• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میرے مقدس جذبوں کو سیاست کی نظر نہ کیجیے۔۔محمد منیب خان

میرے مقدس جذبوں کو سیاست کی نظر نہ کیجیے۔۔محمد منیب خان

پچھلے وقتوں میں ہتھیار تیار رکھے جاتے تھے، طبل بجتا تو سورما میدان جنگ میں جمع ہو جاتے، گھمسان کا رن پڑتا۔ فاتح لاشیں سمیٹتے، جیت کا نغمہ گاتے واپس لوٹتے۔ شکست خوردہ لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ زخموں پہ پھاہا رکھتے، ہار کےمرثیے پڑھتے۔۔۔ جنگ کا ایک اصول ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کو ہارنا پڑتا ہے۔ ممکن نہیں کہ دونوں ہی فاتح ہوں البتہ ایک فریق ڈھیٹ بن کر شکست کو تسلیم کرنے سے چاہے انکار کردے۔ اب دور حاضر میں سوشل میڈیا پہ جنگ کا طبل نہیں بجتا۔ بس جنگ ہوتی ہے، الفاظ کی جنگ، سرد لہجوں کی جنگ، انا کی جنگ۔ ہم اس میدان جنگ میں روز کودتے ہیں۔ ہر روز کسی نئے محاذ پہ پرانےسپاہی نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ورطہ حیرت ہوں، آئے روز متفرق موضوعات کے محاذ پہ سپاہی کس طرح اتنی بے جگری سے لڑ لیتے ہیں۔اتنی توانائی کہاں سے دستیاب ہوتی ہے؟

سوشل میڈیا پہ آئے روز جنگ ہوتی ہے، اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگ۔ سیاسی، مذہبی اور مسلکی جنگ تو کسی بھی وقت شروع کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے نئے محاذوں کی اتنی بہتات ہے کہ کبھی کسی پرانی جنگ کی راکھ کریدنے کی ضروت نہیں پڑتی۔ اسی طرح سوشل میڈیا پہ ایک حالیہ لفظی جنگ کا آغاز مولانا طارق جمیل صاحب کی اس دعا کے بعد ہوا جو انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کی طر ف سے کرونا کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے منعقد کی جانے والی ٹرانسمیشن کے دوران مانگی۔ دعا کے بعد ایسا طوفان اٹھا کہ شایدہی کوئی اس کے اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ کسی کو دعا کے الفاظ پہ اعتراض ہوا اور کسی کو میڈیا بارے رائے پہ، بہت سوں کے دل میں علما کی عزت کا خیال جاگا اور کئی ایک اس صورتحال سے محض مضطرب رہے۔

دعا، التجا ہوتی ہے۔ یہ بیک وقت مالک کے سامنے گناہوں کا اقرار بھی ہے اور اپنی چاہت اور طلب کا اظہار بھی۔ یہ تجربہ تو ان فراد کا ہوگا لیکن ممکن ہی نہیں کہ اگر آپ دعا مانگتے ہوئے خود کو خدا کے سامنے پائیں اور آپ اپنے  گناہوں کا اظہار نہ کریں اور ندامت کےآنسو نہ بہائیں۔ یہ تعلق ہی ایسا ہے کہ اس مقام پہ انسان خود کو بے بس پاتا ہے۔ لہذا وقت دعا ایسے  گناہوں کو یاد کرنا جو دانستہ یا نہ دانستہ ہوچکے ہوں میرے نزدیک ایک فطری عمل ہے۔ دانستہ گناہوں کا تو انسان کے اندر ایک رجسٹر بنا ہوتا ہے لیکن نادانستہ گناہ تو یاد بھی نہیں رہتے لہذا ان پہ زیادہ ندامت ہونا بھی اکثر فطری ہے۔ مولانا طارق جمیل سے بھی کم و بیش یہی واقعہ سرزد ہوا۔انہوں نے اجتماعی طور پہ سارے گناہوں کی معافی مانگی۔ البتہ ہر دعا، ہر واقعہ اور ہر فورم کی نہیں ہوتی۔ اگر قوم کسی کواجتماعی دعا کے لیے کہتی ہے تو اس میں کسی ایک طبقے کو گنہگار کہنا یقیناً ناگوار بات ہوگی۔ قوم میں ہر طبقہ اور فکر کے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر آج خواتین کی بے حیائی یا میڈیا کے جھوٹ کو وبا کی وجہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو گزشتہ کئی سو سالوں میں آنےوالی وباؤں کی وجوہات کہاں سے تلاش کی جائیں گی؟ یہ بحث طویل بھی ہوگی اور لاحاصل بھی۔ خدا کا قانون یہ ہے کہ انسان کومختلف ادوار میں وباؤں کاسامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ لہذا صرف اجتماعی توبہ کے ساتھ ساتھ اجتماعی اصلاح کا پیغام دینا ہی مناسب بات ہے۔

پاکستانی سیاست میں مذہب کی آمیزش آج کل کی بات نہیں، بلکہ یہ گزشتہ پینتالیس سال کے واقعات کا خراج ہے جو ہم وصول کررہے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت انسان کا انفرادی معاملہ ہے۔ کسی کا دل خشیت الہی سے  کتنابھرا ہوا ہے اس کا پتہ کسی دوسرے انسان کو نہیں لگتا۔ یہ بندے اور اسکے رب کا معاملہ ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری خطبے میں فرمایا کہ فضیلت کا اصل معیار تقویٰ ہے۔ یہ تقوی ٰمحض عبادت سے حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ مکمل زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ لہذا واضح عبادات کے باوجود کون رب کے ہاں کتنا افضل ہے اس کا نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ البتہ سب کےبارے میں خوش گمانی رکھنا افضل اور بہتر ہے۔ یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا بھی ہے۔ گو اب کچھ تنظیموں اور جماعتوں نے عشق رسول کے بھی معیارات اور پیمانے بنا دیے ہیں اور اس سے کم والے کو “وہ” عاشق ماننے کو تیار نہیں ہوتے لیکن محبت کے سارے معاملے دل کے ہوتے ہیں۔ لہذا یہ معاملہ بھی رب، اس کے آخری نبی اور امتی کے درمیان ہی ہے۔ البتہ ہمیں  اس بارے بھی خوش گمانی رکھنی چاہیے۔

یہاں تک تو ساری بات شاید قابل فہم بھی اور قابل تسلیم بھی  ہے،لیکن مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ان مقدس جذبوں اور مقدس محبتوں کی بنیاد پہ کوئی زندگی میں کسی فائدے، رعائت یا کسی عہدے کا طلبگار ہو جائے۔ تو کیا اس کو وہ دے دیا جائے؟ یا ایک دوسری صورت میں کوئی قابل عزت مذہبی راہنما میری خشیت الہی اور حب رسول صلی اللہ وسلم کی گواہی دے کر کوئی دنیاوی مفاد یا دنیاکی رعایت مانگے تو کیا مجھے وہ رعیت مل جانی چاہیے؟ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جس عمل کے نتیجے کی بنیاد پہ آخرت میں کامیابی طلب کرنی چاہیے ہم دنیا میں اس کے نتیجے میں کامیابی کو طلب کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں رب سے کتنا ڈرتا ہوں یا میرے اندرعشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا جذبہ ہے میرے ماتحت، کولیگز یا دوسرے متعلقین کو اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے؟ ان کوتو میرے اس عمل سے غرض ہوگی کہ میرا انکا کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ میں اپنے کام میں کتنا ایماندار ہوں۔ یہی حال کسی سربرا ہ حکومت کا بھی ہوتا ہے۔ عوام کو کیا غرض کوئی کتنا درد دل رکھنے والا ہو، انصاف پسند یا راتوں کو اٹھ کر خوفِ خدا سے رونے والاہو، اگر بطور عوام مجھے انصاف نہیں مل رہا، میرے دکھ کا مداوا نہیں ہو رہا تو میں عاجزانہ سوال کروں گا آپ کو آپ کے مقدس جذبے مبارک، یقیناً اس کا صلہ آپ کو آخرت میں ملے گا۔ لیکن میرے یعنی عوام کے لیے آپ کے پاس کیا ریلیف ہے؟؟؟ دنیا کے دفتر میں دنیا کا مال پیش کریں، آپ کے سارے مقدس جذبوں اور محبتوں کا صلہ رب آپ کو دے لیکن مجھے اصلاحات چاہیے وہ اصلاحات جنکا آپ نے وعدہ کیا تھا۔ اگر وہ اصلاحات نہیں کر سکے تو عوام آپ کی وعدہ خلافی کو یاد رکھے گی خشیت الہی کو نہیں۔ بلکہ ان مقدس جذبوں کا مذاق بنایا جائے گا۔ ریختہ پہ اطہر نادر کا خوبصورت شعر نظر سے گزرا۔

آدمی کا عمل سے رشتہ ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

کام آتا نہیں نسب کچھ بھی!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply