حاجی کھسرا۔۔اجمل صدیقی

بچپن ہمارے گھر میں ایک کھسرا آتا تھا ۔۔۔میری ماں کے سر پر ہاتھ پھیرتا ۔۔بہت سی دعائیں دیتا ۔
ماں اسے
چنگیر سے روٹی نکال کے دیتی تھی ۔
وہ
ہمیں بھی بہت پیار سے بلاتا ۔۔۔کبھی اس کے ایک دو نوخیز لڑکیاں ہوتی ۔۔۔
تب میں انہیں لڑکیاں ہی سمجھتا تھا۔۔۔۔
وہ بھی بہت خوبصورت ہوتی تھیں ۔۔۔
جب وہ ہمارے گھر باہر نکلتے ۔تو نہایت بدصورت قسم کے لوگ ان کی بے عزتی کرتے ۔۔ان پر آوازیں
کستے ۔میں سوچتا اگر مجھے ایسا کرتے تو میں ان کا خون کردیتا۔۔خیر میں اتنا بھی تیس مار خاں نہیں تھا۔
میری روح کے کنویں سے آواز ابھرتی ۔۔
کیوں انہیں لوگ چھیڑتے ہیں ۔۔؟
کیا ان میں روح نہیں؟
ان میں احساس غم نہیں؟
کیا وہ تکیے میں منہ دے کے روتے نہیں ہونگے؟
کیا وہ فطرت کی غلطی ہیں؟
کیا وہ جین کا حادثہ ہیں ؟
۔۔۔کاتب تقدیر
نے کے مقدر میں کیا لکھا ہے؟
سماج نے کیا گھناونا مقدر دیا ہے۔۔
وہ اپنے چہرے پر غازہ ملتے تھے لیکن سماج نے جو سیاہی مل دی وہ اٹل ہے ۔۔مقدر کی طرح ہے
وہ ماں کے لئے عذاب
باپ کیلیے شرمندگی ہیں ۔
وہ حیاتیاتی صلیب پر لٹکے ہوئے
ارتقا کا مذاق آڑاتے ہیں
وہ انسانی تمدن سے کردار کی بھیک مانگتے ہیں ۔۔
جب مجھے کسی نے بتایا ہے ۔۔۔لواطت ان کا مقدر ہے ۔۔۔
میرا دل کیا کہ اپنا گریبان پھاڑ ۔۔۔
کر چلا چلا کر کہوں
انسان ایک خون ریز درندہ ہے۔
تمدن اک فریب ہے۔۔۔
وہ حاجی کھسرا
میرے پردہ شعور پر آتا ہے
کہتا ہے
مجھے کب انسان سمجھو گے ؟
میری تکریم کب کروگے ؟
سارا دن تیرے بھاشن ختم نہیں ہوتے ۔۔
کبھی پارلیمنٹ میں کبھی سیمینار میں ۔۔
مین اوتر نکھتر ہوں ۔۔۔
اک عضو کمی سے روح کے چیتھڑے اڑا دئےہیں تم ۔۔۔نے
وہ مجھے کہتا ہے
تم میں ہمت نہیں ۔۔
تم بھی کھسرے ہو ۔۔تہذیب یافتہ کھسرے
میں اٹھ کر باہر جاتا ہوں ۔۔۔
۔۔۔
دور سپیکر سے آواز آتی ہے ۔۔۔
تمام انسان برابر ہیں ۔۔ ۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply