کارِ سرکار میں خلل فساد اور بغاوت ہے۔۔حافظ صفوان محمد

ہر مسلمان پر نماز فرض ہے، ذاتی زندگی میں نماز کو قائم رکھنا ضروری ہے جس کا حساب ہوگا۔ جہاں مسلمان زیادہ ہوں اور وہ کہیں پر بھی نماز باجماعت پڑھ لیں تو اس کا اجر ستائیس گنا ہے۔ جماعت کے لیے مسجد یا کوئی مخصوص مسجد ضروری نہیں۔ مکہ شہر میں خانہ کعبہ کے موجود ہوتے ہوئے بھی کئی اور مسجدیں اسی لیے موجود ہیں۔
فتویٰ کسی مسئلے پر ایک عالم یا چند علما کی رائے ہوتا ہے۔ چنانچہ مختلف علما کی رائے آپس میں مختلف ہوسکتی اور ہوتی ہے۔ علما اگر ایک دینی مسئلہ پر اختلافِ رائے کا شکار ہوں تو سب دین ہی کی بات کر رہے ہوتے ہیں اور اس اختلاف کے باوجود سب کی رائے دین ہی سے متعلق ہوتی ہے۔ علما کا اختلاف اس لیے رحمت ہے کہ آپ اپنی ضرورت کے مطابق جس کی رائے کو چاہیں مان لیں، آپ دین ہی پر چل رہے ہوں گے۔

ایک عالم یا کچھ علما کی رائے ہمیشہ کے لیے ریاست کا بیانیہ نہیں ہوتی اور نہ ہوسکتی ہے۔ صرف وہ فتویٰ ریاست کا فتویٰ کہلائے گا جو کوئی حکومت علما کے کسی گروہ سے طلب کرے اور اسے نافذ کرے۔ مثلًا بینکوں کے کھاتہ داروں سے یکم رمضان کو زکوٰۃ لینے کا انتظامی فیصلہ کرنے کے لیے علما  سے فتویٰ لیا گیا تھا۔ یا اسی طرح بینکوں میں پرافٹ اینڈ لاس شیئرنگ اکاؤنٹ کو “اسلامی” باور کرانے کے لیے علما کی خدمات لی گئی تھیں۔

حکومت کسی آمدہ صورتِ حال کے تحت کوئی فتویٰ لے سکتی ہے اور صورتِ حال تبدیل ہونے پر نیا فتویٰ طلب کرسکتی ہے، اور جب چاہے کسی فتوے کو معطل یا منسوخ بھی کرسکتی ہے۔ کسی ایک عالم یا چند علما کے فتوے کو تمام علما کا یا متفقہ فتویٰ قرار دینا درست نہیں۔ عوام کی رائے اسی طرح تقسیم ہوتی ہے کہ کچھ لوگ کچھ علما کی رائے کو اچھالتے ہیں اور کچھ لوگ کچھ اور علما کی رائے کو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام میڈیائی تشہیریت کے ذریعے بڑے پیمانے پر ہوسکتا ہے، اور نتیجے کے طور پر ایک کنفیوزڈ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

باجماعت نماز کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کا آپسی میل جول ہے۔ کسی خطرے یا موسمی و سیاسی حالات کے پیشِ نظر پنج وقتہ نمازیں اور جمعہ گھروں میں ادا کرنے کی مثالیں ابتدائے اسلام سے موجود ہیں جن سے اہلِ علم واقف ہیں۔ اگر نظمِ اجتماعی مسجدوں میں نمازوں کے بڑے اجتماعات کو مفادِ عامہ کے لیے مضر کہہ رہا ہو تو نماز گھر پہ پڑھی جائے، اور اگر ممکن ہو تو باجماعت پڑھی جائے کیونکہ باجماعت نماز کا اجر ستائیس گنا ہے۔

مسجد کی نماز کو مسئلہ بناکر فساد کرانا اسلام کا طریقہ نہیں ہے۔ جب خلافتِ عثمانی میں جنابِ ابوذر اور خلافتِ ابوبکر و عمر میں جنابِ سعد بن عبادہ جیسے اہم آدمی سیاسی وجوہات سے مسجدِ نبوی میں تشریف نہیں لاتے تھے اور ان کے اس فعل پر کسی نے کوئی فقہی حکم نہیں لگایا تو آج اگر مفادِ عامہ کے پیشِ نظر مسجدوں کی حاضری سے عارضی طور پر منع کیا جا رہا ہے اور نماز و جمعہ اپنے گھروں میں  ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے تو اس میں پریشانی کیسی؟ سب لوگوں کو چاہیے کہ نمازوں گھروں میں پڑھیں اور جمعہ کے بجائے گھر میں ظہر کی نماز پڑھیں اور اگر ممکن ہو تو باجماعت ادا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسیحی دنیا کے بڑے حصے میں کرونا وائرس چرچ سے پھیلا ہے۔ مثلًا کوریا میں ایک مریضہ کے 9 اور 16 فروری 2020 یعنی دو مسلسل اتواروں کو چرچ کی عبادتی مجلس میں شرکت کرنے سے کرونا وائرس پھیلا۔ پوپ سمیت پوری مسیحی دنیا نے بروقت اس کا تدارک کیا اور اپنی غلطی کو تسلیم کیا تو کرونا کے پھیلانے کے جرم میں ملوث مسیحی عبادت گزاروں کے کردار کے باوجود مسیحیت کو برا بھلا نہیں کہا گیا۔ دنیائے اسلام میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ مذہبی اجتماعات سے ہوا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ حفاظتی اقدامات پر عمل کریں تاکہ کرونا کے پھیلاؤ میں خدا و رسول اور اسلام پر الزام نہ آئے۔ حدیث میں انسانی جان کو کعبۃ اللہ سے قیمتی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ خدا سمجھ دے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply