• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( پانچویں قسط)۔۔۔علیم رحمانی

“پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( پانچویں قسط)۔۔۔علیم رحمانی

اب ہم تھے، نامعلوم منزل تھی، سائیکل تھی ، اورسائیں ماسٹر خدابخش جن کی ڈارائیورانہ مہارت سے یہ اندازہ لگانامشکل نہ تھاکہ ان کاسائیکل کے ساتھ رشتہ بہت پراناہے۔
اندرون سندھ کے سماج ،سماجی مسائل اور ان کے حل میں ایسے اسکول ماسٹر کاکردار نہایت ہی اہمیت کاحامل ہوتاہے جس پہ اگلی قسط میں روشنی ڈالی جائے گی،ابھی تواس بات کی داد دیجئیے کہ ہم بغیرکسی سابقہ شناسائی کے ماسٹر صاحب کے ساتھ سائیکل پہ عجیب وغریب پگڈنڈیوں سے گزرتے جارہے تھے ،کبھی جنگل آتاتوکبھی کھیت اور کبھی چٹیل میدان جیسی بنجر زمین۔شاید سودانےبرسوں پہلے ہماری ہی اس دیوانہ پن کی درست ترجمانی کی تھی:
دیوانے پن ھمارے کا گر ذکر چل پڑے
زانوپہ ھاتھ مار کے مجنوں اچھل پڑے

سورج غروب ہونے والاتھا اور ماسٹر صاحب سائیکل چلاتے ہوئے اپنے گاوں کے حالات اور لوگوں کے رویوں سے بھی مجھے مسلسل آگاہ کرتے جارہے تھے اور میں بھی دماغ میں ان کی خاکہ نگاری میں مصروف تھاکہ اچانک ماسٹرصاحب نے سائیکل روک دی اورمجھے بےبھی اختیار اترناپڑا.
میں نے چھوٹتے ہی پوچھا: سائیں خیریت؟
کہنے لگے : مولوی صاحب ۔۔۔!یہاں ایک اصحابی کی قبر مبارک ہے، آئیں زیارت کرکے چلتے ہیں۔
میں نے پوچھا: اصحابی یاصحابی؟
کہنے لگے وہ تومجھے پتہ نہیں مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک نبی کی قبر ہے اور بعض کہتےہیں کہ یہ کسی صحابی رسول کی قبر ہےیہاں اصحابی کے نام سے معروف ہےاور حقیقت حال تواللہ سائیں ہی جانتاہے۔
ہم نے سائیکل مزار کے باہر کھڑی کی اور جوتے اتار کر اندر داخل ہوئے توحیرت کے مارے ہمارامنہ کھلے کاکھلارہ گیاکہ اس مزار کاتعویذہی21 گز کابناہواتھاتواندر کاآدمی اگر کوئی تھاتوکتنالمباتڑنگاہوگاآج بھی اگر کوئی شخص زیل پاک فیکٹری سے جمالی گوٹھ کی طرف آئے تواس مزار کااپنے آنکھوں مشاہدہ کرسکتاہے۔
فاتحہ کے بعد پھروہی مشق ستم کہ سائیکل پہ جانب باغواہ نامی گاوں کی طرف روانہ ہوئے۔کچھ دیر چلنے کے بعد سائیں نے ایک بڑی ندی کے کنارے سائیکل روک دی اورہاتھوں کے اشارے سے بتایاوہ رہاہماراگاوں رشک کشمیر” باغواہ” ۔۔۔۔جبکہ ہم حیرت سے اس سوچ میں غلطاں کہ اس ندی کوپار کیسے کیاجائے؟اس دوران دور سے آذان مغرب کی آواز گونجنے لگی ابھی ہم اسی سوچ سے خود کونکالنے کی سعی کررہی رہے تھےکہ اتنے میں ہم نے دیکھاکہ ہمیں دیکھ کے اس پار سے ایک پرانی کشی آہستہ آہستہ ہماری سمت بڑھنے لگی اور یہ چند منٹوں میں ہمارے قریب کنارے سے آلگی سائیں نے سائیکل کے پیڈل سے اوپر کی خالی جگہ سے اپناسر نکال کے اسے کاندھے پہ فٹ کردیااور بسم اللہ کہہ کے دونوں ڈھولتی کشتی کے مسافر بن گئے۔ ملاح زور سے چپوہلانے لگااورکشتی آہستہ آہستہ ہچکولے کھاتے اس سمت کی طرف بڑھنے لگی
چند منٹ کے بعد ہم اس پارکھڑے تھے ذراوپر چڑھنے کے بعد اب چھوٹی سی پکی سڑک آگئی اور ہم تیسری مرتبہ اس شاہی سواری پہ سوار ہوگئے اب برابر کھیتوں کے درمیان سے ہم گزررہےتھے مگر اندھیرے کی وجہ سے یہ پتہ چلانامشکل تھاکہ وہ کس چیز کے کھیت ہیں
تھوڑی دیر بعد سائیں نے ایک کچے پکے گھر کے سامنے چھوٹے سے کچے صحن میں سائیکل روک دی جس پہ تازہ تازہ پانی کاچھڑکاو کیاگیاتھااور مٹی کی بھینی بھینی خوشبو مشام جان کوایک عجب تازگی عطاکررہی تھی اس خوشبونے ہمیں آنافانااپنے گاوں، اپنے گھرکے صحن میں پہنچادیاجہاں الحمدللہ والدہ صاحبہ آج بھی صبح سویرے پانی کاچھڑکاوکرتی ہیں جس سے مٹی کے ساتھ ممتاکی مہک بھی گھر کومعطر بنادیتی ہے ۔۔احباب دعاکیجئے کہ مالک دوجہاں میرے والدین کوسداسلامت رکھے۔۔آمین

مہمان کی آمد سے پہلے صحن کی صفائی اور پانی کے چھڑکاو کاخوش کن نظارہ اس بات کاپتہ دے رہاتھاکہ مکین نہ صرف مہمان کی آمد سے خوش ہیں بلکہ میزبانی کے لئےبھی تیار ہیں۔سائیکل سے اترے تو ہمارے انتظار میں بیٹھے مومنین نےچاروں طرف سے ہمیں گھیر لیااور سلام کے بعد سائیں یاعلی مدد کی گونج میں سب ہم سےاس طرح گلے ملنے لگے جیسے ہم برسوں کے شناساہوں ۔حقیقت بھی یہی تھی کہ ولایت علی سے بڑھ کر شناسائی اور اپنائیت کاحوالہ اور کیاہوسکتاتھا جس سے ہم مالامال تھے۔اس لئے کوئی اجنبیت محسوس ہی نہ ہورہی تھی اور بچے بھی اسی اپنائیت سے مل رہے تھے جس شفقت سے بزرگ میرااستقبال کررہے تھے۔
وہ کچاپکاگھر کوئی عام مکان نہ تھابلکہ اس چھوٹے سے گاوں کی امامبارگاہ تھی جہاں ہمیں نہ صرف عشرہ پڑھناتھابلکہ یہی گیارہ دن تک ہماری چوبیس گھنٹے کی قیام گاہ بھی تھی،ہمیں فوراامامبارگاہ کے اندر بچھی دری پہ بٹھادیاگیااور لوگ جوق درجوق یوں ہم سے ملنے آنے لگے جسے ہم کوئی اہم شخصیت ہوں یعنی ایک حقیر طالب علم ذکر مولاکے طفیل اچانک سے اہم بن گیاتھااور وہ ملنے کے قابل آدمی ہوچکاتھا۔
میں نے کن انکھیوں سے اس چھوٹی سی امام بارگاہ کے اندرونی حصے کاجائزہ لیناشروع کیاتوسب سے پہلے میری نگاہ دروازے پہ پڑھی جس کانچلاپٹ دستبرد زمانہ کاشکار ہوکر اپنی اصلی جگہ سے غائب ہوچکاتھاجب کہ اس کے بدلے ایک بہت بڑاسوراخ ہمارامنہ چڑارہاتھااور ہمیں یہ سوچ کے ھول آرہاتھاکہ اگر رات کوکوئی کتااندر گھس آیاتوہماراکام ہوگیاتمام۔۔۔۔۔!
امام بارگاہ کے ایک کونے میں دوڈھول نماوزنی چیزیں رکھی تھیں جو بجانے کی ہی چیز لگ رہی تھیں مگر ڈھول کی طرح دواطراف میں چمرے کی بجائے صرف ایک طرف چمڑالگاتھااور قیف کی طرح ایک طرف کوپڑی تھیں اس سے پہلے میں نے کبھی یہ چیزیں نہ دیکھی تھیں اور تازہ مہمان ہونے کے کارن کسی پوچھنابھی ہمیں مناسب نہیں لگ رہاتھا۔
اب وہ دوچیزیں کیاتھیں اور ہم نےرات کودروازے کا وہ سوراخ کیسے بند کردیا؟
یہ پڑھئیے ساتویں قسط میں ۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
21

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply