سفید خون، محاوروں سے بیماری تک؟ ڈاکٹر لبنی مرزا

پاکستان سے آئے جونئیر ڈاکٹر نے جب اینڈوکرائن کلینک میں‌ کام کیا تو اس نے ایک ایسا سوال پوچھا جو ہر اس اسٹوڈنٹ کے ذہن میں‌ آئے گا جو مریض دیکھنا شروع کرے۔ جن مریضوں کی بیماری کے شروع میں‌ ٹیسٹ کر کے ان کے مسائل معلوم کرکے حل کررہے ہیں، ان کی طرح‌ کے کتنے لوگ دنیا میں موجود ہوں گے جنہیں کچھ معلوم نہیں‌ کہ ان کے ساتھ کیا پرابلم ہے۔ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے، جن باتوں‌ کا ہمارے دماغ کو پتا نہیں‌ ہوتا وہ سامنے ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں‌ دیتیں۔ آکسیجن تو ہمیشہ سے تھی، اس کو دریافت کرنے میں‌ انسانوں‌ کو صدیاں‌ لگ گئیں۔ جونئر ڈاکٹر کو یہ بھی پتا چلا کہ کتابی نالج میں‌ اور اصلی زندگی میں‌ کیا فرق ہے اور اس یاد کی ہوئی کتابی نالج کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔
ٹھیک رات کے بارہ بجے زور زور سے فون کی گھنٹی بجی۔ جلدی سے اٹھایا تاکہ سب گھر والے نہ جاگ جائیں۔ انٹرنل میڈیسن کا کالیگ جس کی زیادہ تر پریکٹس کلینک کی ہے، وہ بڑی پریشانی سے بولا ایک مریض اکیوٹ پینکریاٹئٹس کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوا ہے، اس کا ٹرائی گلسرائڈ لیول تین ہزار ہے! تین ہزار۔ تم نے کسی کا اتنا ہائی لیول دیکھا ہے۔ ہاں! دیکھا ہے۔ سب سے زیادہ جس کا تھا وہ تھا چھ ہزار۔ جب ہم نے اس کا خون نکالا تو شیشے کی ٹیوب میں‌ لال نہیں بلکہ میلے دودھ کی طرح‌ تھا۔
اس کال کے بعد واپس سونے کی کوشش کی، آدھی رات میں‌ ہر آواز کتنی واضح سنائی دیتی ہے، گاڑیوں‌ کے گذرنے کی، دور بھونکنے والے کتوں‌ کی، گھڑی کی ٹک ٹک کی۔ ایک دم میرے زہن میں‌ سفید دودھ کی طرح‌ کے خون اور “خون سفید” ہونے والے محاورے کا خیال آیا۔ یہ کانسپٹ کہاں سے شروع ہوا ہوگا؟ پہلے زمانے میں‌ تو سوئیاں‌ اور خون نکالنے والی ٹیوبیں‌ وغیرہ نہیں‌ ہوتی تھیں۔ یقینا” کوئی کٹ کٹا گیا ہوگا تو لوگوں‌ نے دیکھا ہو گا کہ لال کے بجائے سفید خون ہے۔ انہوں‌ نے اس بات کو حیرت سے دیکھا ہوگا پھر اس کی وجہ سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش کی ہوگی۔
اردو کی زبان میں‌ خون سفید ہوجانا اس شخص کے لئیے کہتے ہیں جس کے لئیے وہ یہ سمجھیں‌ کہ اس کو اپنے خونی رشتوں‌ کا کچھ خیال نہیں‌۔ حالانکہ خون سفید ہونے کا مطلب یہ نہیں‌ ہے کہ کسی انسان کی شخصیت کیسی ہے بلکہ یہ ہے کہ ان کے کولیسٹرول کا علاج کریں‌ ورنہ ان کو بہت کم عمری میں‌ ہارٹ اٹیک اور اسٹروک ہونے کا خطرہ ہے۔ چھ ہزار ٹرائی گلسرائیڈ والا مریض کئی سال سے واپس نہیں‌ آیا۔ کیا معلوم اب زندہ بھی ہے کہ نہیں۔ دنیا کی تاریخ‌ میں‌ انسان مشاہدے سے سیکھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ انہوں‌ نے ہمیشہ سے واقعات یا حالات کو معنی کے جامعے پہنانے کی کوشش کی ہے۔ وقت کے ساتھ دنیا کے بارے میں‌ ہماری معلومات بڑھی ہیں اور ان وجوہات کا پرانے زمانے کے لوگوں‌ کی تشریحات کے ساتھ موازنہ کافی دلچسپ ہے۔ پہلے زمانے میں‌ اگر کوئی بچہ کسی پیدائشی معذوری کے ساتھ پیدا ہوتا تھا جیسے کسی کے دو چہرے ہیں، کسی کے کئی بازو ہیں، کوئی دو انسان جڑے ہوئے ہیں، کسی کو ایپی لیپسی کا دورہ پڑ رہا ہے تو عام انسان اس کو باہر کی دنیا سے بھیجا ہوا کوئی پیغام یا اوتار سمجھتے تھے۔ باہر تو کچھ بھی نہیں سب کچھ اپنے دماغ میں‌ ہی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آج کتنی باتیں‌ ہیں‌ جن کو ہم ایکسپلین نہیں‌ کرسکتے اور وہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں‌ کریں‌ گی۔ یقینا” ان آنے والے افراد کو پہلے سے لکھا ہوا یاد کرانے کے بجائےسوچ بچار کرنا، نئے راستے نکالنا اور نئے مسائل کے حل تلاش کرنا سکھانا ہوگا۔ جو یقینا” ہمارے لئیے تکلیف دہ ہو گا کیونکہ وہ ہمارے آئیڈیاز کو چیلنج کریں گے۔ یہ شعوری ارتقاّ کا لازمی حصہ ہے۔
سفید خون والے افراد خود کو سبزی خور بنا کر اور دواؤں‌ کے باقاعدہ استعمال سے اپنے کولیسٹرول لیول کو کم رکھ کر خود کو دل کے دورے اور فالج ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ یقینا” آپ کے خون کے سفید ہونے کا آپ کی نیچر سے کچھ تعلق نہیں۔ اپنے خاندان سے محبت کرنے والے ایک اچھے انسان کا خون بھی سفید ہوسکتا ہے۔ وہ اس جینیاتی ڈھانچے کے ساتھ پیدا ہوئے جس میں‌ انسان کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں۔ ہم اپنے والدین نہیں‌ چنتے۔
سفید خون کے علاج کے لئیے جو دوائیں آج کل دستیاب ہیں وہ مندرجہ زیل ہیں۔
Fenofibrate
Gemfibrate
Fish oil
Niacin
Statins
2010 میں‌ آنیا اور میں‌ نے اسکائپ پر روزانہ ساتھ میں‌ پڑھائی کی اور اینڈوکرنالوجی کا بورڈ ایگزام پاس کیا۔ وہ ایریزونا میں‌ کام کرتی ہے اور میں‌ اوکلاہوما میں۔ ہم راچسٹر منی سوٹا میں اینڈوکرائن یونیورسٹی میں ملے تھے اور تب سے دوست ہیں۔
2008 میں‌ جب انٹرنل میڈیسن کا بورڈ ایگزام پاس کیا تو 2018 کافی دور دکھائی دیتا تھا۔ اب اتنا قریب آگیا کہ اگلے سال ہے۔ آنیا کو فون ملایا اور کہا کہ ایک سال میں‌ ہمارا انٹرنل میڈیسن کا بورڈ ایگزام دوبارہ دینے کا وقت سر پر آگیا ہے تو ہمیں مل کر روزانہ کلینک کے بعد ساتھ میں‌ ایک گھنٹہ پڑھائی کرنی چاہئیے تاکہ ایک سال میں‌ تیاری ہوجائے اور ہم دوبارہ سے یہ بورڈ سرٹیفکٹ لے سکیں۔ اس نے کہا کہ میں‌ تو اس کو جانے دینے کے بارے میں‌ سوچ رہی تھی۔ چونکہ ہمارے پاس دو بورڈ سرٹیفکٹ ہیں، ایک انٹرنل میڈیسن کا اور دوسرا اینڈوکرنالوجی کا اور پریکٹس کرنے کے لئیے ایک ہی کافی ہے۔ بلکہ بہت جگہوں‌ پر بورڈ سرٹیفائیڈ کے علاوہ بورڈ ایلیجبل ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن میں‌ نے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ ہمیں‌ ضرور اپنے دونوں‌ بورڈ سرٹیفکٹ ایکٹو رکھنے چاہئییں کیونکہ ان کے لئیے ہم پڑھیں گے اور پچھلے نو دس سال میں‌ انٹرنل میڈیسن کی دیگر فیلڈز میں‌ انفارمیشن کتنی آگے نکل گئی ہے، اچھا ہی ہے کہ اس کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ “اگلے ہفتے تو میں‌ اپنی فیملی سے ملنے پولینڈ جارہی ہوں، واپس آؤں تو پڑھنا شروع کرتے ہیں۔” اس نے حامی بھر لی۔
یہ مضمون پڑھنے والے جو بھی افراد سوچ رہے ہیں‌ کہ “ٹو بی اور ناٹ ٹو بی؟” تو اس کا جواب ہے کہ ضرور کریں۔ جو بھی زندگی میں‌ کرنا ہو اس کو اپنا 200 فیصد دیں اور آخری دروازے تک جائیں۔ جب آپ کو اپنی حدود اور اپنی فیلڈ کی معلومات کی حدود سمجھ میں‌ آجائیں‌ گی تو آپ کو دوسرے انسانوں‌ کی معلومات کی حدود بھی سمجھ آنے لگیں‌ گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
طب کے پیشے سے وابستہ لبنی مرزا، مسیحائی قلم سے بھی کرتی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply