• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نیا سال اور صرف تُم ہی تُم : رمشا تبسم کی ڈائری”خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

نیا سال اور صرف تُم ہی تُم : رمشا تبسم کی ڈائری”خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

میں نئے سال کی پہلی رات
چاند سے چھپ کر
تاروں سے نظریں چرا کر
سمندر کے شور کو درگزر کر کے
لہروں سے بچ کر
ہواؤں سے الگ ہو کر
فضاؤں کو چھوڑ کر
دھڑکنوں کی بے تابی بُھلا کر
ہجر کو قدموں تلے روند کر
دل ہاتھ میں لئے
تمہارے کوچے سے گزروں گی
دل تمہارے قدموں میں رکھ کر
تم سے دھیرے سے کہہ جاؤں گی
مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔
اسی لمحے نئے سال کے
چاند, تارے, سمندر, لہریں, ہوائیں
فضائیں, بے تاب دھڑکنیں
سبھی مسکرا دیں گی
اور میں شرما کر
دل ہتھیلی میں واپس رکھ کر لوٹ آؤں گی
جب واپسی پر میں ہتھیلی دیکھو گی
تو میرے ہاتھوں میں تمہارا دل ہو گا
جو کہہ رہا ہو گا
مجھے بھی تم سے محبت ہے۔۔
اسی لمحے میں نئے سال کا نیا چاند
ہمارے ایک ہونے کی نوید سنائے گا
اور میں یہ سن کر شرما کر
پھر تمہارے پاس لوٹ آؤں گی
بانہوں کے حصار میں
محبت کی گرفت میں
اظہار کی زنجیر میں
تمہیں سمیٹنے کی کوشش کرتی کرتی
میں خود
تمہاری محبت کی ڈوری میں لپٹ کر
تمہاری روح سے مل جاؤں گی
اور پھر نئے چاند کی روشنی میں
تاروں کی جگ مگ میں
سمندروں کے شور
لہروں کے رقص میں
ہواوں اور فضاؤں کے سنگ
ہر جگہ نیا سال پکار اٹھے گا
انہیں ایک ہونا ہے
اور ہم
شرما جائیں گے!

جانتے ہو پھر میرا دل کرے گا میرے ہاتھ میں  ہوا کا ایک سِرا ہو, تمہارے ہاتھ  میں ہوا کا دوسرا سِرا۔ہم ساتھ ساتھ قدم اٹھائیں۔کبھی ہوا میرا چہرہ بالوں میں چھپا دے ,کبھی ہوا تمہارا چہرا دھند میں دھندلا کر دے۔تمہیں ڈھونڈنے کی خاطر میں، میرا وجود ہوا میں لپیٹ دوں۔اتنا الجھ جاؤں کہ  ہوا میری سانسوں کو ہی قید کر دے۔تم مجھے ڈھونڈنے کے لئے جلدی سے ہوا کا سِرا چھوڑ دو اور ہوا مکمل میرے وجود سے لپٹ جائے۔میں ہوا میں لپٹی رہوں۔میری نظریں تمہارا طواف کریں۔میری آنکھوں کی پتلیاں تمہیں ڈھونڈتے ہوئے بے جان سی ہو جائیں ۔اور تم مجھے اپنے سامنے قید دیکھ کر مسکرا دو۔جانتے ہو تم مسکراؤ گے تو میں ہوا میں خود کو اتنا الجھا لوں گی کہ  ہوا میرا وجود تمہاری نظروں کے سامنے بکھیر دے گی اور ہوا میں میرا لمس اس قدر شامل ہو جائے کہ جب ہوائیں مجھ سےالگ ہوں گی تو ہر طرف دھند ہو گی ۔اورمیں کہیں کھو جاؤں۔تم مجھے ان ہواؤں میں ڈھونڈو گے ان ہواؤں کو خود سے لپیٹنے کی جد و جہد کرو گے۔مگر یہ ہوائیں رقص کرتی ہوئی تمہارے ہاتھ نہ آئے گی۔تم ہوا میں موجود لمس کی خوشبو کا تعاقب کرو گے اور تمہاری روح الجھ جائے۔اتنا الجھے گی کہ تمہاری روح کے بخیے ادھڑ جائیں گے۔

پھر ممکن ہے  تم مجھے سوچو اور سوچ مہکتی ہوئی تمہارے سامنے رقص کرنے لگے۔اس سوچ کا ہاتھ تھام کر تم کسی بے خوابی میں ،کسی خیال میں ،مست دیوانگی میں ،دنیا سے بیگانگی اختیار کیے جھومتے جاؤ۔اتنا جھومو کہ  سوچ کے پاؤں میں بندھے گھنگرو تمہارے قدموں کی ہر حرکت پر ایک ایک کر کے ٹوٹتے جائیں۔ان گھنگروؤں کا شور کسی سریلی بانسری کا سا ہو کہ  پھر سوچ اور تم ہاتھ تھامے اسی محبت کی بانسری پر اتنا رقص کرو کہ  یا تو ساری دنیا فنا ہو جائے یا پھر تُم میں موجود “میں” فنا ہو جاؤں۔

دنیا فنا ہو گئی  تو رقص پھر دھواں بن کر آسمانوں پر چڑھنا شروع ہو جائے گا۔آسمان کبھی محبت کے رقص میں شرماتا ہوا گلابی ہوتا جائےگا اور کبھی وصل کی گرمی سے سرخ ہو کر آگ کی مانند دہکنے لگے گا۔

اور کہیں جو” تم” میں موجود “میں” فنا ہو گئی  تو یہ دھواں تمہاری ذات میں اترنا شروع ہو جائے گا۔تمہاری رگوں سے ہوتا ہوا دل کی دھڑکن کو نوچتا جائے گا۔تمہارے دل میں موجود محبت پر دھند چھا جائے گی اور دھواں تمہاری سانسوں کو کھا جائے گا۔

اسی لمحے تمہاری محبت کے لفظوں کا ہاتھ پکڑ کر میں خشک پتوں پر پاؤں رکھ کر انکی آواز سے نکلتی موسیقی کی دھن پر جھومنے لگوں گی۔شاعری میر ے  پاؤں کی پائل بن کر چھن چھن کرے گی۔بارش کی بوندیں میرے قدموں کے ساتھ رقص کناں ہو گی۔خشک پتے بھیگتے ہوئے میرے ماتھے کی بندیا  بن جائیں گے۔خشک ٹہنیاں میرے ہاتھوں کا کنگن بن جائیں گی۔اور میں جھومتے ہوئے جب تھک کر چور ہو جاؤں تو تمہاری بانہوں کا ہار میرے گلے میں ہو اور پھر میں تم بن کر ہواؤں کے سنگ جھومتے ہوئے بادلوں پر پرواز کرتے ہوئے سمندروں پر چلتے ہوئے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاؤں ۔میں تمہارا عشق تاج بنا کر سر پر سجاؤں ،تمہارے قدموں میں بیٹھی محبت کا اظہار کرتی رہوں ۔تمہارے الفاظوں کو سانسوں کی لڑی میں پرو کر روح کو یہ گہنا پہناؤں۔۔

چلو تھامو ہوا کا ایک سِرا تم اور دوسرا میں ،کہ اب یہ نئے سال کی نئی چاندنی میں محبت کی دیوانگی مجھے خود سے بیگانہ کر کے بیگانگی کی ہر حد عبور کر چکی ہے۔اب شعور اور لاشعور میں اس سالِ نَو میں صرف تُم ہی تُم ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نیا سال اور صرف تُم ہی تُم : رمشا تبسم کی ڈائری”خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم!
    تحریر دلپذیر رہی۔۔۔۔ محبت و عشق کی منازل سے نہایت عمیقی انداز میں روشناس کروایا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔ رمشا جی! اظہار محبت۔۔۔ سے شروع ۔۔۔۔ ہوا کے سروں کو تھامنا ۔۔۔ پھر گمشدہ محبوب کو اس کی دھند میں ڈھونڈنے کے لیے اسی کی لپٹ میں الجھ جانا۔۔۔ واہ۔۔۔۔ کیا ہی نفاست سے محبت بھری . خواہشات کا اظہار کیا ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔۔ محبت میں فنا کی اہمیت بہت معنی رکھتی ہے ۔۔۔ یہ عشق کی منزل تک تب ہی پہنچ پاتی ہے جب میں اور تو کا فرق باقی نہ رہے۔۔۔۔ جب بس تو ہی تو ہو باقی کچھ نہ ہو۔۔۔ محبوب حق ۔۔۔۔ اور باقی بک بک ہو ۔۔ہا ہا ہا
    ?میں کچھ نہیں رہی ہوں میں “تو” بن گئی ہوں
    اب “تو” میری حقیقت اور خواب ہو گئی میں
    بقلم خود ۔۔۔ عظمی

Leave a Reply