خالد سہیل اور سنبل ضیا کے پانچ ادبی محبت نامے۔۔۔۔

سنبل ضیا کا پہلا ادبی محبت نامہ۔

وہ کہہ رہا تھا، تم ٹھیک ہو۔۔
میں نے پورے یقین سے کہا، ہاں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حالانکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ بولنا ایسا آسان بھی نہ تھا،یہ اور بات ہے کہ مجھے اب اس پر عبور حاصل ہو چکا تھا۔ حالانکہ میرے باطن میں مجھے ایک گلاب کی ادھ کھلی کلی نظر آرہی تھی جو مسلسل بارش کی بوچھاڑ سہہ کر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کی بساط بھر جدوجہد میں دھیرے دھیرے لرز رہی تھی۔وہ کِھلنا چاہتی تھی بھرپور پھول کی صورت وہ اپنی معراج کو چھونا چاہتی تھی اس میں اور اس چراغ کی لو ء میں کیا فرق تھا جو آندھیوں کی زد پہ جلنے کی کوشش میں کانپ رہا ہو

کیا واقعی تم ٹھیک ہو۔۔؟
مجھے لگا’ وہ میرے باطن میں چلنے والی آندھیوں کی آہٹ کو سن رہا تھا ۔میرا دل چاہا کہ میں اسے کہوں کہ میں ٹھیک نہیں ہوں، مگر عرصہ ہوا میں سچ کہنا بھول چکی تھی۔ میں اسے کہنا چاہتی تھی کہ تم نہ جاؤ اور تھوڑی دیر میرے سامنے یوں ہی بیٹھے رہو ۔ میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ میں غیر محفوظ ہوں اور اگر ہو سکے تو مجھے تہہ کر کے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں پڑے کاغذ پر لکھی نظم کا کوئی  حرف سمجھ کر ہمیشہ کے لیےوہیں پڑےرہنے دو مگر میں پورے اعتماد سے مسکرائی  اور اسے الوداع کہا۔ ہر شخص خود کو مضبوط ظاہر کرتا ہے اور اسے کرنا چاہیے ۔بالآخر ہمیں جینے کے لیے خود کو ٹتولنا پڑتا ہے۔ ہم انگلی پکڑ کے کب تک چل سکتے ہیں۔ اس نے مجھے آخری بار دیکھا اس کی روشن آنکھوں میں محبت کے ہزاروں پیامات تھے جنہیں نرم اور زرخیز زمین کی طرف بڑھنا تھا جیسے بادلوں کی عادت ہوتی ہےیا وہ کسی کے حکم سے ہواکے شانوں پہ سر رکھےاُڑتے چلے جاتے ہیں۔کلی کی نازکی بارش کے تھپیڑےاور بادلوں کے درمیان نہ سمجھ آنے والے خاموش معاہدے تھے۔سیٹی بجی ، اور انجن نے دہائی  دی ۔آخری دہائی  کلکٹر نے جھنڈی لہرائی  اور سٹیشن یکایک ویران ہو گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد سہیل کا دوسرا ادبی محبت نامہ

میں نے پوچھا ‘ بڑے عرصے بعد ملی ہو۔ کیا خیریت سے ہو؟
کہنے لگی ‘ہاں بالکل خیریت سے ہوں’
اس نے میرے کانوں کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی لیکن میرے دل نے اس کی آواز  میں لرزش سن لی۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھے یقین دلانے سے زیادہ اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں اس سے پہلے نجانے کتنی ایسی عورتوں سے مل چکا تھا، جنہیں اپنے غموں اور دکھوں کو اپنی مسکراہٹوں میں چھپانے کی عادت ہو چکی تھی۔وہ اپنا سچ بتانے سے ڈرتی تھیں۔
میں نے کہا ’ تمہارا سچ تمہیں آزاد کر دے گا۔
کہنے لگی ‘میں ڈرتی ہوں لوگ کیا کہیں گے۔
میں نے کہا ‘ تمہاری کہانی میں ان کی کہانی چھپی ہے اور ان کی کہانی میں تمہاری کہانی،
کہنے لگی ‘ میں نے سچ بتایا تو میرے والد اور میرے شوہر بدنام ہو جائیں گے،
میں نے کہا ‘اپنے لیے نہیں تو اپنی بیٹی کے لیے سچ بولو ورنہ تمہاری بیٹی بھی دکھی رہے گی اور دکھوں کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہے گا،
کہنے لگی ‘میں ابھی سچ بولنے کے لیے تیار نہیں۔۔
ابھی میں اپنی روایات ۔۔۔اپنے جذبات اور بزرگوں کے فرمودات کی قیدی ہوں ابھی کچھ دیر اور انتظار کرو،
میں نے کہا ‘میں کئی نسلوں اور کئی صدیوں سے انتظار کر رہا ہوں۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے،
یہ بات سن کر وہ خاموش ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے دو آنسو اس کے گالوں پر لڑھک گئے،
میں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور اس کے آنسوؤں کو چوم لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنبل ضیا کا تیسرا ادبی محبت نامہ

اس کی زندگی میں شفیق لمس اور نرمی کی اتنی محرومی تھی کہ اس ذرا سی ملائمت کو پا کر پگھل گئی ۔۔ اس بار اس نے آنسوؤں کو تواتر سے بہنے دیا،اچھا کیِا ،فطری محسوسات کے نتیحے میں حاصل ہونے والی مسرت ہو یا غم یا ہر دو کیفیتوں کے ملاپ سے بننے والی کیفیات ان سب کو روکنا نہیں چاہیے۔ اگر ان کو روک دیا جائے تو یہ بہت سے بگاڑ کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔۔ آخری لمحات تک اس کی حالت سنبھل چکی تھی , یہ بالکل ایسا ہی انوکھا تجربہ تھا جیسے دھوپ اور بارش ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے منظر کو رنگین بنا دیتے ہیں،جذبات اور شعور کی بہتی گنگا حسین تھی،میرا ماننا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو بہت کچھ عطا کر سکتے ہیں جیسے سورج اپنی کرنوں سے کیسی حرارت توانائی اور روشنی بکھیرتا ہے، وہ ہنسی, اس بار اس کی ہنسی فطری اور اصلی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد سہیل کا چوتھا ادبی محبت نامہ

وہ روتے روتے ہنسنے لگے۔
اس کے آنسوؤں بھرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں نے کہا ،میں نے تمہیں دوست بن کر گلے لگایا ہے۔
کہنے لگی مجھے اس کی عادت نہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے۔ سب مرد مجھے عورت سمجھ کر گلے لگاتے ہیں ،تم پہلے مرد ہو جس نے مجھے انسان سمجھ کر گلے لگایا ہے۔ مجھ سےہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
میں نے کہا ہم دونوں انسان ہیں اور دکھی ہیں۔
ہم دونوں کو ایک دوست کی ضرورت ہے۔ دوستی بہت قیمتی چیز ہے۔
وہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
کہنے لگی دوستی کا کیا فائدہ ہے؟
میں نے کہا دوستی دکھوں کو آدھا اور سکھوں کو دُگنا کر دیتی ہے۔
میں نے دوستی کا ایک دفعہ پھر ہاتھ بڑھایا۔۔
اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
کہنے لگی میں نجانے کتنی صدیوں سے تمہارا انتظار کر رہی تھی تم کہاں تھے
میں نے کہا میں بھی صدیوں سے انجانے راستوں پر تمہارا منتظر تھا۔
اس دفعہ وہ آگے بڑھی اور بڑی اپنائیت سے مجھے گلے لگا لیا۔
ہم اجنبی تھے لیکن ایسے گلے ملے جیسے جنم جنم سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ ہم دونوں خاموش تھے لیکن ہماری خاموشی ایک دوسرے سے ہمکلام تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنبل ضیا کا پانچواں ادبی محبت نامہ

Advertisements
julia rana solicitors

احساس کو لفظوں سے تصویر کیا جا سکتا ہے,
اِک اَن چھوئے خواب کو تعبیر کیا جا سکتا ہے,
اک محل ایسا بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply