• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزاد ہندوستان میں فراموش کردیے گئے ملت کے مجاہد ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے آخری سپاہی بدر کاظمی کے ساتھ خصوصی بات چیت(دوسرا ،آخری اوّل)۔۔۔ایم غزالی خان

آزاد ہندوستان میں فراموش کردیے گئے ملت کے مجاہد ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے آخری سپاہی بدر کاظمی کے ساتھ خصوصی بات چیت(دوسرا ،آخری اوّل)۔۔۔ایم غزالی خان

غزالی: اس کہانی میں ان کرداروں کے بارے میں بھی تو بتائیں جنہوں نے مسلم مجلس کو جمپنگ پیڈ کے طورپر استعمال کیا اورپھر موقع پرستی کی تمام حدود پارکرگئے۔
بدرکاظمی: اس وقت علیگڑھ کی جو قیادت تھی وہ ڈاکٹرصاحب کے نزدیک آئی اس میں اعظم خاں، عارف محمد خان، اخترالواسع، جاوید حبیب، زیڈ کے فیادن اوردیگر لوگ شامل تھے۔ یہ بات ڈاکٹرصاحب کی وفات کے بعد معلوم ہوئی کہ کچھ لوگوں کی ڈاکٹر صاحب مالی کفالت بھی کیا کرتے تھے۔ میں ان لوگوں کے نام بتانے سے قاصرہوں۔ اس کا میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ بہرحال ان کی زندگی تک تو یہ تمام لوگ وفادار رہے۔ اس کے بعد یہ سب غائب ہوگئے۔ مثلاًاعظم خان 1974 اور 1977 مجلس سے لڑے مگر1980 میں وہ چودھری چرن سنگھ کے ساتھ چلے گئے اور پھر ملائم سنگھ کے ساتھ چلے گئے اوردھیرے دھیرے پرانے ساتھیوں کو پہچاننا بھی بند کردیا۔ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔
یہی عارف محمد خان کا ہوا۔ عارف محمد خان کو پیلو مودی نے ڈاکٹرصاحب سے مانگا تھا کہ اس نوجوان کو مجھے دے دیجیے۔ اس وقت اتحاد چل رہا تھا بی جو پٹنائک، پیلو مودی، راج نارائن چرن سنگھ وغیرہ کا۔ اس وقت یہ ان کے ساتھ چلے گئے مگر منسٹرمجلس کے کوٹے پربنے تھے۔ ان کا بڑا اختلاف شاہ بانو والے معاملے سے شروع ہوا جب انہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کی تھی جو اخترالواسع نے تحریرکی تھی۔ اس کے بعد ہی ان کا اسلامیات اور مطالعے کی جانب رحجان بھی ہوا۔

عارف محمد خان کے ساتھ بدر کاظمی کی آخری ملاقات

اور انہیں کا کیا، محمد مسعود خان جیسا آدمی جو مجلس کے کوٹے پرمنسٹر بھی رہا وہ بھی چھوڑ چھاڑکرچرن سنگھ کے ساتھ چلے گئے اورراجیہ سبھا بھیجے گئے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ الیاس اعظمی، جو دو مرتبہ ایم پی رہ چکے، ایک مرتبہ سماج وادی سے اوردوسری مرتبہ بی ایس پی سے۔ انہوں نے بھی مجلس کو چھوڑدیا۔ مگر الیاس صاحب کے بارے میں یہ کہنا پڑے گا کہ دوسروں کی طرح وہ ڈاکٹرصاحب کو بھولے نہیں۔ آج بھی ڈاکٹرصاحب کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ عالم بدیع اعظمی آج بھی سماجوادی کے ایم ایل اے ہیں۔ مجلس کا جھنڈا لے کر اس آدمی نے دو الیکشن لڑے۔ بہت ضعیف ہوگئے ہیں اﷲ ان کے عمردراز کرے مگر آج غلطی سے بھی ان کے منہ سے ڈاکٹرصاحب کا نام نہیں سنیں گے۔ جب بھی بات کریں گے ملائم سنگھ کی کریں گے۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے بھائی۔
غزالی: جن شخصیات کا آپ نے ذکرکیا ہے ان میں دو شخصیات زیادہ معروف ہیں۔ اعظم خان اور عارف محمد خان۔مجھے تو 1972 میں، جب میں بہت کم عمر تھا۔ ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول پر اس وقت کے طلبا یونین کے صدر عارف محمد خان اور اخترالواسع کی پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے تصویر آج بھی یاد ہے۔ اگلے روز خبرآئی کہ یونیورسٹی سے ان سب کا اخراج ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے بے حد صدمہ ہوا تھا۔ پھرجب 1974 میں علیگڑھ میں داخلہ لیا تووہ یونیورسٹی چھوڑ چکے تھے۔ ان سے ایک عقیدت سی تھی۔ کشمیرہاؤس میں وہ ایک سینئرکے کمرے پر موجود تھے۔ اس وقت ان سے مصافحہ کرکے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد کچھ سینئرز کو بات کرتے سنا کہ یہ شخص بلا کا مفاد پرست ہے۔ کانگریس میں شامل ہونے والا ہے۔ یہ کانگریس کا ٹکٹ لے کر اپنا قبلہ بدل لے گا اور اخترالواسع کو جامعہ ملیہکی لیکچرر شپ دے کر خاموش کردیا جائے گا۔ مجھے یہ باتیں سن کر بہت دکھ ہواتھا۔ اخترالواسع نے بہرحال ملت کا سودا نہیں کیا اور سیاست چھوڑ کرایکیڈیمک زندگی شروع کردی۔ مگر عارف محمد خان کا جہاں تک شاہ بانو کیس تک انہوں نے اصولی موقف اختیارکیا تھا۔ مگر بعد میں ان کی جو تصویر سامنے آئی اس کی مثال ایسے شخص سے دی جا سکتی ہے جسے اپنے بھائی سے اختلاف ہوجائےاور وہ گراوٹ کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے خاندان کے ایسے دشمن سے جاملے جس سے گھرکے شر سے گھرکی نیک دامن خواتین بھی محفوظ نہ ہوں۔
بدرکاظمی: جب تک وہ ہندوتوا کی گود میں جا کر نہیں بیٹھے تھے میں انہیں قابل معافی سمجھتا تھا۔ جو کردار وہ آج ادا کررہے ہیں اس سے تو میں کسی صورت اتفاق نہیں کرسکتا۔ میں جانتا ہوں کہ شاہ بانو کیس کے بعد اس شخص کو جس طرح پوری ملت نے ذلیل ورسوا کیا، خاص طورپرہمارے علما ء کے طبقے نے، اس کے نتیجے میں اس نے محسوس کیا کہ اس کا سیاسی قتل کیا جارہا ہے۔ اورایسا نہیں ہے کہ صرف زبانی یا سیاسی طریقوں سے ایسا کیا جارہا ہوبلکہ جسمانی طورپر بھی اس کو ہراساں کیا گیا۔ اس پرتین قاتلانہ حملے ہوئے جن میں سے ایک پروفیسر مجیب کے جنازے میں اس کے سر پر سریے سے حملہ کیا گیا جس میں اتنا شدید زخمی ہوا کہ آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ لیجایا گیا جہاں بتایا گیا کہ اگر دس پندرہ منٹ اوردیر ہوجاتی تواس کی موت واقع ہوجاتی۔ اس چیز نے اسے ہم سے بہت دورکردیا۔ اور میرے خیال سے اس کے بعد سے ملت میں اس کی واپسی ممکن نہیں رہی۔ علماء سے وہ پہلے ہی خوش نہیں تھے مگر اس حملے کے بعد ان کی نفرت کی انتہا نہیں رہی۔ اس کے بعد انہوں نے لائن ہی بدل لی اور اس حد تک بدل لی کہ تقریباً دو سال قبل ان سے میری ایک ملاقات ہوئی تھی۔ آپ کو فوٹو دکھا سکتا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی جو ہوچکا ہوچکا، آپ اب بھی ملت کی خدمت کر سکتے ہیں، اس کو ایک قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ آج پرانے حالات نہیں رہے۔ مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ ہے جو پرسنل لاء پر علماء سے اتفاق نہیں کرتا۔ ان میں، میں خود بھی شامل ہوں۔ اس وقت میں اس مسئلے میں آپ کا مخالف تھا لیکن مطالعے سے پتہ چلا کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کا موقف غلط تھا۔ وہ مجھ سے لڑنے کوتیار ہوگئے۔ کیا بات کرتے ہیں آپ۔ کس قوم کی بات کروں۔ بے ہنگم ہجوم ہے کوئی کسی کی سننے کو تیار نہیں۔ جومیری جان لینے کے درپے رہے میں ان کے لئے کیا کروں۔ میں نے کہا کہ ارے بھائی وہ ایک مخصوص طبقہ تھا۔ پوری ملت تو نہیں تھی۔ آپ ہمت کریں۔ میدان میں آکر بات کریں۔ قوم کو بتائیں کہ اس ملک میں ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے۔ جس طرح کوئی ڈاکٹرصاحب مرحوم پر فرقہ پرستی کا الزام نہیں لگا سکا آپ پر بھی نہیں لگا سکے گا۔ اور آپ ملت میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس میں صبرچاہیے اور وقت لگے گا۔ خیر انہوں نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ میں ایکٹو پولیٹکس میں تو بالکل نہیں آؤں گا۔ میں تو لکھنے پڑھنے کا کام کررہا ہوں یہی کرتا رہوں گا۔ نہ کسی پارٹی میں شامل ہوں گا۔ اب جیسے ہی بی جے پی حکومت میں آئی انہیں کیرالہ کا گورنر بنادیا گیا۔ ایک بات توبہرحال ہے، تم اتفاق کرو یا نہ کرو، مسلمانوں کی نجات ملاازم سے نجات میں ہے۔

غزالی: جس ملا ازم کی آپ بات کررہے ہیں اس کا بھی اور روایتی قیادت کا بھی انتظام تو اﷲ تعالیٰ نے کردیا ہے۔ میرے لئے تو جو بات خوش آئند ہے وہ یہ ہے کہ نئی نسل کے بہت سے فارغین مدارس کی سوچ میں زبردست فرق آیا ہے۔ لیکن جہاں تک مفادپرستی کا تعلق ہے کوئی اچانک مفاد پرست نہیں ہوجاتا۔ اس کے جراثیم پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے لمحات میں مجھے جاوید حبیب مرحوم یاد آتے ہیں کہ کیسے کیسے مشکل حالات کا انھوں نے سامنا کیا مگر کبھی اپنے اصولوں پیچھے نہیں ہٹے ۔
بدرکاظمی: جاوید حبیب کا جہاں تک تعلق ہے، وہ ایک مخلص آدمی تھا۔ وہ ملت کے لئے بھی مخلص تھا ،اسلام کے تئیں بھی مخلص تھا۔ اس کے ذاتی اغراض و مقاصد نہیں تھے۔ ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں وہ نسل جس کے پاس اخلاص تھا، للٰہیت تھی، غیرت تھی، حمیت تھی اور جسے ملی مفاد عزیز تھا وہ قبروں میں جا چکی۔ آج کی سیاست میں صرف ذاتی مفادات ہیں۔ کسی میں تھوڑا بہت ملی جذبہ ہے بھی تو وہ ثانوی ہے۔ پہلے یہ چیز ہے کہ میں کسی طرح خود اپنی زندگی بنالوں اس کے بعد ملت آتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں۔ چند لوگ رہ گئے ہیں جو چراغ سحر ہیں جو کسی بھی وقت گل ہو سکتے ہیں۔ ابھی ہم نظریے کی بات کررہے تھے۔ آج ہمارے پاس مجلس کے جھنڈے اور لیٹرہیڈ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ ماضی والا جذبہ اب آپ پیدا نہیں کر سکتے۔ وہ نسلیں ختم ہوچکیں۔ مثال کے طورپرہم مولانا حسین احمد سے کتنا بھی اختلاف کریں مگریہ وہ شخصیت تھی کہ جب اسے پدم شری کا خطاب دیا جاتا ہے تو وہ اسے واپس کردیتے ہیں اور ملنے والی رقم بھی یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ میں نے جو خدمت بھی انجام دی وہ اس سب کے لئے نہیں دی۔ یہ چیزیں ثابت کردیتی ہیں کہ اس شخص کا ایک کردار تھا اور اس کا مقصد ذاتی مفادات حاصل کرنا نہیں تھا۔ انہیں کی اولاد کا کردار آپ کے سامنے ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے گئے نوجوانوں کی رہائی کے لئے ارشد مدنی کی کاوشوں کی تعریف کی جاتی تھی۔ بیچ میں، میں بھی ان کی اس خدمت کا قائل ہونے لگا تھا مگر پھر یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ وہ ایجنسیوں سے ملے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان نوجوانوں میں سےکچھ کو رہا کروالیتے ہیں کچھ سے اقبال جرم کروا کر پھنسا دیا جاتا ہے۔یہی بات ان کے وکیل محمود پراچہ نے کہی تھی ۔ پھرموہن بھاگوت کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات کے بارے میں انہوں نے آج تک نہیں بتایا۔ اس ملاقات کا یہ اثرضرور دیکھا گیا کہ جب بھاگوت نے یہ کہا کہ ہندوستان کا ہر شہری ہندو ہے، انہوں نے اس کی تائید کرڈالی اورکہہ ڈالا کہ اس میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اس کی تائید میں انہوں نے لغات مجازی کا سہارا لیا اور کچھ اشعار بھی سنائے۔ لہٰذا اپنے کو ہندو کہنے میں بھی انہیں کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے بعد کے اخبارات اٹھائیں تو یہ بیان آرہے ہیں کہ یہ لوگ ملک کو ہندو راشٹرکی جانب لے جارہے ہیں۔ محمود مدنی کہتا ہے کہ ہم نے نظام مصطفیٰ کو ریجیکٹ کیا۔ کہتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان بائی چوائس ہندوستانی ہے۔ کیا حماقت ہے۔ ارے بائی چوائس والی نسل تو کب کی ختم ہوچکی۔ تمہارے باپ دادا یہ بات کہہ سکتے تھے تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو۔ ہندوستانی مسلمان بائی برتھ ہندوستانی ہے۔ اس کا اس زمین پر برابر کا حق ہے۔ ارے بھائی تم چاہتے کیا ہو۔ کیوں ملت میں خلجان پیدا کر رہے ہو؟ پھرجنیوا جا کر پریس کانفرنس کر کے این آر سی اور کشمیر ہر ایشو پر حکومت کے ساتھ ہونے کا اعلان کرتے ہیں، واپس آکر دھرنا پردرشن کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صاحب ہم نے سینے پہ گولی کھائی ہے، ہمارے سینے کم نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں نئی نسل میں ملی حمیت اور غیرت کہاں سے پیدا ہو گی؟
سی اے اے مخالف احتجاج میں ایک بات بہرحال اچھی ہوئی ہے کہ روایتی قیادت میں مسٹر ہوں یا ملا سب کوگھربھیج دیا گیا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جس طرح ایک وقت میں علیگڑھ نے اپنا کردار ادا کیا تھا، جامعہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ وہ اپنے بانیان کے نظریے کو لے کر آگے بڑھے اور ترنگا اٹھا کرمیدان میں اترے، اپنی شناخت بحیثیت ہندوستانی منوانے کی کوشش کی اور پورے ملک کو متاثرکیا جس کے نتیجے میں ترنگے کے ساتھ احتجاج پورے ملک میں شروع ہوئے۔ یہی ہمارا طریقہ کار ہونا چاہئے کہ اس ملک کے پرچم اور آئین کا احترام کیا جائے اوربحیثیت ہندوستانی اپنی شناخت پرزوردینا چاہیے۔ بہرحال اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

غزالی: مسلم قیادت کے حوالے سے موجودہ حالات میں نگاہیں اسد الدین اویسی کی جانب اٹھتی ہیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
بدر کاظمی: دیکھیے370 پر جب مسلمانوں میں ایک سکوت طاری تھا، کسی مسلم لیڈرکی بولنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی، اویسی نے دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ اس پر میں نے ان کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ جو کچھ اویسی نے کہا ہے ، وہ مسلمانوں کی مشترکہ آواز ہے۔ کیونکہ ایک زمانے میں ان کے والد ہماری مدد کر چکے تھے تو ان کے لئے ہمارے دل میں نرم گوشہ بھی تھا۔ ہم نے ان سے رابطہ کرنے کو کوشش کی، آپ کو یاد ہے کہ مرحوم سلیم پیرزادہ نے انہیں تین خط لکھے جن کا جواب دینا تو درکنار معمولی رسید بھیجنے کی بھی موصوف نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ میں خود یہ چاہتا تھا کہ آج جب ہم سب لوگ ناکام ہیں اور وہ بھی اپنے ذرائع، وسائل اور تہی دامنی کی وجہ سے کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ذرائع اور وسائل دئے ہیں، ان کےپاس بے پناہ دولت ہے تو یہ لوگ میدان میں آئیں تو ہم تعاون کریں گے۔ ہم کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں موقع دیا جائے، صدارت اور عہدے دئے جائیں اوراسمبلی اور پارلیمنٹ کے ٹکٹ دیے جائیں۔ صرف اتنا چاہتے تھے کہ یوپی کے مختلف علاقوں میں جو لوگ رہ گئے ہیں کم از کم ان سے یہاں کے حالات، مسائل اور طریقہ کارپر ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرلو اورایک پالیسی اور پروگرام بنا کر اس کے مطابق آگے بڑھو۔ مگر افسوس کہ وہ تو کسی سے بات تک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ہر ایک کو جانتے ہیں پہچانتے ہیں مگر کسی سے بات کرنے کو راضی نہیں ہیں۔ میں اندیشوں کا شکار ہونے کا قائل نہیں ہوں مگر جو کچھ نظرآرہا ہے اسے دیکھ کرتو ایسا لگتا ہے کہ یہ کھیل ہے جو کہیں اور سے کھیلا جارہا ہے اور بی ٹیم والا معاملہ نظرآرہا ہے۔ مہاراشٹر میں آپ الیکشن لڑے ٹھیک تھا۔ مگر اب جوآپ جھارکھنڈ میں جا کر الیکشن لڑ رہے ہیں اس میں کیا منطق ہے بھائی؟ آخر کس لئے؟یوپی میں آپ ضرور آئیں مگریہاں آنے کے لئے کیا آپ نے زمین تیارکی؟ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، اسے عوام میں جانا ہوگا، ایک پیغام دینا ہوگا، کمیٹیاں بنانی ہوں گی، پولنگ بوتھز پر آپ کے ورکرز ہونےچاہئیں۔ زمین پر آپ کا کوئی کام نہیں ہوتا اور آپ یوں ہی سر اٹھائے چلے آتے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے بھائی؟ یہ تمام چیزیں سمجھ سے باہر ہیں۔ اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ کسی اورکا ایجنڈا ہے جن کی مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں میں اشتعال پیدا کرنا ضرورت ہے۔ اقلیت دنیا میں کہیں بھی ہو اکثریت کو چیلنج کرکے خوش نہیں رہ سکتی۔ مسا ئل ہوتے ہیں مگر انتہائی حکمت اور خوش اسلوبی کے ساتھ انہیں سمجھنا اور سمجھانا ہوتا ہے۔

غزالی: موجودہ قیادت میں تیسری شخصیت اعظم خان کی ہے۔ آپ کے ان سے بھی روابط رہے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا جائزہ ہے؟
بدرکاظمی: اعظم خان اس وقت جو بھی کچھ ہیں، اندازے کی غلطی انہیں مارگئی ہے۔ رامپورمیں 1973 میں میری ہی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ بازار نصراﷲ میں شاید شمسی صاحب کا مکان تھا جہاں پرمیٹنگ ہوئی تھی اور میرے ہی قلم سے محمد اعظم خان نے مسلم مجلس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 1974 اور 1977 میں انہوں نے مجلس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ 1980 تک ان میں مروت بھی تھی اورملی معاملات میں وہ سنتے بھی تھے اوراس پر غور بھی کرتے تھے۔ اس کے بعد ان میں ایک خناس یہ پیدا ہوتا چلا گیا کہ ہندوستان میں اگر کوئی مخلص اور ایماندار مسلم سیاست داں ہے تو وہ میں ہوں باقی سب کرپٹ اور بے ایمان ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں شدت پسندی آئی جس کی وجہ سے انہوں نے خاص طور پر ان مسلمانوں کو جو مذہنی شناخت رکھتے تھے ان کےساتھ انتہائی نامناسب رویہ اختیارکیا۔ اس سے لگنے لگا تھا کہ یہ شخص ہم سے دورہوتا چلاجارہا ہے۔ پچھلے انتخاب میں ان کو ایک غلط فہمی یہ تھی کہ کیسے بھی حالات ہوں حکومت ان کی جماعت ہی کی بنے گی۔ نہ حکومت مرکز میں بنی نہ یوپی میں اوراب بالکل بے یارو مددگار ہیں۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ رامپورمیں ان کی جانب سے واقعی لوگوں پر زیادتیاں ہوئی ہیں۔ اور بھائی معذرت کے ساتھ اب تو یہ ایسا لگتا ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کرعلیگڑھ نے جتنے بھی لوگ ملت کو دئے ان سب کے نزدیک ذاتی مفادات مقدم تھے ملت ثانوی درجہ رکھتی تھی۔ سب نے ابتدا ملت کا جھنڈا اٹھا کر کی مگرجب وقت آیا تو ملت پس پشت چلی گئی اورذاتی مفادات سامنے آگئے۔ یونیورسٹی بن رہی ہے تو تاحیات چانسلر آپ اور آپ کے خاندان کے لوگ رہیں گے۔ چلیے یہ بھی سہی۔ پھر اس میں لوگوں پر ظلم وستم ہورہے ہیں۔ حتیٰ کہ درمیان میں جب ان کو پارٹی سے نکالا گیا تو یہ شخص کہہ رہا تھا کہ ملائم سنگھ نیچے جو کچھ پہنے ہوئے ہے وہ بھی زعفرانی ہے اس کے بعد پھر یہ ہوا کہ میرے بچے کی شادی پر پہلا لقمہ توڑیں گے تو ملائم سنگھ توڑیں گے۔ تو ملت سے ان کا کیا لینا دینا رہ گیا۔ نہ انہیں ملت کی اب کوئی پرواہ ہے۔ اب تو میں ہوں، میری بیوی اور میری اولاد۔

غزالی: آپ نے اعظم خان کے بارے میں فرمایا ہے کہ مذہبی حلیے والوں کے تئیں ان میں بہت نفرت اور حقارت ہے۔ مذہبی حلیے والوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
بدرکاظمی: مثلاً داڑھی ٹوپی والے یا علما یا وہ لوگ جو مدارس اور مساجد سے وابسطہ ہیں ۔ کیونکہ وہ اوقاف کے وزیررہ چکے ہیں وہاں بہت سی بدعنوانیاں ان کے علم میں آئیں۔ اس وجہ سے ان میں بہت شدت پیدا ہوگئی اور اب ان کی نظرمیں کوئی ایماندار رہ نہیں گیا۔ مگریہ طریقہ بہت غلط ہے۔ آپ سب کو ایک ہی خانے میں کیسے رکھ سکتے ہیں؟

غزالی: مگرعلماء بیزاری کا الزام تو آپ پر بھی ہے؟ ۔
بدرکاظمی: نہیں ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ میری مخالفت صرف مدارس کے تعلق سے ہے جو کچھ وہاں ہورہا ہے۔ جس طرح کی نسل وہاں تیار ہورہی ہے اور جس طرح کے لوگ وہاں سے آرہے ہیں۔ وہ اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا نہیں کرپارہے ہیں اس کی تکلیف ہے اورکچھ نہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ مولانا قاری طیب صاحب علیہ رحمہ اور مولانا سالم صاحب علیہ رحمہ سب کو میں نے سرپر اٹھائے رکھا۔ مولانا علی میاں کا آپ کو ایک واقعہ سنادیتا ہوں۔ (نہایت جذباتی اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے) میں یہ بات کہنا نہیں چاہتا تھا۔ آپ نے مجبورکردیا تو کہہ رہا ہوں۔ ڈاکٹرفریدی علیہ رحمہ کو مولانا علی میں نے جو صدمہ پہنچایا تھا، اسے فراموش نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹرصاحب نے کبھی ایک پیسے کا چندہ مسلم مجلس کے لئے نہیں کیا۔ ہمیشہ اپنی اپنی دولت اس پر لٹائی۔ جب 1974 کا الیکشن آیا تو جتنا بڑا آپ کا یہ ہال ہے وہ پورا الیکشن لٹریچر سے بھرا ہوا تھا جس میں علی میاں کی اپیلوں، جو انہوں نے خود لکھوائی تھیں، پوسٹرز اور جتنا بھی لٹریچر تھا اس میں علی میاں نمبر ایک پر تھے ، تصویروں کے ساتھ۔۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مجلس علی میاں کے کہنے پر بنائی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹرڈاکٹری کرتے رہیں گے اور انجینئرز انجینری کرتے رہیں گے اور یہ قوم تباہ ہوجائے گی۔ تو ڈاکٹرصاحب میدان میں آگئے۔ مگر ایک دن یہ ہوا یہ کہ بہوگنا یوپی کے وزیراعلیٰ تھے۔ وہ روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے علی میاں کے پاس پہنچ گئے۔ الیکشن کی پوری تیاری ہے، تمام لٹریچر تیار ہے اور بہوگنا تھوڑی دیر کے لئے مولانا کے پاس گئے۔ اس وقت گومتی کے کنارے پر جو پٹری ہے یہ کچی ہوا کرتی تھی اور اس پر دھول اڑا کرتی تھی۔ علی میاں نے بہوگنا جی سے اسے پکی کروانے کو کہا جو انہوں نے تین دن میں کروادی اور علی میاں کا ڈاکٹرصاحب کے پاس فون آگیا کہ میں معذرت چاہتا ہوں میری اپیل شائع نہ کی جائے۔ میں بہت کم عمر تھا مگر ڈاکٹرصاحب کے بہت قریب تھا۔ا ﷲ جانتا ہے کہ میں نے (تقریباً روتے ہوئے) ڈاکٹرصاحب کے چہرے پر ایسی تکلیف اور مژمردگی کبھی نہیں دیکھی۔ بھائی صاحب کا تو یہ کہنا تھا کہ اگر ڈاکڑصاحب زندہ رہ جاتے اور الیکشن گزرجاتا تو ایک مرتبہ پھر قائد اعظم اورآزاد کے درمیان ایک جنگ دیکھنے کو ملتی۔

غزالی: آپ کے بارے میں بھی لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں۔ مثلاً مسلم مجلس مشاورت کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے میں آپ کا کردار۔
بدرکاظمی: میں وہیں آرہا تھا۔ میری تربیت بڑے بھائی کے ساتھ ہوئی ، میں زندگی میں جو کچھ حاصل کرسکا میرے بڑے بھائی کا مرحون منت ہے۔ مشاورت میں جب اختلافات ہوئے اور جس حد تک گئے اس کے اصل ذمہ دار سید شہاب الدین صاحب مرحوم تھے۔ ذوالفقاراﷲ صاحب مشاورت کے صدر تھے اورانہیں بائی پاس کر کے انہوں نے مشاورت پر قبضہ کیا۔ ہاشم پورہ اور ملیانہ کے نام پر تقریباً آٹھ نو لاکھ روپیہ باہر سے آیا تھا یہ اندرون ملک سے آیا تھامجھے یاد نہیں۔سید شہاب الدین صاحب نے وہ رقم کنارہ بینک میں فکسڈ ڈپوزٹ میں جمع کروادی تھی۔ اس سے ملنے والے سود سے مشاورت کی میٹنگیوں کے اور دیگر اخراجات ادا ہوتے تھے۔ سوچ کر افسوس ہوتا ہے کہ شہاب الدین صاحب جیسے شخص نے یہ حرکت کیسے کی۔ اور اس غلطی کو آج تک کسی نے درست نہیں کیا۔ اس بات پر بھائی صاحب کا شدید اختلاف تھا۔ اس اختلاف کی وجہ سے دو مشاورتیں بنیں اور بھائی صاحب نے دیوبند کورٹ میں شہاب الدین صاحب اور علی میاں کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا کہ جوپیسہ متاثرین کی مدد کے لئے آیا تھا وہ ان کو نہیں پہنچایا گیا۔ کیونکہ مقدمے میں ڈاکٹرشکیل صاحب مرحوم بھی فریق تھے۔ مجھے اس مقدمے کا علم نہیں تھا مگر جب میرے علم میں یہ بات آئی تو راستے میں شکیل صاحب کا مطب تھا، میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ڈاکٹرصاحب جو لوگ شیش محل میں رہتے ہیں وہ دوسروں کےمکانوں پر پتھر نہیں پھینکا کرتے۔ انہوں نے مجھے بہت غور سے دیکھا اور کہا کہ کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا میں اس وقت سہارنپورجارہا ہوں شام میں بات کروں گا۔ اگلے دن میں بھائی صاحب کے پاس گیا اور شکیل بھائی کو اسکوٹرپر ساتھ لے کرگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جب آپ نے محض تعلقات کی بنیاد پر ذوالفقاراﷲ صاحب کا نام نہیں رکھا تو علی میاں کا نام بھی نکال دیں۔ میں نے زوردے کر کہا کہ علی میاں کاآج بھی ملک و بیرون ملک ایک وقار ہے۔ آپ کو مقدمہ کرنا ہے تو سید شہاب الدین صاحب اوران کے حواریوں کے خلاف کردیجیے۔ اس سے آپ کی اپنی رسوائی ہوگی۔ مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی۔ بہرحال مقدمہ دیوبند سے سہارنپور چلاگیا جہاں ایک مسلمان جج تھے انہوں نے وہاں مقدمہ خارج کردیا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے ڈاکٹرصاحب کے ساتھ کیا وہ مسئلہ الگ ہے مگر میں نے کبھی مولانا علی میاں کے لئے بدزبانی نہیں کی۔ ان کا ایک علمی مقام ہے اور میں ان کا مداح ہوں۔ مدارس پر میری تنقید اس بات پر ہے کہ کبھی ان میں اساتذہ بھی اعلیٰ گھرانوں کے ہوتے تھے اورطلبا بھی جن میں بہت سے باصلاحیت علما ء نکلتے تھے۔ مگرآج گھرکے سب سے نااہل بچے کو مدرسے میں بھیجا جاتا ہے کہ کچھ اور نہیں کر سکتا تو مولوی تو بن ہی جائے گا۔ اس کے نتیجے میں گزشتہ پچیس تیس سال سے جو کچھ یہاں سے نکل رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

غزالی: محمد علم اﷲ کی تحریر کردہ کتاب مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ میں کہا گیا ہے کہ جب مشاورت کے جنرل سیکریٹری تھے اور کسی موقع پر شفیع مونس صاحب نے آپ کو خط لکھا کہ اب آپ مشاورت کے جنرل سیکریٹری نہیں رہے اور آپ سے انہوں نے مشاورت کے اکاؤنٹ کا حساب مانگا تو آپ نے اس کو جواب دیا کہ آپ ان کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور حساب نہیں دیا۔
بدرکاظمی: میں مشاورت میں صرف مجلس کے نامزد نمائندے کی حیثیت میں تھا۔ میرے پاس کبھی کوئی عہدہ نہیں رہا۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ یقیناً یہ غلط فہمی ہے ،طباعت کی غلطی۔ ہو سکتا ہے یہ خط و کتابت شفیع مونس صاحب اور بھائی صاحب کے درمیان ہوئی ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply