واہ عالیجاہ واہ۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

عزت ما ٓب  صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف  علوی صاحب کا،  امت مسلمہ  کے غم اور انسانیت  کی تڑپ لئے ہوئے ٹویٹر پر ایک بیان نظر سے گزرا۔آنجناب دہلی کے حالیہ فسادات کو بربریت  قرار دیتے ہیں ۔وہاں مساجد کی شہادت  کو بابری مسجد کی شہادت سے جوڑتے ہیں ۔

صدر مملکت دکھی ہیں۔ اسی لئے کم از کم مذمتی بیان داغ کر اپنا فرض پورا کر رہے ہیں ۔ یقیناً  انسانیت کے ناتے ہر انسان  ظلم  کو ظلم ہی کہے گا ۔  انسانیت کی تذلیل کوئی بھی کرے وہ قابلِ مذمت ہے۔

لیکن جناب صدرِ مملکتِ  اسلامی جمہوریہ پاکستان!  جان کی امان پاتے ہوئے عرض ہے کہ جن سرحد پار  اعمال کو آپ قابل مذمت قرار دے رہے ہیں ۔  وہی اعمال آپ کی مملکت خداداد میں بارہا رونما ہو چکے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف آپ کے  عہد  سعید میں  ارض پاک پر کئی احمدی مساجد سے اس سے بڑھ کر بربریت کا سلوک ہو چکا ہے۔ چلیں پاکستان کے قانون  میں احمدیوں  کے لئے لفظ مسجد ممنوع ہے تو اسے احمدیوں کی عبادت گاہ کہہ  لیتےہیں ۔لیکن کیا مساجد ، چرچ، عباد گاہ کی حرمت کا ذکر خود رب کائنات نے قرآن حکیم میں نہیں فرمایا۔

سیالکوٹ کی سو سالہ پرانی تاریخی مسجد اور احمدیوں کی عبادت گاہ  دہلی کی مساجد اور بابری مسجد سے زیادہ بربریت کے ساتھ مسمار کی گئی ہے  اور یہ  کارنامہ آپ کے دورِ  حکومت میں سرانجام پایا ۔ ابھی چند روز قبل  کھڑیپر قصور میں   قریباًایک  صدی  پرانی مسجد اور احمدیوں کی عبادت گاہ پر مسلمانوں نے  قبضہ کر کے جشنِ فتح  منایا ہے۔

جب ایک چور چوری نہ کرنے پر وعظ کرے، ایک قاتل احترام انسانیت اور حرمت خون پر لیکچر دے، ایک خود کش حملہ آور سینے پر بم  باندھ کر عورتوں ، بچوں اور معصوموں کو قتل نہ کرنے کا داعی بن کر مذمت کرے تو  واقعی ایسے کرداروں کے حوصلے کی داد  دینا پڑتی ہے۔ ایسے ہی  حکومت کے حوصلے  کی داد دینا پڑتی ہے کہ کس قدر  اولوالعزمی سے دنیا میں انسانیت  پر ہونے والے مظالم کی مذمت کرتی اورناک کے نیچے ہونے والے مظالم  اسےنارمل دکھائی دیتے ہیں۔

جناب  صدر مملکت یقین مانیے  آپ  صدر مملکت ہیں ۔ جان لیجئے کہ سرحد پار ہونےوالی بربریت  اگر قابل مذمت ہے تو سرحد کے اندر  ایک پُر امن جماعت کے ساتھ ہونے والا وہی سلوک بھی  بربریت  ہی کہلائے گا ۔ ظلم ظلم ہی رہتا ہے ۔ سرحدوں اور فرقہ بدل جانے سے ظلم کی تعریف بدلتی ہے نہ  بربریت حلا ل ہو جاتی ہے۔ جو اعمال  سرحدوں کے  باہر قابل مذمت ہوں وہ سرحدوں کے اندر جائز اور  قابل ستائش  نہیں بن جاتے ہیں۔  جناب صدر  ظلم ظلم ہی رہتا ہے ۔

لیکن جن لوگوں کو عینک لگا کر دیکھنے کی عادت ہو ،انہیں اس کےبغیر صاف دکھائی دیا نہیں کرتا۔سرحدوں کے اندر نہ من کے اندر۔  عینک ظاہری ہو یا  جہالت و لا علمی کی ، تعصب کی ہو یا نفرت کی ۔ فرقہ واریت کی  ہویا نسل پرستی کی۔

جناب  صدر مملکت دست بستہ عرض ہے کہ   آپ کی رعایا پر یہی بربریت  کئی بار آزمائی جا چکی ہے اور اسے کرنے والے باہر  سےنہیں آئے تھے ۔ لیکن آنجناب سے کوئی ٹھوس عملی قدم تو دور کی بات مذمت کا ایک بیان بھی ٹویٹ نہ ہو سکا۔کوئی جھوٹی تسلی ، کوئی دلاسہ کو ئی پُرسہ، کوئی اظہارِ ہمدردی آپ کی طرف سے کیا نہ جا سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوس کہ آپ  کی  عینک بھی دور کی ہی نکلی۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply