خونخوار خدائی

مطالعہ طبیعیات و حیاتیات سے نویافتہ الحاد قلب و فکر میں مستقل دھماکے پبا کئے رہتا ہے جستجو، عدم اطمینان، کھوج در کھوج، سوال در سوال، تلاش در تلاش کا عذاب زندگی کو ہنگامہ خیز بنائے رکھتا ہے عاصم بخشی کہتے ہیں
جواب مانگتا تھا سوال دے دیا گیا
تلاش در تلاش کا وبال دے دیا گیا
جب کہ رویوں سے افزودہ الحاد کسی مسکن دوا کا کام دیتا ہے. دنیا کے بہترین نظریات اگر دشنام پر منتج ہوتے ہیں پھر کھوج کیوں کی جائے.. فکر کا ہر در بند کرکے”نہیں جاننا” جیسے کیف آگیں ردعمل کی خوابگاہ میں ذوق طلب کو مردم گزیدگی اور خوں خوار نظریات (مذاہب) کی دی ہوئی ٹیسوں کی تھپکیاں دے کر خواب عدم پر کیوں نہ مجبور کیا جائے؟
” در در سوال کی خجالت کا ثمرہ شعور کی نمو ہے.”;
یہ میرے حق میں ایک کھلا جھوٹ ثابت ہوا
شاد کہتا ہے
دیا ہے درد خدا نے، خدا کے بیٹوں نے
گھرا ہوا ہے بدن آگ کی لپیٹوں میں

Advertisements
julia rana solicitors

شاد مردانوی

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply