افغان مسئلہ پہ ماسکو کانفرنس

ماسکو میں چین، پاکستان اور روس کی افغانستان کے بارے میں کانفرنس پہ خود افغانستان کو مدعو نہ کئے جانے پہ کئی دوستوں کو حیرت ہوئی ہوگی لیکن جو دوست اس صورتحال پہ گہری نظر رکھے ہوئے تھے، انہیں اس کا پہلے سے اندازہ تھا۔ ہوا یوں کہ علاقائی سلامتی کے خدشات اور چیلنجز کے بارے میں خطے کے ممالک میں ایک وسیع اختلاف کی خلیج حائل ہوچکی تھی۔ افغان حکومت، اندرونی سیاسی نظریاتی مخالفت کی بنا پر افغان طالبان کو اپنے لئے سب سے بڑا بلکہ واحد چیلنج اور خطرہ سمجھتی ہے ۔ انڈیا خطے کا دوسرا ملک ہے جو طالبان کے خلاف ہے لیکن اس کی وجہ علاقائی سلامتی کا کوئی خدشہ نہیں بلکہ طالبان کا مبینہ طور پہ پاکستان کے قریب ہونا واحد وجہ ہے۔
 
مذکورہ دو ممالک کو چھوڑ کے خطے کے دیگر ممالک داعش کو خطے کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے طالبان کے برعکس، جن کے افغانستان سے باہر کوئی سیاسی عزائم موجود نہیں ہیں، داعش کا ایجنڈا بہت زیادہ وسیع ہے۔ افغانستان کی داعش خود کو خراسان کی داعش کہلاتی ہے اس خراسان میں وہ افغانستان ، پاکستان اور وسطی ایشیا کے علاوہ بہت سا ایرانی حصہ بھی شامل کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ خود چین اور روس کے اندر بھی مسلمانوں کی بھاری تعداد موجود ہے جو فی الحال تو مقامی معاشروں سے ہم آہنگ ہے لیکن کسی بڑی بغاوت کی صورت میں ان کا بے چین ہونا لازمی ہے۔ اور ایسی صورت حال تمام خطہ کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گی۔ 

یہی وہ خدشہ تھا جس نے چین اور پاکستان کے علاوہ روس کو بھی متحد ہونے پہ مجبور کردیا۔ افغانستان کو اس کانفرنس میں شامل نہ کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان ان خدشات کے بارے میں نہ صرف بہت زیادہ غیر حساس ثابت ہوا بلکہ طالبان کے مقابلہ کے لئے داعش کی پرداخت اور حمایت کا الزام بھی اس پہ رہا ہے۔ کیونکہ افغانستان کے اندر داعش اور طالبان کی لڑائی بھی ہوتی رہی اور اب بھی دو متحارب قوتوں کی طرح موجود ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی قریب میں روس اور ایران بھی طالبان کے قریب آئے اور ان کی ہر طرح سے مدد بھی کرتے رہے۔ 

افغانستان نے اس کانفرنس میں خود کو شریک نہ کئے جانے پہ اعتراض کیا ہے جس کا ڈپلومیٹک جواب آیا کہ آئندہ یہ ممکن ہے۔ لیکن اس امکان کا ظاہر ہے، انحصار خود اس کے مستقبل کے رویے پر ہوگا۔ اگر تو افغان حکومت طالبان کے مقابلہ میں داعش کی حمایت کی پالیسی پہ گامزن رہتی ہے تو لازماً ہمسایہ ممالک کی تشویش اور ناراضی میں اضافہ ہی ہوگا۔ افغان حکومت کو کچھ بنیادی اور مشکل فیصلے کرنا ہونگے جن کو زیادہ عرصہ ٹالنا ممکن نہیں رہا۔ اگر تو وہ داعش اور طالبان سے بیک وقت جنگ کا فیصلہ کرتے ہیں تو اتنی طاقت اور وسائل انکے پاس موجود ہی نہ ہیں اور نہ ہی انڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ انکے ساتھ مل کے یہ کچھ کرسکے۔ اس میں دوسری مشکل یہ ہے کہ اس صورت میں بقا کی خاطر داعش اور طالبان قریب آسکتے ہیں اور ان کے ادغام کی صورت میں داعش کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگا جسے اردگرد کے ممالک بھی ناپسند کرینگے اور افغانستان پہلے سے گہری دلدل میں دھنس جائے گا۔ 

بادی النظر میں آسان حل یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت ہوجائے اور دونوں مل جل کر داعش کا صفایا کریں۔ اس صورت میں انہیں علاقہ کے دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ لیکن انڈیا اس کی لازمی مخالفت کرے گا اور افغان حکومت سے دوری اختیار کرے گا۔ علاقہ کے دیگر ممالک کی ان کو البتہ حمایت حاصل ہوگی۔ کیا افغانستان اس کے لئے تیار ہے؟ اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ افغانستان بلیم گیم سے باہر نکل کے ہمسایہ ممالک کے تحفظات دور کرکے انہیں اعتماد میں لے بالخصوص پاکستان۔ ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ کیا وہ ایسا کرنے کو تیار ہے؟ 

طالب علم کا خیال یہ ہے کہ اس سوال کو اب زیادہ عرصہ لٹکایا بھی نہیں جا سکتا خصوصاً شام کی صورت حال کے پیش نظر، کیونکہ شام میں داعش کے سر پہ شکست منڈلا رہی ہے اور اس صورت میں داعشی جہادی پناہ کے لئے افغانستان کا رخ کرسکتے ہیں بلکہ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہاں داعش کی قوت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا جس سے ہمسایہ ممالک کی بے چینی بڑھے گی بالخصوص ایران کی۔ کیونکہ ایران اپنی مغربی سرحد پہ پہلے ہی سے داعش سے نبردآزما ہے، وہ مشرقی سرحد پہ داعش کا خطرہ دیکھ کر جوابی کارروائی کی طرف جاسکتا ہے۔ نیز مشرق وسطی میں عرب و ایران کشمکش افغانستان کا رخ کرسکتی ہے۔ جس میں یہاں کوئی نئی پراکسی جنگ چھڑ جائے گی۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں ایک اور ہمسایہ بھی ہے جس کی ممکنہ پالیسی کا اندازہ لگانا ضروری ہے، یعنی امریکہ۔ آغاز میں امریکہ کا دعوی یہ تھا کہ اس کی خطے میں موجودگی صرف القاعدہ کی بیخ کنی کے لئے ہے۔ بن لادن کی موت اور القاعدہ کے مشرق وسطی منتقل ہونے کے بعد امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی۔ نئی امریکی انتظامیہ مشرق وسطی میں داعش کے خاتمے کے لئے روس کے ساتھ مل کے کاروائی کرنے کی پالیسی کا اعلان کرتی ہے۔ کیا داعش کے خلاف روس یا دیگر ممالک سے تعاون کی پالیسی کا دائرہ کار افغانستان تک بھی ہوگا؟ ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ داعش کے خلاف یہ تعاون یہاں بھی موجود کیوں نہ ہو۔
 
دوسرا اہم امر یہ ہے کہ امریکہ کی وسطی ایشیا کے تیل کے ذخائر میں دلچسپی بہت پرانی ہے لیکن اس کا عملی حصول افغانستان میں مستقل امن کے ساتھ مشروط ہے۔ موجودہ امریکی انتظامیہ پہ امریکی پٹرولیم کی لابی کا گہرا اثر ہے جس سے بجا طور پہ توقع کی جاسکتی ہے کہ افغانستان میں بھی روس اور دیگر ممالک کے ساتھ کوئی ڈیل ہوجائے۔ امریکہ کی انڈین لابی یقیناً اس کی مخالفت کرے گی۔ آئندہ چند ماہ میں واضح ہوجائے گا کہ امریکی پالیسی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ امریکی فیصلہ جو بھی ہو، علاقے کے ممالک روس، چین، پاکستان اور بڑی حد تک ایران بھی اپنا فیصلہ لے چکے ہیں۔ بال اب افغانستان کی کورٹ میں ہے، دیکھیے افغان انتظامیہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ 

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply