قرآن پاک میں آدم کا بیان ۔۔ مسعود چوہدری

کل اٹھارہ سے زائد مقامات پر لفظ اٰدَمَ اور اٰدَمُ کا تذکرہ قرآن پاک میں آیا ہے ۔ جبکہ اس کے علاوہ ندائیہ “ی” کے ساتھ کم و بیش پانچ سے زائد جگہ پر ذکر آیا ہے۔اگر راقم کی کم علمی کے سبب کچھ چھوٹ گیا ہوتو پیشگی معذرت خواہ اور اللہ رب العزت کے حضور معافی کا خواستگار ہوں۔ جبکہ اگر دم سے آدم لیا جائے تو تمام کلام و راہنمائی ابن ِ آدم سے ہی ہے۔ بلاشبہ اگر انہی آیات کو سمجھ لیا جائے تو نہ صرف بہت سے سوالات کے جوابات حضرت انسان حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ انسان اور اسکے خالق اللہ رب العزت کے عرفان و قرب کے حصول کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
آیات قرآنی ملاحظہ ہوں ۔ سورۃ البقرۃ کی آیت تیس تا انتالیس میں میرے اور آپکے پیارے اللہ رب العزت فرشتوں سے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے گویا ہوئے

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِ ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 31؀قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ 32
قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ 33؀وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ ڭ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ 34؀وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا ۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 35؀فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ ۠ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ 36؀فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّهٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ 37؀قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ 38؀وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 39؀ۧ
ترجمہ:
اور اللہ تعالی نے آدم کو تمام (اشیاء کے) نام سکھائے بھر سب اشیاء کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔ بولے پاکی ہے تجھے ، ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا، بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے ، فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے) نام، جب اس نے (یعنی آدم نے) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکرہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ، اس میں سے بے روک ٹوک، جہاں تمہارا جی چاہے، مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا، کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤگے۔ تو شیطان نے اس سے (یعنی جنت سے) انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو ، آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی، بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔ اور وہ جو کفر کریں گے، اور میری آیتیں جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں۔ ان کو ہمیشہ اس میں رہنا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ 33 ؀ۙ
ترجمہ: بے شک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آل اولاد اور عمران کی آل کو سارے جہان سے۔
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59 اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ 60؀
ترجمہ: عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے ، اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا، وہ فورا” ہو جاتا ہے۔ اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا۔

سورۃ الماءدۃ کی آیات ستائیس میں اسطرح سے بیان آیا ہے کہ :
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ۭ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ ۭ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ 27؀
ترجمہ : اور انہیں پڑھ کر سنائو آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی، بولا قسم ہے، میں تجھے قتل کر کر دوں گا، کہا، اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے۔

ہابیل و قابیل اور فساد فی الارض سے متعلق اس حکم کے تحت قرآنی آیات کا صرف ترجمہ من و عن پیش خدمت ہے۔

*بے شک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھائوں گاکہ تجھے قتل کروں، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک ہے سارے جہان کا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہو جائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔ تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چائو دلایا تو اسے قتل کر دیا تو رہ گیا نقصان میں۔ تو اللہ نے ایک کوا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکھائے کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے، بولا ہائے خرابی، میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا، کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا، تو پچھتاتا رہ گیا۔ اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی، بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے ، پھر بے شک ان میں بہت اُس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔ وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیئے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ دوسری طرف کے پائوں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کر دیئے جائیں ، یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیئے بڑا عذاب۔ مگر وہ جنہوں نے توبہ کر لی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پائو تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔* (سورۃ الماءدۃ کی آیت اٹھاءیس سے چونتیس تک کا ترجمہ)

سورۃ الاعراف میں آدم علیہ السلام کا تذکرہ کچھ اسطرح سے آیا ہے کہ
۝ۧ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ 11 ؁
ترجمہ: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا۔

سورۃ الاعراف میں اس کے بعد کی آیات کا ترجمہ من و عن ملاحظہ ہو

ترجمہ: فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا ، بولا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فرمایا تو یہاں سے اتر جا ، تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے، نکل! تو ہے ذلت والوں میں۔ بولا مجھے فرصت دے اس دن تک کہ لوگ اٹھائے جائیں ۔ فرمایا تجھے مہلت ہے۔ بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور تیرے سیدھے راستے پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا۔ پھر ضرور میں ان کے پاس آئوں گا، ان کے آگے اور ان کے پیچھے اور ان کے داہنے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ فرمایا یہاں سے نکل جا، رد کیا گیا، راندہ ہوا، ضرور جو ان میں سے تیرے کہے پر چلا، میں تم سب سے جنت بھر دوں گا۔ (آیت اٹھارہ)
وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 19؀
ترجمہ: اور اے آدم تو اور تیرا جوڑا جنت میں رہو ، تو اس میں سے جہاں چاہو کھاءو اور اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو گے۔
اس کے بعد کی آیات کا ترجمہ
پھر شیطان نے ان کے جی میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شرم کی چیزیں جو ان سے چھپی تھیں اور بولا تمہیں تمہارے رب نے اس پیڑ سے اسی لیئے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فرشتے ہو جائو یا ہمیشہ جینے والے۔ اور انسے قسم کھاءی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ تو اتار لایا انہیں فریب سے پھر جب انہوں نے پیڑ چکھا ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور اپنے بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ دونوں نے عرض کی اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ بر کیا تو اگر توُ ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوں گے۔ فرمایا، اترو، تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھرنا اور برتنا ہے۔ فرمایا، اسی میں جیو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں اٹھاءے جاءو گے۔ (الاعراف آیات بیس سے پچیس)
اس کے بعد سورۃ الاعراف کی آیات ملاحضہ ہوں
یٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ 26؀
ترجمہ: اے آدم کی اولاد بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا کہ تمہاری شرم کی چیزیں چھپائے اور ایک وہ کہ تمہاری آرائش ہو اور پرہیز گاری کا لباس، وہ سب سے بھلا، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۭاِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 27
ترجمہ: اے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا، اتروا دیئیے ان کے لباس، کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں، بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے ، بے شک ہم نے شیطانوں کو ان کا دوست کیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
سورۃ اعراف کی آیات اٹھائیس، انتیس اور تیس کا ترجمہ:
اور جب کوئی بے حیائی کریں تو کہتے ہیں ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو پایا اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا تو فرمائو بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا اللہ پر وہ بات لگاتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں ۔ تم فرمائو میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور اپنے منہ سیدھے کرو، ہر نماز کے وقت اور اس کی عبادت کرو نرے (خالص) اس کے بندے ہو کر جیسے اس نے تمہارا آغاز کیا ویسے ہی پلٹو گے۔ ایک فرقے کو راہ دکھائی اور ایک فرقے کی گمراہی ثابت ہوئی ، انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو والی بنایا اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ راہ پر ہیں۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ 31؀ۧ سورۃ الاعراف
ترجمہ: اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جائو اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
سورۃ الاعراف کی اس کے بعد کی آیات بتیس، تیتیس،اور چونتیس کا ترجمہ پیش خدمت ہے کہ
ترجمہ: تم فرمائو، کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیئے نکالی ، اور پاک رزق، تم فرمائو کہ وہ ایمان والوں کے لیئے ہے، دنیا میں ، اور قیامت میں تو خاص انہی کی ہے، ہم یونہی مفصل آیتیں بیان کرتے ہیں، علم والوں کے لیئے۔ تم فرمائو میرے رب نے تو بے حیائییاں حرام فرمائی ہیں جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی اور گناہ اور ناحق زیادتی اور یہ کہ اللہ کا شریک کرو جس کی اس نے سند نہ اتاری اور یہ کہ اللہ پر وہ بات کہو جس کا علم نہیں رکھتے۔ اور ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے، تو جب ان کا وعدہ آئے گا، ایک گھڑی نہ پیچھے ہو، نہ آگے۔

اس کے بعد اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں کہ
یٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 35
ترجمہ: اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول ﷺ آئیں میری آیتیں پڑھتے، تو جو پرہیز گاری کرےاور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم۔
سورۃ الاعراف آیت 172
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ ١٧٢؀ۙ
ترجمہ: اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا، کیا میں تمہارا رب نہیں، سب بولے کیوں نہیں، ہم گواہ ہوءے کہ قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔
سورة الإسراء (بنی اسراءیل)

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًا 61۝

ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے، بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔
سورة الإسراء (بنی اسراءیل) میں ہی چند آیات بعد ذکر ہے کہ
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا 70؀ۧ
ترجمہ: ہم نے اولاد آدم کو عزر دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا۔
سورة الکهف میں کچھ اسطرح ذکر ہوا ہے کہ
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا 50؀
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے ، قوم جن سے تھا، تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا، بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو اور وہ ہمارے دشمن ہیں، ظالموں کو کیا ہی برا بدل (بدلہ) ملا۔
سورة مریم میں اسطرح تذکرہ ہوا ہے ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ آیت سجدہ ہے اور ہر پڑہنے والے پر سجدہ واجب ہے۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۡ وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۡ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۭاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا 58؀۞{السجدہ}
ترجمہ: یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا، غیب کی خبریں بتانے والون میں سے، آدم کی اولاد سے، اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد سے اور ان میں سے جنہیں ہم نے راہ دکھائی اور چن لیا، جب ان پر رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتیں، گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے۔
سورة طه میں اسطرح ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ
وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا ١١٥؀ۧوَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰى ١١٦؁فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي ١١٧؁اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى ١١٨؀ۙوَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي ١١٩؁فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى ١٢٠؁فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ١٢١؀ډثُمَّ اجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدٰى ١٢٢؁قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى ڏ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ١٢٣؁وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى ١٢٤؁
ترجمہ: اور بے شک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدہ میں گرے مگر ابلیس، اس نے نہ مانا۔ تو ہم نے فرمایا، اے آدم بے شک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو جنت سے نکال دے، پھر تو مشقت میں پڑے۔ بے شک تیرے لیئے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہو اور نہ ننگا ہو۔ اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دھوپ، تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا ، بولا اے آدم کیا میں تمہیں بتا دوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اور وہ بادشاہی کہ پرانی نہ پڑے۔ تو ان دونوں نے اس میں سے کھا لیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوءیں اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ پھر اس کے رب نے چن لیا تو اس پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائی اور اپنے قرب خاص کی راہ دکھائی۔ فرمایا تم دونوں مل کر جنت سے اترو ، تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے ، پھر اگر تم سب کو میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا وہ نہ بہکے، نہ بدبخت ہو۔ اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیئے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔

سورة یٰس میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 60؀ۙوَّ اَنِ اعْبُدُوْنِيْ ڼ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ 61؀وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ 62؀
ترجمہ: اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوچنا، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ اور میری بندگی کرنا ، یہ سیدھی راہ ہے۔ اور بے شک اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو بہکا دیا تو کیا تمہیں عقل نہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس اس تمام بیان و گفتگو کا ایک ہی مقصد ہے کہ انسان کو اپنا مقام پہچان کر اللہ رب العزت سے رجوع کر لینا چاہیئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ اصلاح و ثواب کی نیت سے آگے بھیج دیں۔ جزاک اللہ خیر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply