قصہ ایک “سُوٹ” کا
ثمینہ رشید
کبھی کبھی ہمیں یوکے میں رہنے کے نقصانات کا اندازہ ہوتا ہے تو دل چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ، پرائے دیس سے اپنے دیس جا پہنچیں۔ کیا فائدہ ایسے دیس میں رہنے کا جہاں کی صبح پاکستانی صبح کے پانچ گھنٹے بعد ہوتی ہے۔ جب تک آنکھ کھُلتی ہے تو وطنِ عزیز کی کئی خبریں باسی ہو چکی ہوتیں ہیں۔ لیکن کیا کیجئیے کہ وطن کی محبت میں بی بی سی دیکھنے اور میٹرو پڑھنے سے پہلے اپنے اردو اخبار پہ ایک نظر ڈالنا اور فیس بک پہ دوسری نظر ڈالنا فرضِ عین خیال کرتے ہیں۔کم از کم فیس بک پہ کچھ لوگوں کے اسٹیٹس پڑھ کے اندازہ ہوتاہے کہ فیس بکی دانشوروں کے نشانے پہ کون ہے۔
ایک صبح جو آنکھ میری کُھلی تو ہر طرف غیر اسلامی و غیر شرعی سوٹ کا بڑا شہرہ تھا۔ کیا کیجئیے جناب ایک زمانہ تھا کہ پیرہن صرف مہ وشوں کے حوالوں سے ہی بات چیت کا موضوع ہوا کرتے تھے مثلا ًفیض نے کہا تھا
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گُل ہےتمہارے بام پر آنے کا نام
لیکن عجب دور ہے کہ آج ایک حضرت کے لباس کا ہر جگہ ذکر تھا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جب سائنسدان مریخ پہ زندگی کی تلاش میں ہیں ،ہمارے وطن عزیز میں ایک مردِ جواں کو اپنی پسند کا لباس پہننے پہ ایسی تنقید جیسے چائے کی پیالی پہ طوفان اٹھا دیا جائے۔ فیس بک کی دیوار در دیوار پہ سُوٹ کی پکار ایسی اُٹھی کے کراچی سے کشمیر تک بس ایک ہی گونج تھی۔ کسی زود پشیماں نے تو کیا پشیمان ہونا تھا ،یہاں بچارے مظلوم کو خود ہی ظالم کو سرِ عام معافی دینا پڑگئی کہ رسمِ دنیا ہی کچھ یوں ہی ٹھہری کہ ،
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
حکمت کے نام پہ اس طرح کا عجیب مضحکہ خیز واقعہ دیکھنے کو ملا کہ بس نہ ہی پوچھیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کسی کسی نے ہی حکیم الاسلام سے مخالفت کی جرات کی ،ورنہ ہر دوسرا شخص جُھک جُھک کےآداب بجا لاتا رہا ،کیوں کہ زبانِ خلق کو نقّارہِ خدا سمجھو تو، مشہور تو یہی ہے کہ حکمت کے دعویدار کو مخالفت پہ ترکِ دوستی کی پرانی عادت ہے۔ خیر سُوٹ کی پکار سنتے سنتے تو کچھ عجب حال ہوا ،اور ایسا لگا کہ ہم وطنِ عزیز پہنچ گئے ہیں اور کیا دیکھتے ہیں کہ مملکتِ خداداد میں نظریاتی لوگوں کی حکومت آگئی ہے ۔ہم غریب الوطن جو پہنچے تو دیکھا کہ وطن عزیز میں ہر چیز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ گھروں میں کپڑوں کی الماریاں اسلامی و شرعی اور غیر شرعی وغیر اسلامی کپڑوں میں منقسم ہیں اور ان کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا ہے تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی کپڑے ایک دوسرے سے حتی الامکان دُور رہیں اور گھر میں کسی قسم کے نقص امن کا خطرہ نہ رہے۔
بازار گئےتو دیکھا شرعی اور غیر شرعی ملبوسات و لوازمات کے بازار الگ الگ ہوچکے ہیں۔ایک طرف پُر نور داڑھیوں والے خریدو فروخت میں مشغول ہیں تو دوسری طرف انگریزی اسٹائل والے لوگوں کی چیزوں کی بہار۔ ہم سر پہ حجاب لئیے مغربی طرز کی مارکیٹ میں قدم رکھنے کو ہی تھے کہ ایک محافظ نے راہ روک کہ کہا کہ آپ کے بازار سڑک کے دوسری طرف ہیں۔ ہم حیرت سے ان کو دیکھ کر رہ گئے،انہوں نے مزید فرمایا کہ اس حلیے میں آپ اس بازار میں داخل نہیں ہوسکتیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ تو خیر بازار تھا بسوں، رکشہ اور ٹیکسی وغیرہ بھی اسلامی اور غیر اسلامی میں تقسیم نظر آئیں۔ ایک طرف سبز رنگ کہ رکشہ اور ٹیکسیاں تو دوسری جانب سیاہ رنگ۔ حتیٰ کے ٹرینوں کے ڈبوں کو بھی الگ کرکے واضح کیا گیا تھا ۔سبز ڈبے میں جاء نماز، تسبیحیں اور لوٹوں (سیاسی لوٹے نہیں) کی بہار تھی تو دوسری جانب وائی فائی ،ٹی وی اور میوزک کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ہم وطنِ عزیز کی اس حالت پہ حیران و پریشان واپسی کا قصد کرکے ائرپورٹ پہنچے تو دیکھا کہ طیارہ بھی آدھا سبز اور آدھا وائٹ ہے ۔پتہ کرنے پہ معلوم ہوا کہ اسلامی اور لبرلز کی تقسیم طیارے میں بھی کی گئی ہے۔ یہ سن کر ہم نے ایک چیخ بلند کی تو آنکھ کھلنے سے پتہ چلا کہ شکر ہے یہ محض ایک خواب ہی تھا ۔
خیر خواب تو خواب تھا لیکن لباس کا قضیہ ہے کہ سوچ سے نکلتا نہیں ۔ سوچتی ہوں یہ اسلام کی کونسی قسم ہے کہ جس میں لباس کا مقصد ستر پوشی نہیں کسی خاص طبقے سے اپنے آپ کو مربوط ظاہر کرنا رہ گیا ہے۔ اب کیا لباس بھی رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ ہوگا اور لبرل و قدامت پسند ہوگا کہ ایک نظرئیے والا دوسرے نظرئیے کے طرز کا لباس پہنتے ہی اپنے نظریاتی طبقۂ فکر سے اُٹھا کہ باہر پھینک دیا جائے گا۔ جائیے جناب اورپہنیے لبرلز کا لباس آپ کو مدرسے سے ،میرا مطلب ہے آپ کو ہمارے نظریاتی اسکول سے فارغ کیا جاتا ہے۔ افسوس اکبر الٰہ آبادی اس دور میں زندہ نہیں ورنہ اس صورت حال پہ شاعری کہے بغیر نہ رہتے۔
افسوس ہم نہ اکبر الٰہ آبادی ہیں اور نہ انور مسعود کے شاگرد ۔ ہاں البتہ اس صورتحال پہ فکرمند ضرور ہیں آپ ہی کچھ بتائیے دوستو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں