صحرا کا شیر، عمر مختار۔فاروق بلوچ

امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک مسجد کا نام “مسجد عمر المختار” رکھا گیا ہے. جبکہ کویت، غزہ، قاہرہ، دوحا، تنزانیہ، ریاض اور اربد میں عمر مختار نامی شاہراہیں موجود ہیں. جبکہ 17 فروری 2011ء میں شروع ہونے والی “لیبیا سول جنگ” کے دوران مختلف، پوسٹروں اور نوجوانوں کی شرٹوں پہ عمر مختار کی تصاویر ہوتی ہیں. 2009ء میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی مرحوم روم کے سرکاری دورے پہ گئے تو ان کی قمیض پہ عمر مختار کی تصویر پرنٹ تھی. لیبیا کے دس ریال کے نوٹ پہ بھی عمر مختار کی تصویر ہوتی ہے. انتھونی کوئن، اولیور ریڈ اور ائرین پاپ کی مشہور فلم Lion Of Desert بھی عمر مختار کی زندگی اور جدوجہد پہ مبنی ہے. یہ عمر مختار تھا کون؟

1931ء میں عمر مختار اطالوی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور اُسی سال 16 ستمبر کو پھانسی چڑھ گیا. پھانسی سے ایک روز قبل عمر مختار نے کہا تھا: “میں نے کبھی اٹلی کی حکومت کی اطاعت کی ہے نہ کروں گا. میں نے اطالوی فوجوں کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیا ہے، جب کسی معرکے میں میری شمولیت نہیں تھی تب بھی وہ معرکہ میری کمان و احکامات کے تحت ہی ہوتا تھا. مجھے فخر ہے. میں ایک شاندار مثال پیش کرنے جا رہا ہوں، فتح یا شہادت”. اس طرح عمر مختار کی تیس سالہ جنگِ مزاحمت کا خاتمہ ہو گیا.

اکتوبر 1911ء میں اٹلی کی رائل میرین نے لیبیا پہ حملہ کر کے تین دن طرابلس اور بن غازی پہ مسلسل بمباری کی اور قبضہ کر لیا. ترکی کی فوجیں مقابلہ کرنے کی بجائے پسپا ہو گئیں. لیبیا کا اکثریتی اور اہم ترین علاقہ اٹلی کے قبضے میں چلا گیا.  لیکن جلد ہی اطالوی فوج کو لیبیا میں شدید گوریلا جنگ کا سامنا کرنا پڑا. لیبیا میں اطالوی فوج کو سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ شدید مزاحمت کا سامنا عمر مختار کے گروہ کی طرف سے کرنا پڑا.

طبروک کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں 1858ء میں پیدا ہونے والا عمرمختار اپنی اوائل عمری میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہو گیا. اُس کی تمام تعلیم علاقائی مساجد اور مدرسوں میں مکمل ہوئی. جب اطالوی فوجوں نے لیبیا پہ قبضہ کیا تو 52 سالہ عمر مختار ایک مسجد میں قرآن کا معلم تھا. لیکن اسے افریقی ملک چاڈ میں فرانسیسی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا تجربہ حاصل تھا. وہ صحرائی جنگ کی بہترین حکمت عملیوں کا ماہر تھا. وہ اطالوی فوجوں کے مقابلے میں مقامی جغرافیہ سے بھی واقف تھا لہذا اُس نے استعماریوں کو انتہائی زک پہنچائی. وہ انتہائی مہارت کے ساتھ بار بار اطالوی فوجوں پہ حملہ کرتا، ان کو شدید نقصان پہنچاتا اور پھر صحرا میں روپوش ہو جاتا تھا. اُس نے گھات لگا کر دشمن کی سپلائی لائن کو برباد کر دیا، اطالوی بہت حیران و پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوفزدہ بھی ہوئے.

1924ء میں جبلِ اخدار کے پہاڑی علاقہ میں اطالوی گورنر ارنسٹو بمبیلیلی نے ایک انسداد گوریلا فورس بنائی جس نے اپریل 1925ء میں مزاحمتی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا جس کے بعد عمرمختار اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پہ مجبور ہو گیا. اسی اثناء میں وہ مصر سے امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا. 1925ء سے لےکر 1928ء تک عمرمختار کی جدوجہد کا عروج تھا، لیبیا میں جہاں جہاں بھی اطالوی فوج موجود تھی، وہاں وہاں عمر مختار نے حملے کیے. حتی کہ اطالوی جنرل ٹیروزی یہ کہنے پہ مجبور ہو گیا کہ “مختار غیر معمولی استحکام اور طاقت کا حامل صحرائی شیر ہے”.

فروری 1929ء میں اطالوی گورنر اور عمر مختار کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا مگر نومبر 1929ء میں وہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے دوبارہ جنگ شروع کر دی. پھر اطالوی حکومت نے لیبیا میں اپنی فوج کو بےپناہ جنگی وسائل سے لیس کرتے ہوئے جبل اخدر کا مکمل گھیراؤ کا پلان دیا. پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا، حتی کہ غیرمسلح عام شہریوں میں سے بھی کوئی آ جا نہیں سکتا تھا. مزاحمتی مجاہدین ہر قسم کی  مدد اور کمک سے عاری ہوگئے. مقامی غداروں اور مخبروں کی مدد سے گیارہ ستمبر 1939ء میں صحرا کا شیر حالتِ جنگ میں گرفتار ہو گیا. تہتر سالہ عمر مختار کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور پھر پورے شہر پہ ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی.

Advertisements
julia rana solicitors

اطالوی جنرل روڈالفو گریسیانی نے اٹلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا کہ درمیانی قد کا سفید باریش بوڑھا عمرمختار انتہائی چست، چالاک اور ذہین ہونے کے ساتھ باکردار اور بہادر بھی ہے.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply