اب یہ کہیں ممکن تھا کہ جادُو اور وہ بھی عشق کا بھلا سر چڑھ کر نہ بولے گا تو پھر کیا قدموں میں آہ وزاریاں کرتا پھرے گا۔ وہ اِس میدان کی کوئی تجربہ کار کھلاڑی تو تھی نہیں← مزید پڑھیے
”ٹھیک سے بیٹھو۔گھبرا کیوں رہی ہو؟ اور ہاں شیشہ نیچے کرو۔ تمہیں ٹھنڈی ہوا لگے۔“ اُس نے شیشہ آہستہ آہستہ نیچے کیا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ سختی سے بھینچے ہونٹ یوں بند تھے جیسے کبھی نہیں کھُلیں گے۔← مزید پڑھیے
چٹا گانگ کے اِس اعلیٰ درجے کے چینی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے اُسے شدید خفّت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ایسے کھانے اور کھانوں کے یہ ایٹی کیٹس بھلا اُس نے کب دیکھے اور کہاں سیکھے تھے؟ وہ تو← مزید پڑھیے
علی الصبح جاگنے کے بعد اُس کا سب سے پہلا کام چٹا گانگ اپنی فرم کے مینجر شمس الدین عُرف گورا کو فون پر اطلاع دینا تھا کہ وہ آج تقریباً دو بجے چاٹگام پہنچ رہا ہے اور یہ کہ← مزید پڑھیے
اب ایسی بھی کوئی بات نہ تھی کہ وہ اپنی اِس گھبراہٹ اور بے چینی کو جویوں بیٹھے بٹھائے تپ ملیریا کی طرح یکدم اُس پر چڑھ دوڑی تھی کے پس منظر سے ناواقف تھا۔ ٹھنڈے پانی سے لبالب بھرے← مزید پڑھیے
اپنے گھر کے بیرونی تھڑے پر بیٹھا اور وہاں محفلیں سجاتا اب وہ اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایک تو اُس نے تاڑ جتنا قد نکال لیا تھا۔ دوسرے اب وہ کوئی ارمنی ٹولہ ہائی سکول کے چوتھے پانچویں درجے میں← مزید پڑھیے
اس ناول کا پس منظر متحدہ پاکستان کی سر زمین ہے جو کبھی اپنی تھی۔اس میں سابق مشرقی پاکستان کی جھلکیاں یقیناً آ پ کو محظوظ کریں گی۔ یہ نچلے متوسط طبقے کی لڑکیوں کی نا آسودہ خواہشیں، حسرتیں، خوابوں← مزید پڑھیے