بلاول بھٹوکی پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا چاہتا ہے

بلاول بھٹوکی پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا چاہتا ہے
سیّد محمّد اشتیاق
وطن عزیز میں صبر آزما طویل سیاسی جدوجہد اور انتظار کے بعد جمہوریت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ اِس سیاسی جدّو جہد میں سیاستدانوں کے ساتھ، میڈیا کے تمام ذرائع کا بھی نمایاں کردار ہوتا ہے۔ موجودہ 9 سالہ جمہوری دور بھی اُس جدّوجہد کا ثمر ہے۔ جب سیاستدان سابق چیف جسٹس ا فتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے سڑکوں پر آئے تو جہاں عوام نے سیاستدانوں کی پذیرائی کی ۔ وہیں میڈیا کے تمام ذرائع نے اِس جدّوجہد میں سیاستدانوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اِسی سیاسی جدّوجہد کے نتیجے میں ملکی سیاست کے 2 نمایاں کردار محترمہ بے نظیر بھٹّو اور محترم نوا زشریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ افسوس کہ محترمہ بے نظیر بھٹّو اب ہمارے درمیان نہیں !
2008ء کے انتخابی نتائج سے وفاق، سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومتیں تو قائم ہوگئیں لیکن محترمہ کی کمی شدّت سے محسوس کی جاتی رہی۔ صدر زرداری کے دور حکومت میں بھی جمہوریت سے نالاں طبقہ فکر نے ، ہرممکن کوشش کی کہ جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اُترجائے لیکن محترمہ جو میثاق جمہوریت اپنی زندگی میں کرگئیں تھیں۔ وہ جمہوریت کے بدخواہوں کے آڑے آیا اور جمہویت کی گاڑی پوری رفتار اور ہم آہنگی سے نہ سہی لیکن کسی طور چلتی رہی ۔ محترمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت عوام کا اعتماد خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے کھو بیٹھی۔ اُس کے ساتھ ہی (ن) لیگ کو بھی فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سننے پڑے کہ اُس نے حزب اختلاف کا کردار نہیں نبھایا۔ جس کا بھرپور سیاسی فائدہ قائد تحریک انصاف عمرن خان نے2013 ء کے انتخابات میں اُٹھایا اور ملک میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھرے۔
وفاق، پنجاب ، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خواہ میں بالترتیب (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہوگئیں تو عوام کا وہ طبقہ جس کوباشعور کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومتوں سے یہ توقع لگا بیٹھا، خصوصی طور پر عمران خان سے کہ تحریک انصاف ، خیبر پختون خواہ میں بہتر طرز حکمرانی اور موئثر حزب اختلاف کی روایت ڈالے گی ۔ جس کی تقلید لامحالہ دیگر جماعتوں کو بھی کرنی پڑے گی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور عوام کا بہتر طرز حکمرانی اور موئثرحزب اختلاف کا یہ خواب اب تک پورا نہیں ہوا ہے۔ بنیادی وجہ تو اِس کی یہی نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابی نتائج کو دل سے تسلیم نہیں کیا،بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محترم عمران خان نے اِس انتخابی شکست کو اپنی ذاتی شکست تصوّر کرلیا۔ حکومت پر مثبت ، تعمیری تنقید کی جو توقع عمران خان کے تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کی وجہ سے کی جارہی تھی۔ اُس کا عوام کو اب تک انتظار ہے۔ دھرنا سیاست کے اثرات ملکی سیاست اور معیشیت پر اچھے نہیں پڑے۔ دھرنا سیاست سے جہاں عوام کا اعتماد جمہوریت پر سے اُٹھ رہا ہے۔ وہیں عمران خان اور تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت بھی رو بہ زوال ہے۔
پیپلز پارٹی ا نتخابی اکھاڑے کی پرانی کھلاڑی ہے اور پاکستانی عوام کا مزاج سمجھتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے موجودہ سیاسی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے۔ عام انتخابات سے قبل ہی بلاول بھٹو کوقومی اسمبلی سے منتخب کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جناب بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری صاحب کا دعوی ٰہے کہ وہ اسمبلی کا ،رکن منتخب ہونے کے بعد (ن)لیگ کو بتائیں گے کہ حزب اختلاف کیا ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستانی عوام کا باشعور طبقہ، جہاں جناب بلاول بھٹو کو بحیثیت تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان کے قومی اسمبلی میں پیشگی خوش آمدید کہتا ہے۔ وہیں اُن سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کی سیاسی جدّوجہد اور قربا نیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز کریں گے اور عوام جو موئثر حزب اختلاف کی امید پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے عمران خان کی شکل میں لگائے بیٹھی ہے، اُس کو پورا کریں گے۔ کیونکہ موئثر حزب اختلاف کابہتر طرز حکمرانی اور جمہوریت میں بنیادی کردار ہے۔ اگر جناب بلاول بھٹو بطور حزب اختلاف رہنما، اپنا کردار موئثر طریقے سے ادا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ پیپلز پارٹی عام ا نتخابات سے قبل اپنا کھویاہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply