اقوامِ متحدہ میں تنہا پاکستان ؟۔۔۔ عبدالحنان ارشد

اقوامِ متحدہ کا 72 اجلاس نیویارک میں منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے تقریر کے دوران جہاں دنیا کے سامنے پاکستان کا سوفٹ امیج پیش کرتے ہوئے بتایا پاکستان سرحد پار دہشت گردی نہیں کرواتا بلکہ سب سے زیادہ سرحد پار سے دہشت گردی کا شکار ہونے والا ملک پاکستان ہے۔ جس پر کبھی مشرقی سرحد پر سے حملہ کر دیا جاتا ہے تو کبھی اسے مغربی سرحد سے تنگ کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں امن کے لئیے سب سے زیادہ کوشاں پاکستان ہے۔
3ملین افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دینا اس بات کا ثبوت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے۔ کس طرح بھارت وہاں مظلوم نہتے لوگوں کے ساتھ ظلم بربریت کی روش اپنائے ہوئے ہے۔
پاکستان کشمیر کی بات کرے اور بھارت اسے چپ چاپ ہضم کر لے ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ دو دن بعد جنرل اسمبلی میں ششما سوراج نے یو این میں پاکستان کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا آپ نے کالعدم تنظیمیں بنائی ہیں،تاکہ دہشت گردی کو پروموٹ کر سکیں۔
پاکستان کے خلاف کی گئی باقی باتیں اپنی جگہ لیکن ایک بات واقع لمحہ فکریہ ہے ،جب ششما سوراج نے کہا “پاکستان کے سیاستدان سوچیں، بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ آج بھارت کی دینا بھر میں پہچان ایک آئی ٹی کے سوپر پاور کے طور پر بنی ہے۔ لیکن پاکستان کی پہچان ایک دہشت گرد ملک کے روپ میں بنی ہے، بھارت نے ڈاکٹر، سائنسدان، انجینئر بنائے جب کہ پاکستان نے دہشت گرد بنائے”

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان جنرل اسمبلی میں تنہا نظر آیا۔ جس کے خلاف 3 رائٹ تو ریپلائی اٹھائے گئے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کی جانب سے۔ بنگلہ دیش نے 71ء والے واقعات کا ذکر کیا تو افغانستان اور بھارت نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے علاوہ چین نے بھی ہماری دوستی کا کچھ خیال نہیں رکھا۔ اور کہا کشمیر وال معاملہ اس کا اپنا معاملہ ہے اور خود ہی اسے حل کرے۔شاید آپ کو یاد ہو اڑی حملے کے بعد، بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کا بیان دیا تھا۔ ہم نے اس بیان کو گیڈر بھبھکی سمجھا اور توجہ نہ دی۔
بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط اور اس حد تک موثر بنا لیا ہے کہ کوئی ملک اُس کے خلاف جانے کا نہیں سوچ سکتا اور وہ پاکستان کے خلاف جیسا بیان چاہتا ہے ان سے دلوا لیتا ہے۔ اس کا اندازہ برعکس(BRICS)اعلامیے اور اب جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد بخوبی کر سکتے ہیں۔ بھارت اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔
اور ایک ہم ہیں۔۔۔اگر ہم بھی کشمیر کے مسئلے کو اپنے مقصد کے لئیے استعمال کرنے کے بجائے ٹھیک طرح سےدنیا کے سامنے اٹھاتے تو شاید ہمیں جنرل اسمبلی کے سامنے دہشت گرد ملک کہہ کر نہ پکارا جاتا۔
جیسے سوئز لینڈ میں بلوچستان کو مسئلہ بنا کر اچھالنے کی کوشش کی گئی، کاش ہم 70 سال سے کشمیر کے جائز مسئلہ کو ایسے اٹھا سکتے۔ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط اور مربوط کرنے اور ہمسائے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply