پانامہ کیس کا ڈرامائی اور فریقین خاص طور پر اپوزیشن کے لئے غیر متوقع فیصلہ دونوں جماعتوں کو مکمل طور پر مطمئن تو نہیں کرسکا لیکن نواز حکومت کو کچھ مہلت ضرور دے گیا۔ یقین ہے کہ یہ مہلت کسی نہ کسی بہانے آئندہ عام الیکشن تک ملتی رہے گی تا کہ یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے۔دوسری طرف ڈان لیکس کی باضابطہ رپورٹ آج منظر عام پر لائی جائیگی لیکن اسکے مندرجات میڈیا کے ذریعے عوام تک تو پہنچ ہی چکے ہیں۔دیکھا جائے تو ان دونوں معاملات کے درمیان ایک ربط نظر آتا ہے۔وہ یہ کہ ادارے نہ خود کسی مہم جوئی کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی انتشار کے ماحول کو پنپنے دینا چاہتے ہیں۔ہماری بدنصیبی یہ رہی کہ عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو گھر بھیجنے اور پھر اقتدار پر قابض ہونے کی روایت نے ہمارے سیاستدانوں کے ذہنوں کو آمریت زدہ کردیا یہ ہی وجہ ہے کہ ہربار اپوزیشن کی سماعتیں”عزیز ہم وطنوں” کی آواز سننے کو بے تاب رہیں۔یہ عمل جمہوریت کے لئے تو نقصان دہ رہا ہی، دوسری طرف ہماری خارجہ پالیسی بھی باربار تبدیل ہوتی رہی۔ہماری عالمی تنہائی کے پیچھے ایک یہ عمل بھی کارفرما ہے۔
چونکہ عمران خان کی پرورش بھی اسی سیاسی ماحول میں ہوئی جہاں نگاہیں غیرجمہوری قوتوں کی متلاشی رہتی ہیں ، لہذا وہ بھی انہیں ہتھکنڈوں کو بروئے کار لائے جن سے حکومت گرائی تو جاسکتی ہے حاصل نہیں کی جاسکتی۔تحریک انصاف کی توقعات بھی امپائر کی انگلی اور اداروں سے ہی رہیں۔یہ لوگ اس سپریم کورٹ سے بھی اس ہی طرح کا نتیجہ چاہتے تھے جس طرح کا فیصلہ افتخار چوہدری کی عدالت سے آیا تھا۔توقعات کے برعکس فیصلہ آنے پر اب یہ شش وپنج میں مبتلاہیں کہ یہ انگور کھٹے ہیں یا میٹھے؟ یہ ہی حال ڈان لیکس پر آنے والی متوقع رپورٹ پر بھی ہوگا کیونکہ اس سے بھی انہوں نے اچھی خاصی امیدیں وابستہ کرلیں تھیں لیکن اس تھالی میں بھی انکے لئے کچھ میٹھا نظر نہیں آرہا۔اب یقیناً خان صاحب احتجاجی سیاست اور گونواز گو کے نعرے میں شدت لانے کی کوشش کرینگے اور ہوسکتا ہے کہ دھرنےکی ایک آدھ قسط مزید دیکھنے کو مل جائے کیونکہ خان صاحب سے کوئی بعید نہیں وہ ڈی چوک کا کہہ کر پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑے تھے اور ایوان کو چور کہہ کراسی ایوان کی کرسی پر بھی تشریف فرما ہوچکے ہیں۔
خان صاحب کو اب اتنا تو سمجھ ہی لینا چاہئے کہ جس ملک میں ذاتی ناپسندیدگی اور انا کی بنیاد پر تختے الٹ دیئے جاتے تھے وہاں اب بدترین کرپشن اور حساس خبروں کے افشاء ہوجانے پر بھی ادارے چاہے وہ فوج ہو یاعدلیہ،اپنے دائرہ اختیار میں ہی کام کررہے ہیں،اپنی حدود سے تجاوز نہیں کررہے،باوجود اس کے کہ اس صورتحال میں ادارے اپنا کردار ادا کرسکتے تھے لیکن جمہوری عمل کی بقاء کی خاطر حکومت کو کسی آزمائش میں ڈالنے سے گریزاں ہیں اور حکومت کو پورا موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی آئینی مدت پوری کرے۔جس کا واضح مطلب یہ ہی ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے مسلسل چلنے والا جمہوری سفر اب کسی غیر جمہوری طریقے سے اپنا راستہ تبدیل نہیں کرے گا اور تبدیلی صرف ووٹ کی طاقت سے ہی ممکن ہوسکے گی جس کے لئے الیکشن کا انتظار بہرحال کرنا ہی ہوگا۔مانا کہ یہاں پر چور دروازوں سے آنے کا چلن تھا لیکن خان صاحب آپ دیر سے آئے اب ریت بدل چکی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں