ٹرمپ کی ثالثیاں براۓ فلسطین و کشمیر۔۔محسن علی خان

مشہور زمانہ فلم “ گاڈ فادر “ کا چوتھا حصہ  جب پاکستان میں ریلیز ہوا تو وزیر اعظم نواز شریف اس فلم کے اہم کردار ہونے کی وجہ سے سابقہ وزیر اعظم بن گئے اور جی ٹی روڈ یعنی کہ جرنیلی ٹرنک روڈ پہ سفر کے دوران اپنے ہاتھوں کی آٹھ انگلیاں اور دو انگوٹھے عوام کی طرف کرتے ہوۓ لیکن اپنی نظریں چُراتے ہوۓ سوالیہ انداز میں پوچھتے رہے کہ “ کیوں نکالا مجھے “ ۔ نظریں چُرانے کا یہ عمل دراصل کسی ایسے عربی یا انگریزی کندھے کی تلاش میں تھا جس پہ وہ سر رکھ کے اپنے دل کا غم ہلکا کرتے۔ وہ کندھا میاں صاحب کو تو میسر آ نہیں سکا لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو اس کے مشکل وقت میں امریکی صدر ٹرمپ کی صورت میں داماد کی لاٹھی کی وجہ سے مل گیا۔

اسرائیلی وزیراعظم پر بھی تین عدد کرپشن کے کیسز کی وجہ سے مواخذے کی تلوار لٹک رہی ہے جس میں اپنے اور اپنی بیگم کے لئے کچھ ایسے قیمتی تحائف لینے اور اس کے بدلے ٹیکس معاملات میں قانون سازی، اپنی پسند کے کچھ اخبارات ، رسائل و جرائد سے اپنے اوپر پنجابی والا” ہتھ ہولا رکھیں وے” کی دہائی اور بدلے میں ان کے مقابلے میں آۓ پبلشرز پہ پنجابی والی” نتھ پا دیاں گے تے وٹ کڈ دیاں گے”۔ تیسرا الزام تقریباً وہی ہے جو پاکستان کے دو بڑے میڈیا ہاوسز پہ اس حکومت اور سابقہ حکومت میں لگتا رہا بس فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان میں جو کام ہم پیمرا کے ذریعے کرواسکتے تھے، وہ کام اسرائیلی وزیراعظم خود وزیر کمیونیکیشن ہوتے ہوۓ کر رہا ہے۔

اسرائیل میں متوقع الیکشن دو مارچ کو ہو رہے ہیں جو کہ پہلے دس مارچ کو ہونے تھے لیکن یہودی کیلنڈر میں دس مارچ کو پوریم کی چُھٹی آرہی ہے۔ نیتن یاہو جو کہ  پچھلے دس سال سے متواتر وزیراعظم چلا آرہا ہے اس بار بھی اس کی پارٹی کی پوزیشن بمقابلہ اپوزیشن لیڈر بینی جینٹز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے قدرے کمزور نظر آرہی تھی لیکن امریکی صدر کے یہودی النسل داماد جیرڈ کشنر کی بنائی ہوئی اسرائیل و فلسطین میں “ امن و خوشحالی “ کی پالیسی کے تحت ٹرمپ نے جب اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ساتھ بٹھا کر “ ڈیل آف دا سنچری “ کا نعرہ بلند کیا اور دنیا کے قدیم ترین شہر یروشلم جو کہ بیک وقت تینوں مذاہب ، اسلام ، مسیحی اور یہودیت کے لئے مقدس جگہ ہے اس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوۓ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا علان کیا تب نیتن یاہو نے پہلے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ میڈیا سے آنکھیں ملائیں اور پھر امریکی صدر کے گولڈن بالوں کی طرف دیکھ کے میر تقی میر کا شعر یاد کیا۔

ہم ہوۓ تم ہوۓ کہ میر ہوۓ
اُن  کی زلفوں کے سب اسیر ہوۓ

مواخذہ سے گھبرایا ہوا ستر سالہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ٹرمپ ثالثی کے بعد عوام کو اپنی جذباتی تقریروں کے زیر اثر لانے کے لئے بجاۓ اپنی خدمات بتاتا کہ اس نے اپنی جوانی اسرائیل کی ڈیفنس فورس، اسپیشل فورس میں ہوتے ہوۓ جنگ کپور لڑی اور سوئز کنال کے آپریشن میں نمائندگی کی ، سب سے کم عمر اور زیادہ دیر تک وزیراعظم کا منصب سنبھالے رکھا، اب ٹرمپ کی ثالثی کے بعد کھلے عام کندھے اُچکا کے انگریزی کی اصطلاع “ وچ ہنٹز “ استعمال کرتا نظر آرہا ہے جو اس نے ٹرمپ سے ہی مستعار لی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ ابھی مواخذے کے ٹرائل سے بچ نکلے ہیں، پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور ایوانِ نمائندگان کے کام میں مداخلت کے الزام تھے۔ امریکی سینٹ میں ان دونوں الزامات کو لے کر  راۓ شُماری ہوئی ہے جس میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی نے اپنے صدر کے حق میں ووٹ ڈال کے نا صرف ان الزامات سے بَری کروا لیا ہے بلکہ اپنے اعتماد کا اظہار کر کے نومبر میں آنے والے الیکشن میں دوسرے ٹرم کے لئے بطور صدارتی امیدوار ٹرمپ کے کِلّہ کو اور مضبوط کر دیا ہے۔

اب 89سالہ ڈیموکریٹ سپیکر نینسی پیلوسی صاحبہ بے شک ہاتھ نہ ملاۓ جانے پہ بدلے میں صدر ٹرمپ کی اسٹیٹ آف دی یونین تقریر کے صفحات پیچھے کھڑی ہو کے دو ٹکڑوں میں کرتی رہیں لیکن ٹرمپ اب بھی کندھے اُچکا کے “ وچ ہنٹز “ کہے گا اور ری پبلیکن تالیاں مارتے ہوۓ میر تقی میر کا اک اور شعر پڑھیں گے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
اِن دِنوں تم بہت شریر ہوۓ

جولائی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے اپنی پہلی گرم جوش ملاقات میں جب صدر ٹرمپ نے انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے عمران خان کو دائیں طرف بٹھا کے کشمیر پہ ثالثی کی بڑھک ماری جس کے جواب میں مودی سرکار نے پانچ اگست کر دیا ج,کے نتیجہ میں کشمیر کی آبادی اکیسویں صدی کی شعب ابی طالب کی گھاٹی بن کے رہ گئی۔ خوبصورت وادی بہار اور سرما کے موسم میں بھی صرف خزاں کا نظارہ پیش کرتی ارہی،اور وزیراعظم پاکستان نے ہر جمعہ کے مقدس دن میں سے تیس منٹ کشمیر کے نام کر کے وادی کو بہار نو کی نوید ٹویٹر پہ سنائی ، کیا خبر وادی کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا بھی ہے یا نہیں، کیوں کہ وادی میں انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ ذرائع بالکل بند ہو چکے تھے۔

ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نے دھواں دار خطاب کیا اور مودی کو پنجابی زبان کے مطابق متھے رنگ دیاں گے والا پیغام دیا اور کُھل کر کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا، اسی دوران ٹرمپ کے ساتھ پھر ملاقات ہوئی جس میں دوبارہ مسئلہ کشمیر پہ ثالثی والا بیانیہ دہرایا گیا لیکن نتیجہ “ ہنوز دِلی دُور اَست “ مودی سرکار نے کوئی بھی دباؤ برداشت نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوۓ مسلسل جنگی جنون برقرار رکھتے ہوۓ لائن آف کنٹرول پہ جھڑپیں جاری رکھیں اور اپنا تسلط آزاد کشمیر تک بڑھانے اور سرجیکل سٹرائیک کی گردان جاری رکھی ہوئی ہے۔
جنوری میں ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فارم کے موقع پہ اب تیسری ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ مسئلہ کشمیر پہ ثالثی اور تجارت جیسے موضوع زیر بحث آۓ۔ وزیراعظم نے جس طرع ٹویٹر پہ مودی سرکار کے فسطائی ایجنڈے کو مغربی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے اب اس کو سمیٹ کر امریکی صدر کو کشمیر سے متعلق ایک نکاتی ایجنڈا دینے کا وقت ہے۔

ایک طرف امریکی صدر فروری کے آخری ہفتے بھارت کے دورے پہ آرہا ہے جہاں معاشی تجارتی معاہدے کرتے ہوۓ جوش میں آکے کشمیر کا بھی فلسطین جیسا “ امن اور خوشحالی “ کا سفیر نہ بن بیٹھے ، اس اہم وقت پہ حکومت اور اپوزیشن نے پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر والے دن پارلیمنٹ میں جو غیر سنجیدگی دکھائی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ، یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنی خارجہ پالیسی سے جڑے افراد کو متحرک کر کے امریکہ میں کشمیر پالیسی سے متعلق لابنگ کرتے تاکہ صدر ٹرمپ دورہ بھارت میں متوازن پالیسی اختیار کرے، ہم چینی اور آٹے کے تھیلے اٹھاۓ ہوۓ میر تقی میر کا یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مت مل اہل دوّل کے لڑکوں سے
میر جی اِن سے مل فقیر ہوۓ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply