نیا عہد نامہ۔۔اجمل صدیقی

اب اس کا نام بھی لکھتے
ڈر لگتا ہے
کہیں لفظوں کی راکھ سے
نہ اُٹھ بیٹھے وہ
اس نیلے دھبے کو کیا ہو گیا ۔۔۔
اک خوربینی بلا سے ۔۔۔

اک جراثیمی آفت
ایک نادیدہ ہاتھ ۔
کسی ناول کا سین
کسی مووی کا منظر
کسی ایلئن کا حملہ ۔۔
اتنا حقیقی ہے کہ مصنوعی لگتا ہے۔
مرنے سے ڈرتا ہے بچانے والا ۔بھی
سننے والا بھی اور سنانے والا بھی
رومان ہیجان بن گیا ہے
ہیجان ہذیان بن گیا ہے
ساحل کے کھیل تماشے بھولنے لگے ہیں
تابوت بھی اپنے لاشے بھولنے لگے ہیں
وہ برفباری میں حسینوں کے بدن کی آنچ
وہ غرور حسن، وہ بے نیازی
وہ اندیشوں سے پاک قہقہے
وہ مے خانوں کی ہاؤ ہُو
وہ اضطراب و آرزو ۔
وہ کج ادا، وہ دراز گیسو
وہ شیریں لب ،وہ لالہ رو
خوف سے سب کی وریدیں ابھر آئی ہیں ۔۔۔

خوف سے قدم نہیں اٹھ رہے ۔
بخار اور کھانسی
جیسے کوئی پھانسی ۔
ہر واقعے سے حادثے کی تعبیر
اپنے سانس بھی اک تعزیر

عقل دعا سے روکتی ہے دل کھینچتا ہے
میرے اندر مجھے کوئی اور بھینچتا ہے
اپنے اندر میں نہیں کوئی اجنبی ہے
میری ہر اک جنبش میکانکی ہے
اک بے دلانہ احتیاط ہے
نہ امید ہے نہ انبساط ہے
کچھ دور جاتا دکھائی دیتا ہے
کچھ قریب آتا دکھائی دیتا ہے
دوسروں کو حوصلہ دے کے ڈر جاتا ہوں
اک پل جیتا ہوں دوسرے پل مر جاتا ہوں

سائرن کی آواز ۔۔۔

آدھی رات ۔۔۔سنسان چوک ۔
آپس میں  لڑتے کتے ۔۔۔وہ کرنجی آنکھیں ۔۔۔
ایمبولینس ۔۔۔۔ونٹی لیٹر۔۔۔۔قرنطینہ ۔۔

مریض اور طبیب سب یکساں لباس ۔۔
ایک جیسا خوف۔۔۔ ایک جیسا ہراس ۔

کیا یہ جہاں بدلنے والا ہے ؟
کیا یہ جہاں پگھلنے والا ہے
کیا یہ انسان کی آندھی قوت کا احتساب ہے
کیا فطرت کا انتداب ہے
کیا فطرت کی نئی کروٹ ہے
کیا انسان کی گراوٹ ہے
کیا اس کیڑے کا یہی انجام یے
تاج محل بنانے کی جزا ہے
کھوپڑیوں کے مینار کی سزا ہے
کسی یتیم کی بدعا ہے؟
کسی قلب مضطرب کی آہ ہے
کسی معذور کی کراہ ہے
کسی معصوم کے ریپ کا عذاب ہے
کسی بیوہ کا خواب ہے
یہ تاریخ کی گردش ہے
سیاست کی سازش ہے
خوف کی سرد لہر ہے
فطرت کا تلون ہے
معیشت کا طلسم ہے
حشر ہے ،یا جہنم ہے
میرے نفس کا فتور ہے

نئے انسان کا ظہور ہے۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ جو اہرام مصر میں سو یا تھا
وہ کسی اجرام فلکی میں اٹکا ہوا ہے
وہ جو کسی سپرم میں بیٹھا تھا
وہ جو معلوم اور نا معلوم میں لٹکا ہوا ہے۔
میں شعور کے کٹہرے میں ہوں
میں فنا کے پہرے میں ہوں
لاشعور کی چکی مہیب شکلیں بنا رہی ہے
لا انسان کی بتی شمع دل بجھا رہی ہے
آسمان دور یے
زمین بے نور یے
کائنات کے اندھے کنواں میں لٹکا ہوا
مین زندگی کی سرکس سے اکتا چکا ہوں ۔
میں اپنے حصے کا غم بھگتا چکا ہوں
میرے سارے آنسو صرف ہوچکے ہیں
میرے سارے آنسو برف ہوچکے ہیں ۔
اب نئے غم وہی اٹھائے گا!
جو بزم جہاں سجائے گا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply