مارٹن سیموئیل برق ( حصّہ پنجم)۔۔اعظم معراج

ایک بھرپور زندگی از سیموئیل مارٹن برق

انتساب

اپنی محبوب بیوی لوئز کے نام جس نے اچھی صحت، دنیاوی کامیابی اور خوشی کے حصول میں مدد دی

مندرجات

پیش لفظ

اظہارِ تشکر

باب اول: پیدائش، آباواجداد اور تعلیم (1928-1906)

میرے دادا اور اس کا خاندان

میرے نانا

میری والدہ

اپنے باپ کے متعلق میرے ملے جلے احساسات

کچھ صدماتی واقعات

میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا

میرے یونیورسٹی کے برس (29-1922)

میں نے جامعہ کے امتحانات کی تیاری کیسے کی

کرکٹ، میرا پسندیدہ کھیل

دوسرے طلبا کو ٹیوشن

سگریٹ نوشی کی لت سے بمشکل بچاؤ

میرے کالج کے پروفیسرز

پرنسپل گیرٹ، میرا محافظ فرشتہ

باب دوم: میں ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے آہنی چوکھٹے کا ایک حصہ بن جاتا ہوں

میرے دو مقاصد

انڈین سول سروس

میں انڈین سول سروس سے محروم ہوتے ہوتے رہا

میرے محافظ فرشتے نے مجھے بچایا

انگلستان کا میرا پہلا تاثر

باب سوم: مجھ پر تحفہ آسمانی جیسی شادی کی عنایت

مخلوط شادیوں کے خلاف گہرا تعصب

دوستی اور محبت

لویئز میرا دل لے گئی

دل تو کھو گیا تھا لیکن دماغ کا کیا بنا؟

ہماری سادہ مگر پروقار شادی

لویئز اور میرا خاندان

لویئز کی ہندوستانیوں سے جان پہچان (تین مثالیں)

لویئز بوریت سے کیسے گریزاں رہی

لویئز کا سماجی وقار

لویئز صرف گھر میں محدود نہ تھی

ہاں، یہ ایک پرانی طرز کی شادی تھی

لویئز کی بیماری اور وفات

احمد خان

باب چہارم: انڈین سول سروس میں میرے سال (1947-1931)

حصہ اول: مجھے ایک شاندار عہدہ ملتا ہے

 

سلسلہ ہمالیہ میں ہمارے سفر

روئرچ خاندان

وادی کولو

ہم نے وائسرائن کی تواضع کی

وائسرائے کی محافلِ چمن کی بے مثال شان و شوکت

حصہ دوم: ڈسٹرکٹ اور سیشن جج

میرے کام کا طریقہ کار

سزائے موت دینا

کوڑے مارنا

غیر جانب داریت کا سوال

تین کہانیاں

دو ستائشیں جن پر مجھے اب تک فخر ہے

جنوبی ایشیا میں برطانوی نظام انصاف

خان برادران

اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں باب لکھے ہیں۔یہ فہرست پڑھنے کے بعد میرا شوق اس تاریخ سازشخصیت کے بارے میں جاننے کا جنون اور بڑھتا گیا میں  نے گریس سپروےGrace Spurvey کی منت سماجت شروع کی لیکن وہ اصلی کتاب کینیڈا میں  کسی ایسے شخص کو دینے کو تیار نہ ہوئی جو اس کی کاپی کرکے مجھے بھجوا سکے ساتھ ہی میں اپنی بہن سے بھی روز پوچھتا آخر ایک دن وہاں  سے خوشی خبری ملی کہ سچامن سے رابطہ ہو گیا ہے وہ سنگا پور میں  ہے اور اس نے اپنی ماں یعنی برق صاحب کی بیٹی کو برطانیہ میں  کہا ہے اور وہ جلد ہی وہ کتاب انہیں بھیج دیں  گی اور جو زمین جارج اس کی کاپی کرکے جلد ہی مجھے بھیج دیں گی اس طرح خدا خدا کرکے یہ کھوج مکمل ہوئی پھر ایک دن میری بہن نے یہ خوش خبری سنائی کہ کتاب مل گئی ہے اگلا مرحلہ برطانیہ میں  کووڈ کی بندش لہذا اس کی مناسب فوٹو کاپی کی عدم دستیابی لہ?ذا پھر میرے بھانجے شان جارج اور بہنوئی نے ساری کتاب اسکین کی اسے مجھے بھیجا اور میں نے اس کی فوٹو کاپی کروائی اور اسے پڑھا اور اپنے ایک عالم فاضل دوست صابر صاحب کی منت کی اس کا ترجمہ کرے وہ انتہائی مصروف ہوتے ہیں انہوں نے ترجمہ سے معذرت کی اور لیکن پوری آپ بیتی کا خلاصہ بتا دیا وہ حاضر خدمت ہے آپ بیتی پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے برق صاحب کی وفات پر لکھے گئے سارے آرٹیکل ان کی حقیقی زندگی سے بہت دور ہیں صرف ساجدہ مومن نے تھوڑی تحقیق کی اس کے بعد والے بڑے بڑے نام ملکی و غیر ملکی دانش وروں نے مکھی پر مکھی بیٹھا دی۔ لیکن یہاں اس آپ بیتی کے خلاصہ کے ساتھ ان بین الاقوامی شہرت یافتہ لوگوں کے مضامین بھی شامل کئے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں  نے اس عظیم ہستی کی صلاحیتوں کی بڑی کھل کر تعریف کی ہے اور انہیں سراہا ہے بے شک تحقیق انسان کو سچ دیتی ہے۔ فی الحال یہاں اس آب بیتی کا خلاصہ شائع کیا جا رہا ہے۔ لیکن میری کوشش یہ بھی ہو گئی کہ ترجمہ کر یا کروا کر اسے عام پاکستانی مسیحی نوجوانوں کے لئے بھی عام کیاجائے۔

1۔ پیدائش، نسب اور تعلیم

میں تین جولائی 1906کو ایک مسیحی گاؤں مارٹن پور میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں لاہور سے پچاس میل جنوب مشرق میں ننکانہ صاحب سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ میں اپنے دادا چودھری اللہ دتہ کے گھر پیدا ہوا۔ یہ ایک کچا گھر تھا۔ میرا دادا ایک مربع زمین کا مالک ایک عام کسان تھا۔ میرا باپ خیرالدین چار بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ میرے باپ نے میٹرک پاس کیا اور تقریباً اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی۔ ان کا سب سے چھوٹا بھائی خواندہ تھا لیکن کوئی جماعت پاس نہ تھا۔ دوسرے دو بھائی ناخواندہ رہے اور کاشت کاری میں باپ دادا کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

میرا باپ ایک استاد بن گیا اور نجی طور پر تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے بی اے کیا اور ٹیچنگ ڈپلومہ بھی حاصل کیا اور کچھ مڈل اسکولوں کے ہیڈماسٹر اور بہت ہائی اسکولوں میں سیکنڈ ہیڈماسٹر رہے۔ وہ گاؤں کے پہلے گریجوایٹ تھے اور میں گاؤں کا پہلا فرد تھا جس نے ایم اے کیا اور میری ایک بہن پہلی لڑکی تھی جس نے گاؤں میں بی اے کیا۔

خیرالدین شاعری کرتے اور برق تخلص تھا۔ انہوں نے اسے اپنا خاندانی نام بنالیا لیکن اس کے ہجے آئرش نام کے اختیار کیے۔ یہ عام بات ہے کہ ہندوستان میں ہندومت یا اسلام سے مسیحیت قبول کرنے والے یورپی یا انجیلی نام اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہندو یا مسلم نام مذہب سے پیوستہ ہوتے ہیں۔ چودھری اللہ دتہ بھی پیدائشی مسلمان تھے لیکن میرے باپ کی پیدائش سے قبل مسیحیت قبول کر چکے تھے۔ چنانچہ میں اور میرا باپ دونوں پیدائشی مسیحی تھے۔ میرا دادا اگرچہ غریب تھا لیکن گاؤں میں معزز تھا۔ تاہم میری دادی بہت چالاک، جھگڑالو اور زبان دراز عورت تھی۔ میرے باپ نے اس سے یہی عادت ورثے میں پائی۔

میرا ناناگلاب خان ایک معزز پٹھان تھا۔ ان کا قد سات فٹ اورجسامت خوب تھی۔ وہ راولپنڈی کے ایک گاؤں نتھا چھتر میں 1825 میں پیدا ہوئے اور سوسال سے زائد عمر پائی۔ ایک بار ہم صوبہ سرحد کا سفر ٹانگے پر کر رہے تھے تو میرے والد نے گلاب خان سے درخواست کی کہ حفاظت کے طور پر وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ وہ سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گئے اور گذرنے والوں کی نظریں صرف انہیں پڑتیں۔ نتھا چھتر ایک قدیم گاؤں تھا جس کی بنیاد گلاب خان کے اجداد نے رکھی تھی۔ یہ ایک مسلم گاؤں تھا۔گلاب خان نے ایلیمنٹری تعلیم حاصل کی اور ناظرہ قرآن پڑھا تھا۔ وہ مذہبی مزاج والے تھے اور اسلام پر متعدد کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔چالیس برس کی عمر میں مسیحیت کی طرف راغب ہوئے۔ انہیں ایک مٹھائی والے نے بائبل کے ایک ورق میں مٹھائی لپیٹ کر دی اور انہوں نے اس کاغذ کی عبارت پڑھی۔ بعد میں بائبل کا اردو ترجمہ حاصل کیا اور اپنے مسلم رشتہ داروں کو پڑھ کر سنانے لگے۔اس باعث انہیں کافر قرار دے کرگاؤں سے نکال دیا گیا۔ وہ سرکاری حکام کی مدد سے  گاؤں واپس آئے اور 1909 میں گاؤں کے سربراہ بنے۔اس دوران میں گلاب خان کو اسکاٹش مشنری نے 1875میں بپتسمہ دیا اور وہ ہندوستان کے جنوب مغربی علاقوں میں ایک ایونجلسٹ بن گئے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اعتراف کرتے کہ پہلے پہل ان میں عاجزی کی مسیحی قدر پیدا نہ ہوئی تھی اور وہ انجیل کی تبلیغ کے دورا ن  بدمزاج لوگوں کو ڈانٹنے سے نہ ہچکچاتے۔ امریکی مشنریوں نے سوچا کہ اس کی شادی کسی پرانے مسیحی خاندان کی غریب عورت سے کروا دی جائے تو یہ پرامن ہو جائیں گے۔ انہیں 1887 میں امرتسر بھیجا گیا۔ گلاب خان وہاں پہنچے تو خواتین خانہ ایک غصیلے پٹھان کو گھر میں آتا دیکھ کر چھپ گئیں۔ گھر کے سربراہ بندوق نکال لائے لیکن ان کے نوکر نے گلاب خان سے بات چیت کی اور آمد کا مقصد جان کر سب پرسکون ہو گئے۔ ایک نیک اور چھوٹے قد کی خاتون سے شادی کا بندوبست کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ خاتون خاموش طبع اور امورِ خانہ داری میں ماہر تھیں اور روزانہ دو بار بائبل سے دعا کرتیں۔ ان کا نام مارتھا تھا۔اپنی اسّی کی دہائی میں ایک ڈاک ٹرین نے انہیں ٹکر ماری جب وہ ریلوے لائن پار کر رہے تھے۔ وہ شدید زخمی ہوئے اور دو سال تک بستر پر رہے۔ آخرکار وہ لاٹھی کے سہارے چلنے پھرنے لگے۔ ان کی بیوی ان سے بہت چھوٹی تھی لیکن ان سے بہت پہلے فوت ہو گئی۔ اپنی آخری عمر میں وہ نرم خو ہو گئے تھے۔ میرے سمیت ان کے شرارتی پوتی پوتیاں اور نواسے نواسیاں ان کے گرد جمع ہو جاتے اور مٹھائیوں کا مطالبہ کرتے یہاں تک کہ ان کی تھوڑی سی پنشن ختم ہو جاتی۔

1889 میں گلاب اور مارتھا کے ہاں ایک بیٹی بشیرالنسا بیگم پیدا ہوئیں۔ وہ میری ماں تھیں۔ وہ صورت اور سیرت کے لحاظ سے خوب صورت تھیں۔ ان کی عمر ستاسی برس ہوئی۔ انہیں کبھی آپے سے باہر ہوتے نہ دیکھا گیا۔ میرے اندر جو بھی خوبیاں ہیں انہی کی طرف سے آئی ہیں۔ وہ اسکول تک پڑھی تھیں لیکن علم والی تھیں کیونکہ دن بھر کی مشقت کے بعد دیے کی روشنی میں پڑھتیں۔ میرے والد انہیں روشنی بجھا کر سونے کو کہتے۔ 1956میں میرے والد فوت ہو گئے اور میری ماں بنکاک چلی گئیں جہاں میں سفیر تعینات تھا۔ وہ بائبل اور کچھ دیگر کتب ساتھ لے کر گئی تھیں۔ باپ کی موت کے بعد ہم نے انہیں اپنے ساتھ رہنے کو کہا لیکن وہ مارٹن پور والے گھر  میں ہی رہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے اور اپنے ذاتی مسائل میں ان سے رہنمائی لیتے۔میری ماں بہترین باورچی، کامل ماں اور باوفا بیوی تھیں۔

میں اپنے والدین میں طاقت کے عدم توازن پر کڑھتا تھا۔والدہ کردار، دانائی اور اطوار میں والد سے برتر تھیں لیکن اچھے برے سب فیصلے والد کرتے تھے۔ بعض اوقات والد والدہ سے سختی کرتے جس پر بے بسی میں میرا خون کھولتا۔ تاہم والدہ نے کبھی شکایت نہ کی۔ وہ مجسم صبر تھیں۔والدہ سے میرا یہی جھگڑا رہتا کہ وہ بیٹوں کی طرف داری کرتی تھیں۔ لڑکوں میں کوئی سرخاب کا پر نہ تھا لیکن خاندان کے وسائل ان کی تعلیم پر لٹائے جاتے۔ بیٹیاں دوسرے درجے کے افراد تھیں۔میں بڑا ہو کر عورتوں کے مساوی حقوق کا حامی ہو گیا۔ خدا نے ہمیں چار بیٹیاں عطا کیں۔ میں نے انہیں لڑکوں کی طرح تعلیم دلوائی۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ روزی روٹی کمانے کے قابل بنیں تاکہ روٹی اور چھت کے لیے غیر معقول خاوندوں کی منت سماجت نہ کرنی پڑے۔ میری انگریز بیوی پچھتاتی کہ کوئی بیٹا نہیں ہوا۔ میں ہنستا کہ مشرقی ہو کر بھی مجھے کوئی پروا نہیں اور تم مغربی ہو کر بھی پریشان ہو۔میری بڑی بہن نے بی اے کیا اور صوبہ پنجاب میں پہلی خاتون فزیکل انسٹرکٹر بنی۔ اس نے ایک نیوی افسر سے شادی کی لیکن اسے کھو دیا اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا ابھی اسکول میں تھے۔ اس کی تعلیم کام آئی۔ اس نے وظیفہ حاصل کیا اور ایک امریکی یونیورسٹی سے آرٹ اور گھریلو صحت میں ڈگریاں لیں۔ وہ کینیڈا میں ٹیچر بنی اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ باقی تینوں  بہنیں سکول سے آگے نہ جا سکیں۔ میرے چار میں سے تین بھائیوں نے یونیورسٹی سے ڈگریاں لیں۔

میں نے اپنے باپ سے وہ چیزیں سیکھیں جو نہیں کرنی چاہئیں لیکن ایک صفت نے ہم بھائیوں کو بہت فائدہ دیا۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم سب بہترین کالجوں میں تعلیم حاصل کریں۔ بہترین کوشش کے باوجود ہم سب کے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکتے تھے۔میرا خیال ہے کہ وہ معمولی ٹیچر سے کچھ زیادہ بن سکتے تھے۔ ان کے پاؤں میں چکر تھا۔ وہ نوکریاں بدلتے رہتے اور بے روزگار رہتے۔ آمدن نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ اس سے مجھے تکلیف ہوتی اور میں نے دو باتوں کا تہیہ کر لیا۔ اول یہ کہ مستقل ملازمت حاصل کروں گا۔ اس سے مجھے ذہنی سکون ملے گا اور اہم معاملات پر توجہ مرکوز رہے گی۔ دوسرا یہ کہ میں اپنے ذمہ واجب الادا رقم فوری طور پر ادا کر دیا کروں گا تاکہ ذہن پر بوجھ نہ رہے۔ میں نے یہ بھی عہد کیا کہ کبھی غصہ میں نہ آؤں گا۔ بدقسمتی سے باپ کا خون جوش مارتا اور میں غصہ ہو جاتاحالانکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ اس سے میرا ہی نقصان ہوتا ہے۔

میرے والد کے جگہیں بدلتے رہنے سے میں بھی سکول سکول گھوما لیکن کوشش کر کے ہمیشہ کلاس کا ذہین طالب علم رہا۔ میرا والد اس پر فخر کرتا اور میری مزید حوصلہ افزائی ہوتی۔ بچوں کو سزا دینا اساتذہ کی عادت تھی۔ ایک سزا یہ تھی کہ ڈیسک پر کھڑا کر دیتے تھے۔ ایک دن میں بنچ پر کھڑا تھا اور میرے والد کلاسوں کا دورہ کرتے ہوئے آن پہنچے۔ اگرچہ میں اکیلا نہیں تھا لیکن والد نے کہا کہ یہ شرم ناک بات ہے کہ ہیڈماسٹر کا بیٹا شرارتوں کی وجہ سے کھڑا ہو۔ وہ مجھے اپنے دفتر میں لے گئے اور میرے ہاتھ پر زور سے چھے دفعہ بید کی چھڑی ماری۔ مجھے اس نا انصافی پر غصہ آیا لیکن فخر بھی ہوا کہ والد توقع کرتے ہیں کہ دوسرے لڑکوں سے بہتر کردار کا حامل بنوں۔

جار ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply