قیامِ امامِ حسینؑ کی مذہبی حرکیات۔۔۔صفدر جعفری

محرم کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف سمتوں سے آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں اور چودہ صدیوں پرانے گھسے پٹے اعتراضات نت نئے طریقوں سے اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے . ستم ظریفی یہ ہے کہ پیغام یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب دیانت داری اور مذہبی ذمہ داری کو انجام دینے کی کوشش ہے. یہ کوشش کرنے والے افراد یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کوشش کے ذریعے جو خدمت یزیدی و ناصبی فکر کے لیے انجام دی جارہی ہے اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ ہم جب بھی واقعہ کربلا کی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس ساری کوشش میں سب سے پہلے یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ اس واقعہ سے متعلق شخصیات ہیں کون اور خود ان کا مقام و مرتبہ عالمِ اسلام میں کیا ہے۔حیف ہے کہ وہ قوم جو بالعموم اصحابِ پیغمؐبر رضوان اللہ علیھم اجمعین کو خطا سے مبرا سمجھتی ہے وہی قوم واقعہ کربلا میں امامِ عالیؑ مقام کو مظلوم ہونے کے باوجود کٹہرے میں کھڑا کر کے تمام تر تجزیوں کے نشتر ان کی ذاتِ اقدس پر چلاتی ہے اور اسے خدمتِ دینی اور تحقیق قرار دیتی ہے۔دوسری طرف یہی قوم کسی بھی طریقے سے کسی ذاتی امتیاز کے نہ ہونے کے باوجود بھی خفیہ اور اعلانیہ یزید کو اس قضیے سے بچانے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے لیے کبھی تو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یزید خود کربلا میں موجود نہیں تھا یا اس نے حکم نہیں دیا تھا۔کبھی کبائرِ صحابہ کی یزید کی بیعت کو معاملہ اٹھایا جاتا ہے۔ایسا کہتے ہوئے انہیں نہ جانے حضرت عمر کا یہ فرمان کیوں بھول جاتا ہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تواس کا ذمہ دار میں ہوں . ایسے افراد کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ یزید فقط امامِ حسینؑ کا قاتل نہیں تھا بلکہ مدینہ میں خونریزی اور بیت اللہ کو جلانے اور اس پر فوج کشی کی کوشش کا ذمہ دار بھی تھا. ایسے صاحبان بڑے ہی زعم علمی سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بعض شخصیات نے امام کو کوفہ جانے سے منع کیا تھا لیکن یہ کہتے ہوئے معلوم نہیں کیوں شرماتے ہیں کہ انہی “شخصیات” نے واقعہ کربلا کے بعد یزید کی بیعت توڑ دی تھی۔

ان فرسودہ اعتراضات کے ساتھ ہی آج کل بعض دوستوں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ یزید اپنے تمام تر ظلم و جہالت کے باوجود چونکہ طاقتور حاکم تھا، لہٰذا سید الشہدا نے قیام کرنے کی راہ اختیار کر کے معاذاللہ غلطی کا ارتکاب کیا. ایک دوست تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ”اندھا دھند ایمان کے زعم میں جنگ میں کود پڑنے کا حکم قرآن نہیں دیتا”. لہٰذا بہتر یہی لگتا ہے کہ اس ضمن میں قرآنِ کریم سے ہی سوال کیا جائے کہ جب کوئی ظالم و جابر گردنوں پر مسلط ہو جائے تو ایسے میں کیا کیا جانا چاہیے. سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 195 میں خداوندِ متعال کا ارشاد ہے کہ ” پھر وہ لوگ کہ ہجرت کی انہوں نے اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور لڑے اور مارے گئے البتہ دور کروں گا میں ان سے برائیاں ان کی اور داخل کروں گا ان کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں۔ ۲۹۸ یہ بدلہ ہے اللہ کےہاں سے اور اللہ کے ہاں ہے اچھا بدل” ۔میں یہاں ان دوستوں کی خدمت میں سوال کروں گا کہ یہ فرمائیں کہ بیعت کا مطالبہ اور اس مطالبہ کو نہ ماننے کے نتیجے میں قتل کی دھمکیاں کس نے دی تھیں. تاریخ گواہ ہے کہ فقط اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ جب امامِ حسینؑ نے مکہ ہجرت فرمائی تو وہاں حاجیوں کے لباس میں دہشتگرد بھیجے گئے کہ وہ امام کو عین حج کے دوران قتل کر دیں. قرآن تو کہتا ہے کہ جنہوں نے ہجرت کی،اور جہاد کیا اور شہید کیے گئے تو ان کے لیے خدا کی طرف سے ثوابِ آخرت ہے یہاں دوست فرماتے ہیں کہ قرآن انسانوں کو چپ چاپ ظلم برداشت کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔

سورہ مبارکہ نسا کی آیت نمبر 75 دیکھیے کہ جہاں پر صریح انداز میں خداوندِ متعال حکم دے رہا ہے ظالموں سے جہاد کا. “اور تم کو کیا ہوا کہ نہیں لڑتے اللہ کی راہ میں اور ان کے واسطے جو مغلوب ہیں مرد اور عورتیں اور بچے جو کہتے ہیں اے رب ہمارے نکال ہم کو اس بستی سے کہ ظالم ہیں یہاں کےلوگ اور کر دے ہمارے واسطے اپنے پاس سےکوئی حمایتی اور کر دے ہمارے واسطے اپنے پاس سے مددگار “. معلوم نہیں حبِ یزید یہاں کیا موشگافیاں دکھائے اور اس آیت کی کیا تاویل کی جائے. ہمیں تو یہاں قرآن کا واضح پیغام دکھائی پڑتا ہے کہ خداوندِ متعال مظلوموں کی حمایت و نصرت کے لیے مومنین کی غیرت جگانے کی کوشش کر رہا ہے.اسی سورہ کی آیت نمبر 74 کو دیکھیے کہ جہاں خدا ارشاد فرماتا ہے کہ ” جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پا لے یا غالب آجائے، یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت فرمائیں گے”. کیا کسی کو شک ہے کہ حسین علیہ السلام نے آخرت کی زندگی کو دنیا کی زندگی پر ترجیح دی ہے. میں یہاں پر سید الشہدا امام حسینؑ کے مقام کو واضح کرنے کے لیے ایک حدیث پیش کروں گا .

حضرت ام فضلؓ ایک دن بارگاہ رسالت مآب ﷺ حاضر ہوئیں۔ حضرت امام حسینؑ کو ان کی گود میں دیا پھر میرا دھیان بٹ گیا۔ اچانک دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے نبی اللہﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہو جائیں ۔یہ کیا ہے؟ فرمایا میرے پاس جبریل امین آئے اور مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس فرزند کو قتل کر دے گی۔ میں نے عرض کیا ۔ ان کو۔ فرمایا ہاں اور وہ (جبریل )میرے پاس وہاں کی سرخ مٹی میں سے کچھ مٹی لائے ۔ ( دلائل النبوۃللبیہقی، حدیث نمبر:-2805مشکوۃ المصابیح ،ج1 ص 572، زجاجۃ المصابیح ج 5ص227/228: باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم )

Advertisements
julia rana solicitors

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو آپ کی زندگی میں ہی امامِ مظلوم کی شہادت کی خبر عطا فرما دی گئی تھی ۔تو کیا رسولِ اکرم کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ سیدنا امام حسینؑ کو سمجھاتے کہ بیٹا تمہارے پاس اتنی طاقت اور قوت نہیں ہو گی کہ جہاد کر سکو یا یہ سمجھاتے بیٹا تمہارے اوپر خواہ جیسا بھی ظالم و جابر حکمران مسلط کر دیا جائے تم صبر کرنا. اگر رسولِ اکرم ﷺ نے دین کا یہ پہلو اسی نواسے کو نہیں سکھایا جس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ وہ جنتی جوانوں کے سردار ہیں (ترمذی) اور فرمایا کہ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ حسینؑ حق و حقانیت کا پرچم بلند کریں، پھر چاہے اس راستے میں مظلومانہ شہادت ہی کیوں نہ نصیب ہو جائے۔

Facebook Comments

صفدر جعفری
خود اپنی تلاش میں سرگرداں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply