مکالمہ کانفرس، انعام رانا اور مولوی

میں ابهی تک کنفیوز ہوں کہ انعام نے مولویوں کو گهیرا ہوا ہے یا مولویوں نے اسے گیڑہ دے رکها ہے… خیر خربوزہ چهری پہ گرے یا چهری خربوزے پہ، کٹنا خربوزے کے مقدر میں ہی ٹهہرا ہے۔ اس لیے دونوں صورتیں تشویشناک ہیں۔ شاید ابوالکلام آزاد نے کہا تها کہ “انڈیا میں مسلمانوں کی خیر نہیں ہوگی اور پاکستان میں اسلام کی۔” خاکم بدہن مولوی صاحبان “مکالمہ” کا بهی وہی حشر نہ کردیں جو پاکستان میں اسلام کا ہے۔

مکالمہ کانفرنس لاہور میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ (شریک کو ابرارالحق والا شریک سمجهنے میں بهی کوئی قباحت نہیں) کانفرنس میں یار لوگوں نے بهی شریک کے ساتھ ویسا ہی برتاو کیا جس کا شریک حقدار ہوتا ہے۔ سارے شریکوں نے اسٹیج پہ جا جا کر واحد شریک کو خوب آگ لگائی۔

میرے لیے مکالمہ کانفرنس لاہور کا خوبصورت ترین لمحہ انعام رانا کو زندہ یعنی لائیو دیکهنا تها۔ کانفرنس کا آغاز موسیو Jean Sartre نے شگفتہ انداز میں سامعین کی پسندیدہ شرائط و ضوابط سے کیا جنہیں 73 کے آئین کے تناظر میں بالاتفاق قبول کرلیا گیا۔

پہلے مقرر پروفیسر شہباز منج صاحب نے وہی باتیں پروفیسرانہ انداز میں بیان فرمائیں جو میں جاہلانہ انداز میں پیٹتا رہتا ہوں۔ (یہی وجہ ہے کہ ان کی بات کو کسی نے اہمیت نہ دی)۔ انہوں نے فرمایا کہ (مفہوم) “ہر فرقہ یہ مانتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور غلطی کی گنجائش باقی ہے مگر آج تک کوئی فرقہ بهی یہ نہیں مانا کہ ان کے فرقے کے کسی بهی عالم سے کسی بهی جگہ غلطی ہوئی ہے۔”

محترم عامر ہاشم خاکوانی نے مدلل گفتگو کی۔ سید بلال قطب نے بہت اچهی گفتگو فرمائی۔ دیگر تمام دوستوں نے بهی اپنے انداز میں بہت اچهی گفتگو کی۔

انٹرویو سیشن میں انعام رانا اور عارف خٹک چهائے رہے۔ عارف خٹک نے اپنی “شنو” کی نقاب کشائی کی۔ انعام رانا کی باتیں اور تمام احباب سے میل جول بالکل ویسے ہی تها جیسے پاکستان میں الیکشن کے دنوں میں کسی بهی سیاست دان کا ہوتا ہے۔ محبت ہی محبت.. پیار ہی پیار… اپنائیت ہی اپنائیت… قبلہ سید طفیل ہاشمی کے انٹرویو کے دوران احقر نے اپنے مخصوص جاہلانہ انداز میں ایک سوال پوچهنے کی جسارت کی “مولوی اور ملا کا لفظ ہمارے معاشرے میں کب آیا؟ جب ہم لفظ مُلا استعمال کرتے ہیں تو لوگ اسے علمائے سو کیلئے لیتے ہیں جبکہ مولوی کا لفظ استعمال کرنے پر لوگ مشتعل ہوجاتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟” جوابا ان کی نصیحت مجهے آج بهی یاد ہے اور چهوٹا بهائی ہونے کے ناطے میں انعام کو مولویت کے لیے وقف بهی کرچکا ہوں مگر سوال کا جواب نہیں ملا۔ یہ کہنے کی گستاخی میں نے وہاں بهی کی کہ “سر مجهے سوال کا جواب نہیں ملا”۔

آخری سیشن جو مکالمہ کا سیشن تها، وقت کی قلت کی نذر ہوگیا. وہی دراصل مکالمہ تها جس میں ہال میں موجود تمام احباب نے اپنی رائے دینا تهی۔ صحت مند علمی بحث کی توقع تهی۔ سچی بات یہ ہے کہ مجهے اس سیشن کے نہ ہونے کا اتنا دکھ ہوا، اتنا تو اپنے خصوصی خطاب کے نہ ہونے کا بهی نہیں ہوا۔

میں اپنے پورے ہوش و حواس میں، خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ کانفرنس مکالمہ کیلئے ایک بہترین کاوش ہے مگر ابهی اسے مکالمہ کانفرنس بننے کو وقت درکار ہے۔ میں اسے مکالمہ کی جانب پیش قدمی تصور کرتا ہوں۔

دوسری بات میں یہ سمجهتا ہوں کہ ہمارے مذہبی طبقے کی اس میں شرکت باعث مسرت ہے۔ ہاں خیال رہے کہ یہ لوگ مکالمہ کو ٹیک اوور نہ کرنے پائیں۔ مکالمہ لاہور اور کراچی کو دیکهتے ہوئے کانفرنس پر ان کا اثر و رسوخ واضح نظر آتا ہے۔ وقتی آسانیاں، دیرپا مشکلات کهڑی کرسکتی ہیں۔ پاکستان ایک مسلکی ملک ہے، یہاں کسی ایک خاص مسلک کیطرف جهکاؤ، باقی سب کو متنفر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ خیال رہے!

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں… انعام رانا بلامبالغہ ایک دیوانہ ہے… وہ دیوانہ جو لاہور کا بیٹا ہے. وہ جسے خواب دیکهنے کی عادت ہے۔ وہ جسے لگتا ہے کہ زندگی بطور وکیل گزارنے کے لیے زیادہ ہے۔ سوچیے… لندن کا وکیل… عیش و آرام… لاء فرم… خوبصورت سیکرٹریز…. حسین کولیگز… بیوی جیسے ڈراونے خواب سے آزاد…… سب چهوڑ چهاڑ کے پاکستان آنا… پیسے خرچ کرنا… قائداعظم کے حکم پر عمل پیرا ہوکر دن رات کام کام اور کام کرنا….. قائداعظم کی سنت سمجهتے ہوئے صحت خراب کروا لینا…. قائداعظم کی طرح اپنی محنت کا سارا کریڈٹ مولویوں کو دے دینا… یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے…؟ یہ پاکستان سے سچا عشق نہیں ہے تو اور کیا کہیں گے اسے؟؟؟

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply