جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر میں اپنی تعلیم کے دوران مجھے طوائفوں کی زندگی پر ایک پروگرام تیار کرنے کا خیال آیا۔ اپنے پروفیسر سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی تائید کی۔ میرے ذہن میں پروگرام کا جو خاکہ تھا اس کے مطابق مجھے کچھ طوائفوں کے انٹرویو کرنے تھے۔ بس مسئلہ یہیں آکر پھنس گیا۔ ہمیں پتہ تھا کہ دہلی میں جی بی روڈ ریڈ لائٹ ایریا ہے لیکن وہاں کے بارے میں سنا تھا کہ جو صحافی وہاں انٹرویو کرنے گیا اس سے یا تو کسی نے بات نہیں کی یا پھر اس کی پٹائی کرکے پیسے اور کیمرہ بھی چھین لیا گیا۔ ظاہر ہے ان حکایتوں کو سننے کے بعد اس علاقہ میں انٹرویو کے لئے جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ادھر ادھر فون دوڑائے تو پتہ چلا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہی ایک فارغ طالبہ ایک این جی او میں کام کرتی ہے اور اس این جی او کا مقصد طوائفوں کی باز آباد کاری ہے۔ انٹرویو کے سلسلہ میں میں مایوس ہو گیا تھا لیکن اس خبر سے امید کی کرن دکھائی دی اور میں نے اس لڑکی سے رابطہ کیا۔ لڑکی نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے دفتر میں کچھ طوائفوں کو انٹرویو کے لئے راضی کرنے کی کوشش کرے گی۔ خیر دو تین دن بعد اطلاع آئی کہ فلاں دن این جی او کے دفتر میں انٹرویو ہونا طے پایا ہے۔ دہلی کی چلچلاتی گرمی میں میں اور میرا کلاس فیلو دہلی ایئرپورٹ کے سامنے واقع کالونی مہی پال پور پہنچے۔ این جی او کے دفتر میں پہلے اسی لڑکی سے ملاقات ہوئی جس کی مدد سے انٹرویو ممکن ہوئے تھے۔ اس لڑکی نے بتایا کہ یہ خواتین ہفتے میں ایک دن ہمارے دفتر آتی ہیں تاکہ مختلف ہنر کی ٹریننگ لے کر اپنے موجودہ پیشے کو خیرباد کہہ سکیں۔ ذرا دیر بعد ایک دوسرے کمرے میں میں انٹرویو کے لئے درجن بھر خواتین کے سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے پہلے طوائفوں کا نام کتابوں، پاکستانی ڈائجسٹوں اور کہانیوں میں ہی پڑھا تھا۔ ہندی سنیما میں جو طوائفیں میں نے پردے پر دیکھی تھیں وہ اپنے لباس اور انداز سے آسمانی مخلوق معلوم ہوا کرتی تھی۔ اس دن پہلی بار میں نے طوائفوں کو حقیقت میں اپنے سامنے دیکھا جو میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ وہ تو بالکل عام عورتوں کی طرح تھیں۔ نہ نفیس اور چمکیلا لباس، نہ چاندی کی چوٹی نہ غازہ نہ جھومر۔ میرے سامنے تو کچھ ویران چہرے بیٹھے تھے۔ کچھ کی گود میں بچے تھے اور کچھ جو نوعمر تھیں ان کی آنکھوں اور باتوں میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے خواب تھے۔
اس دن مجھے پتہ چلا کہ طوائف نہ تو کسی پیشے کا نام ہے اور نہ کسی مزاج کا بلکہ طوائف مجبوری کا نام ہے۔ میں گھنٹوں ان کی آپ بیتی سنتا رہا لیکن مجھے ان میں نہ تو کسی نواب یا رئیس کی منہہ چڑھی محبوبہ نظر آئی اور نہ مردوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں بیچ دینے والی نائکہ۔ ان میں کوئی کسی کی چاہت میں گھر بار چھوڑ کر آئی تھی اور اس کا وہی عاشق اسے بہت معمولی پیسوں میں کوٹھے پر بیچ گیا۔ کسی کا شوہر بستر مرگ پر تھا جس کے علاج کی سبیل اور گھر چلانے کی خاطری نوکری ڈھونڈنے دہلی اسٹیشن پر اتری اور وہاں سے سیدھے جی بی روڈ پہنچا دی گئی۔ سب کی داستان میں ایک ہی مشترکہ چیز تھی اور وہ یہ کہ دو وقت کی روٹی اور حالات کے دھارے نے ان سب کو اس پیشے میں ڈال دیا تھا جس میں رہنے والی عورت طوائف کہلاتی ہے۔
ان سب نے یہی کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ اس زندگی سے نکل جائیں جہاں ہر ہر قدم پر انہیں گوشت کا لوتھڑا سمجھ کر بھنبھوڑا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ان کو دھتکارتے ہیں، ان پر تھوکتے ہیں۔۔۔ان سب کی باتوں سے لگتا تھا کہ انہیں ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ ان کی زندگی تو جیسے بھی کٹی، ان کے بچوں کا کیا قصور ہے جو انہیں اس معاشرے میں ذلت کے ساتھ سر جھکا کر رہنا ہوگا کیونکہ ان کی ماں طوائف ہے۔ اس دن مجھے معاشرے کی منافقت اور بے شرمی کا خوب اندازہ ہوا۔ یہ معاشرہ جو ایک عورت کو اپنی اجتماعی کاوش سے ان حالات کی طرف دھکیلتا ہے جہاں اسے زندہ رہنے کے لئے طوائف بننا پڑتا ہے وہی معاشرہ اخلاقیات کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس طوائف کو ذلت بھری زندگی کی وعید سناتا ہے، لوگوں کو اس طوائف کو ذلت کے تیروں سے ہلاک کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ معاشرہ نہ اس عاشق سے گھن کھاتا ہے جو ایک عورت کو پیار کا وعدہ کرکے گھر سے بھگا کر لایا اور کوٹھے پر لے جا کر بیچ دیا۔ یہ منافق سماج اس بے غیرت نام نہاد مرد سے بازپرس نہیں کرتا جو اسٹیشن پر بھوکی اور بے سروسامان عورت کو دیکھ کر کھانا کھلانے اور نوکری کا وعدہ کرکے اس کو جسم فروشی کے دلدل میں لے جا ڈالتا ہے، اس سماج کی زبان پر اس وقت آبلے پڑ جاتے ہیں جب ریڈ لائٹ ایریا میں کوئی دلال مرد سڑک پر گھوم گھوم کر جسم بھببھوڑنے والے کسی بھوکے کو تلاش کرتا ہے تاکہ دلالی حاصل ہو سکے۔
یہ اخلاق کی دھن پر ناچ ناچ کر ہلکان ہونے والا معاشرہ چین کی نیند سو رہا ہوتا ہے جب کہ اسی شہر میں طوائف نام کی مخلوق دو وقت کی روٹی کے لئے اپنا جسم بیچ رہی ہوتی ہے۔ اتنے بڑے معاشرے میں ساحر، منٹو اور گرو دت کے علاوہ کیا کسی اور کو ان پائمال جسموں کی سسکیاں نہیں سنائی دیتیں؟۔
شام ڈھلے تک ان طوائفوں سے انٹرویو کرنے کے بعد میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ وہ خواتین ڈھولک لئے بیٹھی تھیں۔ میں نے سوچا پروگرام میں ان کی آواز میں کوئی گیت شامل کروں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اگر چاہیں تو ڈھولک پر کوئی گیت گائیں تاکہ میں اسے ریکارڈ کر لوں۔ ان سب نے ڈھولک کی تھاپ پر گانا شروع کیا۔
گوری ہیں کلائیاں
پہنا دے مجھے ہری ہری چوڑیاں
اپنا بنا لے مجھے او بالما
اس سے زیادہ سننے کی مجھ میں طاقت نہیں بچی تھی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا، ریکارڈر بیگ میں ڈالا اور اپنے ساتھی کے ساتھ این جی او کے دفتر سے نکل آیا۔ شام ڈھلنے کو تھی اور سورج نے آسمان پر شفق بکھیر دی تھی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا جیسے آسمان رو رہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں