جدید دور کا مولوی۔۔سکندر پاشا

اس جدید ترین دور میں کسی بھی نوجوان عالم کیلئے تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، فلسفہ، منطق یا دیگر علوم میں کامل مہارت نہ سہی ،ہر فن میں کم سے کم پچاس فیصد بھی حاصل کرلینا   بڑی کامیابی کی بات ہے لیکن یہ بھی کم سے کم ایسے وقت میں مشکل ہے کہ جہاں ایک ہی سال میں درجن بھر کتابیں پڑھائی جاتی ہوں اور گذشتہ دور کے علما  جو دو سال میں ایک کتاب پڑھتے تھے اور روکھی سوکھی روٹی لسّی  اور  پیاز کے ساتھ کھاتے تھے، تمام علوم میں مہارت ان کو ہی جچتی تھی، آج کے دور میں غزالی، ابن تیمیہ یا پھر شیخ الہند اور مدنی بننا آسان نہیں ہے اور نہ ہی یہ امید رکھی جائے کہ کوئی کشمیری اور بنوری پیدا ہوں گے، بلکہ آج کا طالبعلم فارمی مرغ کی طرح ہے، نہ ہی مشکلات جھیل سکتا ہے اور نہ ہی اس جدید دور کا تقاضاہے کہ ان کو پچھلی صدیوں میں دھکیل دیا جائے۔

کہا جاتا ہے  کہ معاشرے کی تہذیب اور روایات میں مولوی کا کوئی حصہ نہیں، بلکہ مولوی کو دقیانوس و تنگ نظر اور فکر و کردار کا کمزور سمجھ کر معاشرہ اسے کوئی حصہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اور پھر اس سے یہ امید بھی لگائی جاتی ہے کہ معاشرے کو سدھارے ورنہ اس کے بگاڑ و فساد کا ذمہ دار بھی مولوی ہے۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ جس معاشرے کی آپ بات کرتے ہیں مولوی بھی   اسی معاشرے کا حصّہ ہے، ایسا مولوی کیسے کامیاب ہوگا جو معاشرے سے سِرے سے ہم آہنگ ہی نہ ہوپائے۔ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو مولوی کو ضرورت ہے تو پھر آپ کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مولوی کی تربیت جدید دور کے مطابق ہی جدید معاشرے کے لئے ہو، ورنہ پھر یہی رونا ہوگا کہ مولوی ناکام رہا اور یونہی عشروں کے عشرے گزرتے جائیں گے۔

مدارس کے نظام تعلیم پر اعتراض کم سے کم اس حد تک تو درست ہے کہ جدید ذہنیت اور معاشرے کے لحاظ سے ایسا نصاب ہونا چاہیے کہ مدارس کا تربیت یافتہ طالبعلم معاشرے میں ایڈجسٹ ہوسکے یا معاشرہ اس کو قبول کرے ورنہ بقول آپ کے یہی کہا جائے گا کہ “اس نظم سے صرف تقلیدی ذہن رکھنے والے ایسے رجال پیدا کیے جا رہے ہیں کہ جن کا اس جدید نظام میں کوئی حصہ نہیں۔” اور پھر ایسے وقت اور حالات میں یہ اعتراض بالکل درست ہوگا۔

اگر مدسہ کا طالبعلم کہیں بھی تعطیلات یا غیر تعلیمی اوقات میں کوئی بھی “شارکٹ کورس” کرتا ہے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ آپ حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے تو کم سے کم حوصلہ شکنی نہ کیجیے، کیونکہ آج کا دور ڈگری کا ہے اور وفاق جو ڈگری دیتا ہے یہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی کتنی حیثیت ہے، جتنے زیادہ “پھرے” ہوں گے تب ہی کہیں نوکری ممکن ہے۔ ورنہ پھر وہی رونا ہوگا کہ وفاق کی سند سے کسی کو کوئی تمغہ نہیں ملنا اور ایک مولوی احساس کمتری کا شکار ہوگا جو بالکل درست ہے۔

اس بات سے اتفاق ہےکہ بعض علوم یا فنون مختصر دورانیے کے ساتھ پڑھائے جانے والے فنون بالکل بھی نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی عالم ایک ہی وقت میں محدث و فقیہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ جدید دنیا میں کالم نگار اور کمپیوٹر کا ماہر بھی ہو۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایک عالم دین مورخ و مفسر ہو یا عربی پر کامل مہارت رکھتا ہو تو جدید تقاضوں کے مطابق آپ اس سے یہ حق کیوں چھین رہے ہیں کہ وہ موٹیویشنل سپیکر نہ بنے یا انگریزی اور صحافت میں دلچسپی نہ لے۔؟
وقت کے ساتھ یہ فنون بھی ضروری ہیں اور اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس لئے جدید تعلیم کی بھی ایک مولوی کو ضرورت ہے۔

شکوہ کیا جاتا ہےکہ “بہت سے علما مدرسے کے ماحول سے نکل کر یونیوسٹی کی روشنیوں میں جانے کے بعد ان کے اندر مرعوبیت پیدا ہو جاتی ہے اور جس نظام تعلیم سے پڑھ کر وہ عالم بنے ہیں وہی نظام تعلیم انہیں کمتر دکھائی دینے لگتا ہے اور بہت سے نوجوان علما  تحقیق کے میدان سے نکل کر تجدد کی میدان کی طرف چلے جاتے ہیں اسی منظر نامے میں مدرسہ ڈسکورسز جیسے مگر مچھ انہیں نگلنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں”۔

جب آپ یہ شکوہ کرسکتے ہیں تو ایسا نظام تعلیم تشکیل دیجیے  کہ مدرسے کا فاضل کالج و یونیوسٹی کا رخ کرنے کے بعد مرعوب نہ ہو اور بقول ایک دوست   “مدرسہ ڈسکورسز جیسے مگر مچھ” انہیں نہ نگل سکیں، ورنہ یہاں بھی ایک مولوی کی ناکامی ہی سمجھی جائیگی اور نظام تعلیم پر ہی اعتراض ہوگا۔ اور مدرسہ ڈسکورسز میں اس کو اپنا مستقبل جگمگاتا نظر آئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کے دور میں دینی تعلیم کا رجحان بہت ہی زیادہ ہیں ، ہر محلے میں کم سے کم دس سے پندرہ مساجد اور پانچ سے دس مدارس قائم ہوتے ہیں جہاں شعبہ حفظ یا ابتدائی درجات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں تک بڑے مدارس کا تعلق ہے وہاں ایک سال میں سینکڑوں بلکہ وفاق کی سطح پر ہزاروں علما میدان عمل میں آتے ہیں۔ ان کیلئے سب سے پہلا ہدف یہی ہوتا ہے کہ فراغت کے بعد کہیں تدریسی خدمات سرانجام دیں گے اور بعض کاروباری ذہن رکھنے والے یہی سوچتے ہیں کہ بغیر معاوضہ کے اللہ کی رضاء کیلئے کسی مدرسے میں پڑھائیں گے اور بقیہ وقت میں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریں گے۔
لیکن تدریسی سوچ رکھنے والے علما  بالآخر اس لئے مایوس ہوجاتے ہیں کہ کوئی بھی مدرسہ ان کو رکھنے کیلئے اس لئے بھی تیار نہیں ہوتا کہ ان کو “اعزازی مولوی” درکار ہوتے ہیں جو بغیر معاوضہ کے پڑھائیں۔
کیونکہ سوائے بڑے مدارس کے اب ماحول ایسا بن چکا ہے کہ “اگر آپ غریب مولوی ہیں تو کوئی بھی مہتمم آپ کو تنخواہ پر رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور اگر سرمایہ دار مولوی ہیں تو مہتمم فرمائش کرتا ہے کہ سالانہ ہمارے ساتھ کتنا تعاون فرمائیں گے۔؟”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply