہیں۔

لیکن اب میرا گاؤں بھی شہر بنتا جا رہا ہے،لسی کی جگہ   بیڈ ٹی   نے لے لی ہے.شہتیر کے ساتھ لگے جھالر والے پنکھے کی جگہ ایئر کولر اور پیڈسٹل فین نے لے لی ہے بلکہ ٹھنڈی ہوا کی مشینیں بھی لگنا شروع ہو گئی ہیں. چوپال کی جگہ بلیرڈ کلب نے لے لی ہے. چوپال میں پڑا عالمی محبت کا نشاں   “حقہ ”  ناپید ہوتا جارہاہے. جب چوپال ہی نہیں تو حقے بیچارے کا کیا کام ؟

مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے گاؤں کے عین بیچ میں ایک چھوٹا سا میدان تھا. جو کہ گاؤں والوں نے شادی ,خوشی, غمی کیلئے خالی رکھا ہوا تھا.سوائے ایک نلکے اور 5 بڑے سائز کے درختوں کے علاوہ میدان میں کچھ نہیں تھا. گرمیوں میں گاؤں کی عورتیں صبح کی ہانڈی روٹی کر کے ,گھر کے روزمرہ کے کام ختم کر کے چارپائیاں اٹھاتیں اور اسی میدان میں چلی جاتیں. تین درخت عورتوں کے بیٹھنے کیلئے مخصوص ہوتے اور دو کے نیچے بوڑھے یا کام پہ نہ جانے والے یا کام سے واپس آنے والے مرد براجمان ہوتے.گاؤں میں کام بھی بڑی جلدی ختم ہو جاتا ہے صبح صادق سے پہلے ہی بیلوں کی جوڑیاں اپنے ” ٹل “کھڑکاتے اپنے کام پہ جانے کا اعلان کرتی ہیں اور تقریباً دس بجے واپس آجاتی ہیں. یہ شہر کا 10 گھنٹے کے کام کا ” جنجال پورہ ” نہیں ہوتا.

بچوں کا ایک جم غفیر سارا دن اچھل کود میں مصروف رہتا. جس بچے کو زیادہ مستی ہوتی تو اسے گاؤں کی کوئی عورت یا مرد چانٹے بھی رسید کر دیتا. مجھے بھی کئی بار گاؤں کی کئی بزرگ عورتوں سے چانٹے کھانے کا اتفاق ہوا لیکن میری کوشش ہوتی کہ ” دھپ ” کی آواز سے ہی کام چل جائے اور میں پھرتیلا ہونے کی وجہ سے اکثر اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا لیکن کبھی کبھی بے دھیانی میں گال پہ   مہر لگ جاتی. لیکن کوئی تخصیص نہیں تھی کہ کس عورت نے کس کے بچے کے گال  تھپڑ کا نشان چھوڑا ہے، بس دوچار گالیاں پڑتیں اور ساتھ ہی ” دھپ ” یا   چٹاخ  کی آواز آتی. سب گھوم کے دیکھتے , عورتوں کے منہ سے ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹ پڑتا اور مار کھانے والا بچہ  بھاگ کے    مردوں کی طرف  بیٹھ جاتا. مردوں کی چوپال سے بھی آواز آتی” ہْن آرام اے”۔
آج کے دور سے موازنہ کروں تو لگتا ہے کہ عجیب لوگ تھے. اپنے بچوں کی کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی. کبھی کسی عورت نے اس بات پہ لڑائی نہیں کی کہ تم نے میرے بچے کو کیوں مارا جبکہ آج تو بچوں کی لڑائی پہ قتل ہو جاتے ہیں. میرے خیال میں شاید وہ سمجھتے تھے

بچے سب کے سانجھے ,عزتیں سب کی سانجھی ہیں۔۔

ایک عجیب دائمی محبت کا زمانہ تھا کسی کو کسی سے نفرت نہیں تھی.کوئی غیر نہیں تھا بس سب اپنے تھے۔زندگی رواں دواں اپنی خوبصورت محبت کے ساتھ محو سفر تھی کہ خزاں  کا موسم  آگیا۔۔
مجھے یاد ہے کہ خزاں کے موسم میں ایک دن سکول سے واپس آرہا تھا. شومئی قسمت کہ میں لڑکوں کی ٹولی سے الگ ہو گیا .ہاتھ میں تختی اور کپڑے کا سیا ہوا کتابوں کا تھیلا گلے میں ڈالے گنگناتا ہوا گھر کی طرف چلا جا رہا تھا کہ اچانک ایک چھوٹا سا کتا * بانکا *سامنے آگیا.
بس پھر کیا تھا. سانس گلے میں اٹک گئی. آؤ دیکھا نہ تاؤ بجلی کی سرعت سے یو ٹرن لیا اور بھاگنا شروع کر دیا. کتا چھوٹا سا تھا میں اگر ہاتھ میں پکڑی تختی اس کی طرف کر دیتا تو شاید وہ بھاگ جاتا لیکن میرے بھاگنے سے اچانک وہ شیر بن گیا. میری بچاؤ بچاؤ کی چیخیں آسمان کو چھو رہی تھیں. چند لمحوں میں ھی کتے نے اپنے دو دانت میری پنڈلی میں گاڑ دیئے ( ان دو دانتوں کے نشان ابھی بھی میری پنڈلی پہ موجود ہیں ). میں گر گیا.میرے گرتے ہی کتا بھاگ گیا اور ایک شفیق سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی. ماسی اللہ وسائی کی آواز
ہائے میں مر گئی ،ہائے میں مر گئی۔۔

آواز کانوں میں پڑتے ہی میں نے اور زور زور سے رونا شروع کر دیا. پنڈلی سے خون نکل رہا تھا. ماسی مجھے اٹھا کے اپنے گھر لے گئی اور میری مرہم پٹی کرنے لگ گئی. مرہم پٹی کیا تھی .اس نے لال مرچ کی مٹھی بھری اور میری پنڈلی پہ لگے دونوں دانتوں کے نشانوں پہ رکھ کے اوپر پٹی باندھ دی. مجھے وہ لمحے آج بھی یاد ہیں, وہ پٹی بھی کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ روتے ہوئے کہے جارہی تھی
ہائے میں مر گئی, ہائے میں مر گئی
آنسوؤں کی لڑیاں اس کے گالوں کا بھگو رہی تھی. آج بھی وہ لمحے جب آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو میرے اپنے گال بھیگ جاتے ہیں وہ محبت , وہ لمس , یاد کر کے جو مجھے  ماسی اللہ وسائی   سے ملا.
اتنی دیر میں ماں جی بھی آ گئیں اور مجھے بڑے پروٹوکول اور کروفر کے ساتھ کندھوں پہ اٹھا کے ایک  چیف جسٹس   کی طرح گھر لے جایا گیا. پورا راستہ گاؤں کے تمام ساتھی اور بڑے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن میں تکبر اور کروفر کے ساتھ ” منہ سجائے ” بیٹھا رہا اور زندگی میں پہلی بار لیا گیا پروٹوکول انجوائےکرتا رہا. حیران تھا کہ ایک کتے کے کاٹنے سے مجھے کتنی عزت مل رہی ہے. لوگ مجھے اٹھائے اٹھائے پھر رہے  ہیں.  یہ کیفیت میرے دل کو بھا گئی اور سونے پہ سہاگہ کہ  ستار صاحب   اللہ کریم انکی مغفرت فرمائے, میرے پرائمری ٹیچر میرا حال احوال پوچھنے میرے گھر آ گئے اور 10 روپے کے ساتھ ساتھ مجھے پندرہ دن کی چھٹی بھی عنایت کر دی . یقین کیجیے اپنی ہی نظر میں وی آئی پی بن گیا ،پندرہ دن میں ہی مجھے لگنے لگا کہ میں کچھ الگ مخلوق بن گیا ہوں. کبھی کبھی خود کو بادشاہ تصور کرنے لگتا اور گاؤں والے مجھے رعایا لگنے لگتے. اور اسی دوران ایک بار   با نکا   بھی میرے گھر آیا. شاید وہ معافی مانگنے آیا تھا. اسے بھی احساس ہو گیا تھا کہ میں وی آئی پی ہوں میں نے اس کی کمر پہ ہاتھ پھیرا اور کھانا بھی کھلایا اور وہ دم ہلاتے ہلاتے شکریہ ادا کرتے ہی بھاگ گیا. شرمندہ شرمندہ سا لگ رہا تھا.

کچھ روز پہلے ہزاروں واقعوں کی طرح ایک عام سا واقعہ ہوا کہ کسی   آرمی آفیسر   کی بیوی نے کسی پولیس والے پہ اپنی دھونس جما کے اپنے خاوند کے اثرو رسوخ کا ناجائز استعمال کر کے ایک ریاستی سکیورٹی ادارے کی تضحیک کی.یقیناً یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا. بیوی چاہے کسان کی ہو یا کسی جنرل کی یا کسی جسٹس کی, کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ادارہ تو کیا, ایک چھابڑی فروش کی بھی تضحیک کر سکے.یہ انسانوں کا معاشرہ ہے اسے بستی ہی رہنا چاہیے جنگل نہیں بننا چاہیے.
اور ابھی تک تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کرنل کی بیوی ہے بھی یا نہیں.. چلو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ کسی آرمی آفیسر کی بیوی ہے.

ویڈیو وائرل ہوئی یقیناً اداروں کے نوٹس میں آئی ہو گی اور اس پہ تحقیقات کے بعد کاروائی بھی  ہوئی ہو گی .قصوروار کو سزا بھی ضرور ملے گی کیونکہ اس وقت پاکستان میں آرمی ہی ایسا ادارہ ہے جو اپنے لوگوں کے خلاف نہ صرف کاروائی کرتا ہے بلکہ سخت سے سخت ترین سزا دینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے جس کی مثال ایک حاضر سروس   بریگیڈئر  کی سزائے موت کی صورت میں آپ کے سامنے ہے. باقی سویلین اداروں کا حال تو آپ کے سامنے ہے . ٹکے ٹکے پہ بک جانے والے اربوں کھربوں ڈکارنے کی اجازت دے رہے ہیں. ویڈیو وائرل ہوتے ہی پورے پاکستان میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا. فوج کو گالی گلوچ, کرنل کی بیوی کو گالی گلوچ, یوں لگا کہ کسی دشمن ملک نے حملہ کر دیاہے اور کرنل کی بیوی اس ملک کی جاسوس نکلی.
مختلف سیاسی پارٹیوں کے میڈیا گروپس کی طرف سے بار بار اس ویڈیو کو وائرل کیا گیا اور کھلم کھلا پوری فوج کی تضحیک کی گئی جبکہ وہ ایک محترمہ کا انفرادی فعل تھا.

ہم پاکستانی بڑے بھولے بادشاہ ہیں. ہمیں عمران خان کے پروٹوکول کی وجہ روڈ پہ رکنا پڑ جائے،ہمیں کوئی پرواہ نہیں،
بلاول کے دورے کی وجہ سے کسی معصوم بچے کی جان چلی جائے ہمیں کوئی پرواہ نہیں
نیلسن منڈیلہ کے’ مجھے کیوں نکالا “کے نعرے کی وجہ سے ایک دس سالہ معصوم ” مرسیڈیز بینز ” کے ٹائروں تلے کچل کے مارا جائے, ہمیں کوئی پرواہ نہیں.
ماڈل ٹاؤن میں دن دیہاڑے حاملہ عورتوں کے منہ میں کلاشنکوف رکھ کے گولیاں چلائی گئیں. ہمیں کوئی پرواہ نہیں.
ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ گولیوں کے سامنے بھون دیئے جاتے ہیں, ہمیں کوئی پرواہ نہیں
یہ تو بڑے بڑے واقعات ہیں. پروٹوکول پہ آجاتے ہیں. روزانہ ہزاروں منسٹرز, آفیسرز, ججز کے کانوائے گزرتے ہیں لیکن ہم   دم سادھے لائن میں لگ کے تپتی دھوپ میں بچوں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں لیکن اُف تک نہیں کرتے .
لیکن جب فوج کی باری آتی ہے تو ہم باؤلے ہو جاتے ہیں.
“بانکا ” بن جاتے ہیں
وہ فوج جو دن رات آپکی حفاظت کرتی ھے. 25000 تنخواہ لینے والا جوان جب تپتی دوپہر میں چولستان کے تپتے صحرا میں ٹین سے بنی 30 فٹ اونچی سیکیورٹی پوسٹ پہ آپ کی حفاظت کیلئے سارا دن دشمن کی چوکیوں پہ اپنی عقابی نظریں جما کے بیٹھتا ھے.صحرائی گرمی اور لو سے اس کے بدن پہ جو بیتتی ھے ,صرف وہی محسوس کر سکتا ہے. ہمارے جیسا 18 ڈگری میں بیٹھنے والا ,ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بھی گرمی کا رونا رونے والا اس تکلیف کو کیسے محسوس کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم ان سیاستدانوں کے پروٹوکول کے اتنے عادی ہو چکے ہیں اور ہم اب اس سٹیج پہ پہنچ گئے ہیں جس پہ میرے گاؤں کا کتا” بانکا ” پہنچ گیا تھا جو میرے پروٹوکول کے دور رس اثرات کو سمجھ گیا تھا اور مجھے دیکھ کے یو ٹرن لیکر  بھاگ جایا کرتا تھا اور دوسرے بچوں کو کاٹ لیا کرتا تھا.
خدارا ہوش کے ناخن لیجیے. یہ فوج ہماری ہے کسی ایک کے انفرادی فعل کو فوج پہ مت تھوپیے. یہ فوج ہے تو ہم ہیں. فوج کی عزت ہے تو ہماری عزت ہے.
اگر تم نے سازشی سیاستدانوں کی نفرت میں آ کے فوج کو کچل دیا تو یقین کیجئے
ہم سب عزتوں سمیت سر بازار نیلام ہوں گے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply